اعراض کی ضرورت
جس طرح تصویر جدید صحافت کا ایک حصہ ہے، اسی طرح کارٹون بھی جدید صحافت کا ایک حصہ ہے۔ تصویر اور کارٹون دونوں کا مقصد ایک ہے—صحافت کو قارئین کے لیے دلچسپ بنانا۔ کارٹون کامقصد نہ کسی کی تعریف ہوتی ہے اور نہ کسی کی توہین۔ وہ اخبار کا صرف ایک تفنّن آمیز جُز (comic item) ہوتا ہے۔ سنجیدہ آدمی کا رٹون کو دیکھ کر یا اس سے محظوظ ہوگا یا وہ سادہ طورپر اس کو نظرانداز کردے گا۔
ڈنمارک کے ایک اخبار شیلاندس پوستین (Jyllands Posten) ۳۰ ستمبر ۲۰۰۵ میں ایک مضمون کے تحت، ایک کارٹون چھپا۔ اس کارٹون میں پیغمبر اسلام ﷺ کا ایک خاکہ بنایا گیا تھا،اور آپ کے سر پر ایک پگڑی دکھائی گئی تھی جس کی بناوٹ بم کی مانند تھی۔ اس کارٹون کی خبر جب مسلم دنیا تک پہنچی تو تمام مسلمان اس پر برہم ہو گئے۔ کچھ لوگوں نے توڑ پھوڑ شروع کردی۔ کچھ لوگوں نے تقریر اور تحریر میں اس کے خلاف احتجاج کیا۔ میرے علم کے مطابق، ساری مسلم دنیامیں غالباً کوئی شخص نہیں تھا جو مسلمانوں کے اِس منفی ردّعمل کی کھُلی مذمت کرے۔قابلِ اعتراض کارٹون کی مذمت کرنا اور منفی احتجاج کی مذمت نہ کرنا بلاشبہہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔
کارٹون کے خلاف اِس منفی ردّ عمل کو یہ کہہ کر جائز قرار دیا گیا کہ وہ پیغمبر اسلام کو بدنام کرنے کی مہم کے تحت کیاگیا ہے اور اِس قسم کی مہم ہمارے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ مگر یہ سوچ اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، اِس طرح کے معاملے میں صحیح سوچ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس کا اصل سبب کیا ہے، اوراصل سبب کی نسبت سے اپنے ردّ عمل کا تعیّن کیا جائے۔ غور کیجئے تو اِس قسم کے کارٹون کو وجود میں لانے کے ذمّے دار خودمسلمان ہیں۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کے اندرذاتی احتساب(introspection) کا ذہن اُبھرنا چاہیے نہ کہ دوسرے کے خلاف احتجاج ظاہر کرنے کا ذہن۔
عربی مثل ہے کہ تعرف الاشیاء باضدادھا (چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں) اس اصول کو اِس معاملے میں استعمال کرکے دیکھے۔ دنیا میں ایک درجن بڑے مذاہب ہیں۔ ہر مذہب کے مقدس پیشوا ہیں۔ مگر اِن پیشواؤں کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا کہ ان کے سر پر بم رکھاہوا دکھایا جائے۔ پھر کیوں ایسا ہے کہ پیغمبر اسلام کے ساتھ اس قسم کا معاملہ پیش آیا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ مسلمان لمبے عرصے سے اسلام کے نام پر جگہ جگہ تشدد کررہے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی تشدد میں ملوّث ہیں۔ مثلاً آئر لینڈ میں عیسائی، آسام میں ہندو، سری لنکا میں بدھسٹ وغیرہ۔ مگر فرق یہ ہے کہ دوسرے مذہب کے لوگ اپنا متشددانہ عمل اپنے قومی مفاد کے نام پر کرتے ہیں، جب کہ مسلمان اپنے متشددانہ عمل کو اسلامی جہاد کے نام پر کرتے ہیں۔
ایسی حالت میں یہ ایک فطری بات ہے کہ دوسری قوموں کا متشددانہ عمل ان کی اپنی قوم کی طرف منسوب کیا جائے۔ اور مسلمانوں کا متشددانہ عمل ان کے مذہب کی طرف منسوب ہو اور مذہبِ اسلام کی بدنامی کا سبب بنے۔ اس اعتبار سے غور کیجئے تو مذکورہ اخباری کارٹون کو دیکھنے کے بعد مسلمانوں کے اندر ذاتی احتساب کا جذبہ اُبھرنا چاہیے تھا۔ وہ کہتے کہ ہم نے خود اپنی روش کے ذریعے دنیا کو یہ تاثر دیا ہے کہ پیغمبر اسلام کا مذہب، تشدد کا مذہب ہے۔ اس لیے ہم کو چاہئے کہ ہم اسلام کے نام پر کیے جانے والے تشدد کو مکمل طورپر چھوڑ دیں۔ یا اگر تشدد کرنا ہے تو اس کو اسلام کے نام پر نہ کریں، جیسا کہ دوسرے مذاہب کو ماننے والے کررہے ہیں۔
اسلام کی تعلیمات میں سے ایک اہم تعلیم وہ ہے جس کے لیے قرآن میں صبر اور اعراض کے الفاظ آئے ہیں۔ صبر اور اعراض، تشدد کے برعکس رویّے کا نام ہے۔ تشدد یہ ہے کہ کوئی بات جو آپ کو ناگوار معلوم ہو اس پر مشتعل ہوجانا، اور احتجاج یا تخریب کاری کی صورت میں اپنے انتقامی جذبے کا اظہار کرنا۔ اس کے برعکس، صبر و اعراض یہ ہے کہ ناخوش گوارباتوں کا سامنا تحمل کے ساتھ کیا جائے۔ اپنے آپ کو منفی کارروائیوں سے بچایا جائے تاکہ اپنے مقصد کی طرف مثبت سفر کو جاری رکھا جاسکے۔
موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ یہاں فطری طورپر ایسا ہوگا کہ بہت سے لوگ اپنی آزادی کا غلط استعمال کریں گے۔ جس سے آپ کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی۔ لیکن یہ صورت حال کسی فرد یا قوم کی سازش کا نتیجہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ خدا کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کا نتیجہ ہے۔ خدا نے لوگوں کو جب امتحان کے لیے آزادی دی ہے تو ضرور ایسا ہوگا کہ لوگ اپنی آزادی کا غلط استعمال کریں۔ خدا جب تک لوگوں کی آزادی کو منسوخ نہ کرے اس کا غلط استعمال بھی بہر حال جاری رہے گا۔
ایسی حالت میں ناخوش گوار واقعات پر مشتعل ہونا، کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی خدا کے تخلیقی نقشے پر راضی نہیں۔ خدا کی قائم کردہ دنیا اس کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ایک اور دنیا ہو جو اس کی اپنی مرضی کے مطابق ہو۔ مگر ایسا ہونا کبھی ممکن نہیں۔ انسان اپنی پسند کی ایک اور دنیا نہیں بنا سکتا۔ اس لیے اس پر لازم ہے کہ وہ خدا کے تخلیقی نقشے کو مان کر اس کے تحت، اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جس طرح دوسری باتوں کے نمونے موجود ہیں، اسی طرح مذکورہ صورت حال میں بھی آپ کی زندگی میں ہمارے لیے نمونہ موجود ہے۔ مثال کے طورپر ابنِ اسحاق کی روایت کے مطابق، قریش نے رسول اللہﷺ کا نام مُذمَّم (قابلِ مذمّت) رکھا تھا۔ پھر وہ آپ پر سبّ و شتم کرتے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے تھے کہ کیا تم کو اِس پر تعجب نہیں کہ اللہ نے مجھ کو قریش کی ایذا رسانی سے بچا لیا۔ وہ مجھ کو مذمم کہہ کر میرا سب وشتم کرتے ہیں اور میری ہجو کرتے ہیں، حالاں کہ میں محمد (قابل تعریف) ہوں۔ (سیرتِ ابن ہشام، جلد اول، صفحہ ۳۷۹) یعنی اُن کی باتیں میرے اوپر پڑنے والی نہیں۔ یہ لوگ مذمم پر سب وشتم کررہے ہیں جب کہ میرا نام محمد ہے نہ کہ مذمّم۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس نمونے کی روشنی میں یہ ہونا چاہیے تھا کہ مسلمان جب مذکورہ کارٹون کو دیکھیں تو وہ یہ کہہ کر اس کو نظر انداز کردیں کہ پیغمبر اسلام تو بم بردار نہیں تھے بلکہ وہ امن بردار تھے۔ اس لیے یہ کارٹون پیغمبر اسلام سے متعلق نہیں ہوسکتا۔ وہ کسی اور انسان سے متعلق مانا جائے گا جو بم بردار ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ اِس طرح کے معاملے میں دیکھنے کی اصل بات یہ نہیں ہے کہ ہمارے اپنے نقطۂ نظر سے صحیح کیا ہے اور غلط کیا بلکہ دیکھنے کی اصل بات یہ ہے کہ اگر ہم نے اقدام کیا تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ جیسا کہ معلوم ہے، جب سے پریس کا زمانہ آیا ہے اِس طرح کے معاملات بار بار پیش آتے ہیں۔ ہر بار مسلمان اس پر سخت برہمی کا ظہار کرتے ہیں۔ حتی کہ وہ توڑ پھوڑ اور تشدد کا طریقہ بھی اختیار کرتے ہیں۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ نتیجہ ہمیشہ برعکس صورت میں نکلتا ہے۔ یعنی اخباروں یا کتابوں میں مسلم نقطۂ نظر سے ناخوش گوار باتوں کا چھپنا تو بند نہیں ہوتا، البتہ اسلام شدید طور پر بدنام ہوجاتا ہے، اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات کی فضا بگڑ جاتی ہے۔ دونوں کے درمیان وہ معتدل ماحول باقی نہیں رہتا جو کسی مثبت کام کے لیے ضروری ہے۔ خاص طورپر دعوتی کام کے اعتبار سے دیکھئے تو اس طرح کا منفی ردّ عمل، قاتلِ دعوت کی حیثیت رکھتاہے۔
موجود ہ زمانے میں اخباروں اور کتابوں میں برابر ایسی چیزیں چھپتی رہتی ہیں جو اسلام کی تصویر کو بگاڑنے والی ہوتی ہیں۔ اس کا صحیح جواب یہ نہیں ہے کہ اس کے خلاف مظاہرے کیے جائیں بلکہ اس کا صحیح اور مؤثر جواب یہ ہے کہ ایسی کتابیں تیار کرکے چھاپی جائیں جو ہر اعتبار سے نہایت اعلیٰ معیار کی ہوں۔ ان میں ایسے دلائل کے ذریعے اسلام کی مثبت تصویر کو پیش کیا جائے جو لوگوں کے ذہنوں کو مطمئن کرنے والے ہوں، اور لوگوں کے دلوں میں اُتر جائیں۔
موجودہ صورتِ حال میں اسلام کی نسبت سے، سب سے بڑا مسئلہ وہ ہے جس کو امیج بلڈنگ (image building) کہا جاتا ہے۔ یعنی اسلام کے خلاف غلط فہمیوں کو دور کرنا اور اسلام کی صحیح تصویر لوگوں کے سامنے لانا۔ یہی کرنے کا اصل کام ہے، اور کرنے والوں کو یہی کام کرنا چاہیے—لمثل ہٰذا فلیعمل العاملون۔