جنت کا استحقاق
جنت بے حد عظیم نعمت ہے۔ وہ بے حد مہنگی قیمت پر کسی کو ملے گی۔ بہت تھوڑے خوش نصیب لوگ ہوں گے جو جنت کی لطیف دنیا میں بسائے جانے کے قابل ٹھہریں۔
جنت میں داخلے کا پہلا امتحان یہ ہے کہ آدمی معرفت کے درجے میں اپنے رب کو پائے۔ افکار و خیالات کے جنگل میں وہ سچائی کو دریافت کرے۔ وہ نہ دکھائی دینے والے واقعے کو دیکھے۔ وہ نہ محسوس ہونے والی چیز کو محسوس کرے۔ وہ ظاہری ہنگاموں سے گزر کر باطن کی دنیا کا مسافر بن جائے۔
اسی طرح جنت میں داخلے کی شرط یہ ہے کہ آدمی سرکشی کا اختیار رکھتے ہوئے اپنے آپ کوخدا کے آگے جھکادے۔ خود پرست بننے کے تمام محرکات کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ سچا خداپرست بن جائے۔ کشش اور جاذبیت کے بے شمار مراکز سے منہہ موڑ کر وہ ہمہ تن خدا کی طرف متوجہ ہوجائے۔
اسی طرح جنت میں داخلہ صرف اس شخص کے لیے ممکن ہوگا جو منفی حالات کے درمیان ہمیشہ مثبت ذہن پر قائم رہے۔ جو اپنے سینے میں اٹھنے والے حسد اور گھمنڈ اور انتقام جیسے جذبات کو دفن کر کے یک طرفہ طور پر لوگوں کے لئے شفقت اور خیر خواہی کا پیکر بن جائے۔ جو ظلم اور بے انصافی کے مواقع کو پانے کے باوجود انہیں استعمال نہ کرے اور ہرحال میں اپنے آپ کو عدل و انصاف کا پابند بنالے۔
جنت ایک نفیس ترین خدائی کالونی ہے۔ اس نفیس کالونی میں صرف وہی روحیں داخل ہوں گی جو آخرت میں اس طرح پہنچیں کہ دنیا میں انھوں نے اپنے اوپر تطہیر کا عمل کر لیا تھا۔
موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ یہاں ہر آدمی کثیف شخصیت کے ساتھ پیدا کیا جاتا ہے۔ اب ہر آدمی کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی ذات پر خود تطہیری کا ایک مسلسل عمل شروع کرے۔ یہاں تک کہ اس کی کثیف شخصیت پاک و صاف ہو کر لطیف شخصیت میں بدل جائے۔
جنتی انسان وہ انسان ہے جو کانٹوں کے درمیان پھول بن کر رہے۔ جو اندھیروں کے درمیان روشنی کا مینار بن سکے۔ جو زلزلوں اور طوفانوں کے درمیان سکون کا راز پالے۔جو نفرتوں کے درمیان محبت کا ثبوت دے۔ جو لوگوں کی زیادتیوں کے باوجود یک طرفہ طور پر انھیں معاف کر دے۔ جو کھونے میں بھی پانے کا تجربہ کرے۔
جنتی انسان وہ ہے جو بظاہر خدا سے دور ہوتے ہوئے بھی خدا سے قریب ہوگیا ہو۔ جو سورج کی شعاعوں میں خدا کے نور کو دیکھے۔ جو ہواؤں کے جھونکے میں لمسِ ربانی کا تجربہ کرے۔ جو پہاڑوں کی بلندی میں خدا کی عظمت کا تعارف حاصل کرسکے۔ جو دریاؤں کی روانی میں خدا کی رحمت کا مشاہدہ کرے۔ جو مخلوقات کے آئینے میں خالق کا جلوہ دیکھنے لگے۔
خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے یہ بتا دیا ہے کہ جنتی انسان کی صفات کیا ہوتی ہیں۔ جو لوگ دنیا کی زندگی میں اپنے اندر جنتی صفات پیدا کریں، وہ موت کے بعد جنت میں داخلے کے مستحق قرار پائیں گے۔
جنت میں داخلہ نہ کسی سفارش کی بنیاد پر ہوگا، نہ کسی کے ساتھ نسبت کی بنیاد پر اورنہ کسی پراسرار عملیات کی بنیاد پر۔ جنت میں داخلہ پوری طرح معلوم حقیقت پر مبنی ہے۔ اور وہ یہ کہ جو آدمی موجودہ دنیا میں اپنے قول و عمل کے اعتبار سے جنتی انسان بن کررہے گا، وہ آخرت کی جنت میں داخلہ پائے گا۔
قرآن کے مطابق، جنت اہل تزکیہ کے لئے ہے(طٰہٰ: 76)۔ تزکیہ یہ ہے کہ آدمی غفلت کی زندگی کو ترک کرے اور شعور کی زندگی کو اپنائے۔ وہ اپنے آپ کو ان چیزوں سے بچائے جو حق سے روکنے والی ہیں۔ مصلحت کی رکاوٹ سامنے آئے تو اس کو نظر اندازکر دے۔ نفس کی خواہش ابھرے تو وہ اس کو کچل دے۔ ظلم اور گھمنڈ کی نفسیات جاگے تو وہ اس کو اپنے اندر دفن کردے۔