بھُلاوَہ کلچر

موجودہ زمانے میں جو ترقی یافتہ کلچر ساری دنیا میں رائج ہوا ہے اس کے مختلف نام دئے جاتے ہیں—ماڈرن کلچر، کنزیومر کلچر، مٹیریل کلچر، انٹرٹینمنٹ کلچر، سیکولر کلچر، ویسٹرن کلچرل وغیرہ۔ مگر زیادہ صحیح طورپر اس کا نام صرف ایک ہے اور وہ ہے بھلاوہ کلچر۔

اس کلچر نے موجودہ زمانے میں پہلی بار یہ کیا ہے کہ بہت بڑے پیمانے پر انسان کو بھلاوہ میں ڈال دیا ہے۔ آج کا انسان مختلف قسم کی نئی نئی چیزوں میں مشغول رہتا ہے۔ اس طرح اس کی زندگی میں وہ موقع ہی نہیں آتا کہ وہ حقیقتِ اعلیٰ کے بارے میں سوچ سکے۔

قدیم زمانے میں انسان کے پاس بہت سے ایسے لمحات ہوتے تھے جب کہ وہ مشغولیت سے خالی ہوتا تھا۔ ان خالی اوقات کو وہ معنویت کی تلاش میں گزارتا تھا۔ وہ اشیاء کی حقیقت پر غور کرتا تھا۔ وہ کوشش کرتا تھا کہ ظاہری دنیا کے پیچھے جو اعلیٰ حقیقت ہے اس کو سمجھ سکے۔ مگر موجودہ زمانے کی مصنوعی سرگرمیوں نے انسان کو اپنی طرف اتنا زیادہ کھینچ لیا ہے کہ کسی کے پاس بھی اب زیادہ با معنی سوالات پر غورکرنے کا وقت نہیں۔

انسانی زندگی کے بارے میں ایک سوال یہ ہے کہ مادی ضرورتوں کی تکمیل کس طرح کی جائے۔ پچھلے زمانے میں یہ سوال ایک سادہ سوال کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ زندگی کی ضرورت کو فراہم کیاجاسکے۔ مگر جدید کلچر نے اس مسئلے کو بہت زیادہ بڑھایا۔ پہلے یہ سوال تھا کہ زندگی کے لیے سہولتیں کس طرح حاصل کی جائیں۔ اس کے بعدآگے بڑھ کر یہ سوال توجہ کا اصل مرکز بن گیا کہ زندگی کے عیش (luxuries) کو کس طرح فراہم کیا جائے۔ مزید آگے بڑھ کر یہ سوال یہاں تک پہنچا کہ زندگی کو کس طرح زیادہ سے زیادہ پر لطف بنایا جائے۔ انسانی خواہشوں کو کس طرح زیادہ سے زیادہ پورا کیا جائے۔ یہاں پہنچ کر انسان نے اپنی پوری زندگی صرف راحت کے مادی سامانوں کی فراہمی میں لگادی۔ اس کے پاس اس کا وقت ہی نہ رہا کہ وہ زندگی کو زیادہ بامعنیٰ بنانے کے لیے سوچے یا وہ اس کے لیے کچھ کرے۔یہی وہ صورت حال ہے جس کی بنا پر ہم نے موجودہ کلچر کو بھلاوہ کلچر کہا ہے۔

انسانی زندگی کے دو پہلو ہیں۔ ایک ہے زندگی کی ضرورت، اور دوسرا ہے زندگی کا مقصد۔ موجودہ زمانے کی ترقیوں کا ایک بُرا پہلو یہ ہے کہ اس نے ضرورت کے سامان بہت زیادہ بڑھا دیے اور ان سامانوں کو بہت زیادہ خوش نما بنا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب انسان کی ساری توجہ ضرورت کی چیزوں پر لگ گئی۔ ضرورت کی فہرست اتنی زیادہ لمبی ہوگئی جو کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ ضرورت کے سامانوں کا حصول ہی انسان کے لیے سب کچھ بن گیا۔ پچھلے زمانے میں ضرورت کی تکمیل چند سادہ چیزوں سے ہوجاتی تھی، مگر اب اس کی فہرست اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ وہ کبھی ختم ہی نہیں ہوتی۔

سامانِ ضرورت نے اب ایک مستقل مذہب کی صورت اختیار کرلی ہے، جس کا نام کنزیومرازم ہے۔ اس کا سنگین انجام یہ ہوا ہے کہ اب کسی انسان کے پاس مقصدِ حیات کے سوال پر سوچنے کا وقت نہیں۔ اب اعلیٰ مقصد ایک نامانوس لفظ بن گیاہے۔ اِس صورت حال کو ایک لفظ میں اس طرح بیان کی جاسکتا ہے کہ جدید کنزیومرازم نے انسان کو حیوانی سطح پر جینے کے لیے مجبور کردیا ہے۔ انسانیت کی اعلیٰ سطح پر جینا، اب لوگوں کے لیے ایک غیر معروف لفظ کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس صورت حال کی بھاری قیمت انسان کو یہ دینی پڑی ہے کہ اس کا ذہنی ارتقاء (intellectual development) رُک گیا ہے۔ آج تقریباً تمام انسانوں کا یہ حال ہو رہا ہے کہ ان سے اُن کے پروفیشنل موضوع پر بات کیجئے تو وہ اس میں خوب ماہر دکھائی دیں گے۔ لیکن اگر ان کے پروفیشنل موضوع کے علاوہ دوسرے انسانی موضوعات پر بات کیجئے تو ایسا محسوس ہوگا گویا کہ آپ ایک نادان انسان سے بات کررہے ہیں۔ جسمانی اعتبار سے بظاہر وہ پُر رونق دکھائی دیں گے لیکن ذہنی معیار کے اعتبار سے وہ ایک بَونا انسان معلوم ہوں گے۔

موجودہ کنزیومر کلچر کو اگر حیوانی کلچر کانام دیا جائے تو شاید وہ غلط نہ ہوگا۔ حیوانی کلچر کے اِس فروغ کا یہ سنگین نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ موجودہ زمانے کے عورت اور مرد ایک قسم کے ذہنی بونے پن (intellectual dwarfism) کا شکار ہو کر رہ گیے ہیں۔

آج کے انسان کا حال یہ ہے کہ اس کو جسمانی غذا تو خوب مل رہی ہے، مگر دوسرے پہلو سے وہ ذہنی فاقہ (intellectual starvation) کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔ آج انسان کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ اس کو ذہنی فاقے کے اِس بحران سے باہر نکالا جائے۔ اس کو شعوری اعتبار سے اِس قابل بنایا جائے کہ وہ زیادہ گہرے حقائق پر سوچ سکے۔ وہ زیادہ با معنیٰ موضوعات کو اپنی توجہ کا مرکز بنا سکے۔ وہ حیوان کی سطح سے بلند ہو کر انسان کی سطح پر جینے لگے۔

انسان کی ذہنی تاریخ کے دو دَور ہیں۔ ایک، کنزیومر کلچر کے فروغ سے پہلے، اور دوسرا، کنزیومر کلچر کے فروغ کے بعد۔ گہرائی کے ساتھ دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ کنزیومر کلچر کے فروغ سے پہلے انسان نے علم اور ادب کے میدان میں بہت زیادہ ترقیاں حاصل کی تھیں۔ اس زمانے میں بہترین علمی اور ادبی کتابیں وجود میں آئیں۔ مگر کنزیومر کلچر کے فروغ کے بعد یہ ہوا کہ علم و ادب کی ترقی رُک گئی۔ بعد کے اِس دو رمیں مشکل ہی سے کسی ایسی کتاب کا نام لیا جاسکتا ہے جو علم و ادب کے اعتبار سے اعلیٰ معیار پر تیار کی گئی ہو۔

اس فرق کا معاملہ خود سائنس تک پہنچا ہے۔ کنزیومر کلچر کے فروغ سے پہلے نظری سائنس کو زبردست ترقی ہوئی تھی۔ سائنس کے شعبوں میں بڑے بڑے اہلِ دماع پیدا ہوئے، مگر کنزیومر کلچر کے فروغ کے بعد نظری سائنس کی ترقی تقریباً رُک گئی۔ اب اہلِ سائنس زیادہ تر اُن موضوعات پر کام کررہے ہیں جو آج کل کی اصطلاح میں مارکیٹ ایبل (marketable) آئٹم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پچھلے دَور میں سائنس، علمی تحقیق کا نام تھی۔ مگر اب سائنس زیادہ تر ایک قسم کی اقتصادی سرگرمی (commercial activity) بن کر رہ گئی ہے۔

اِس صورتِ حال کا یہ بھیانک نتیجہ ہوا ہے کہ علمی اور ذہنی ترقی کا سفر تقریباً رُک گیا ہے۔ ہر طرف خوش نما انسان چلتے پھرتے نظر آتے ہیں مگر حقیقی انسان تلاش کرنے کے باوجود کہیں نہیں ملتا۔ اِس صورتِ حال کو بدلنا نہایت ضروری ہے۔ ورنہ انسانی آبادی ایک نیے قسم کا جنگل بن کر رہ جائے گی، قدرتی جنگل اور تمدنی جنگل میں صرف یہ فرق ہوگا کہ قدرتی جنگ کے حیوان فطرت کے لباس میں چل پھر رہے ہوں گے، اور تمدّن کے جنگل میں خوش پوش حیوان چلتے پھرتے دکھائی دیں گے۔

نظریۂ ارتقاء کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان اور حیوان کا جسم بہت زیادہ ایک دوسرے سے مشابہ ہے۔ جسمانی افعال دونوں کے اندر یکساں قسم کے پائے جاتے ہیں۔ غذائی ہضم کا نظام جو ایک کے اندر ہے وہی دوسرے کے اندر بھی ہے۔ گویا کہ حیوان چار پاؤں سے چلنے والا انسان ہے، اور انسان دو پیروں سے چلنے والا حیوان۔

مگر نفسیات کا مطالعہ ایک مختلف تصویر پیش کرتا ہے۔ نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان ساری کائنات میں ایک انتہائی استثنائی مخلوق کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان کی اس استثنائی حیثیت کا سبب صرف ایک ہے اور وہ انسان کا دماغ ہے۔ انسان کا دماغ انسان کو نہ صرف حیوانات سے بلکہ کائنات کی تمام چیزوں سے ممتاز طورپر مختلف بنا دیتا ہے۔ انسان کا دماغ انسان کی سب سے زیادہ قیمتی متاع ہے۔ یہ دماغ انسان کو ایک ایسی ممتاز حیثیت دے دیتا ہے جو وسیع کائنات میں کسی بھی دوسری چیز کو حاصل نہیں۔

کنزیومرازم کے کلچر نے انسان کے جسمانی حصے کو تو بہت کچھ دیا مگر اس کے ذہنی حصّے کو تقریباً معطّل کردیا۔ حالاں کہ یہ ذہنی حصّہ ہی انسان کا اصل وجود ہے۔ یہ ذہنی حصہ ہی انسان کو انسان بناتا ہے۔ ذہنی حصے کے بغیر انسان صرف حیوان ہے۔

اس کمی کو کو دور کرنے کے لیے ضرورت ہے کہ آج احیائِ انسانیت کی تحریک چلائی جائے۔ انسان کو دوبارہ اس کی فطرت کی طرف لوٹایا جائے۔ انسان کو دوبارہ انسان بنایا جائے۔ انسان کو اِس قابل بنایا جائے کہ وہ دوبارہ اپنے ذہنی امکانات کو بروئے کار لائے۔ وہ ذہنی ارتقاء کے راستے پر دوبارہ سرگرمِ سفر ہوجائے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom