حقیقت کی دریافت
Discovering the Truth
انسان ایک متلاشیٔ حق حیوان ہے(Man is a truth-seeking animal)۔ میں نے خود اپنی ذات میں اس کا تجربہ کیا ہے۔ میرے اندر بچپن سے سچائی کی تلاش کا جذبہ کسی نہ کسی طرح موجود تھا۔ ۱۹۴۲ میں یہ جذبہ پوری شدت کے ساتھ ابھر آیا۔ اُس زمانے میں میرا حال یہ تھا کہ میں جنگلوں اور ویرانوں میں چلا جاتا اور تنہائی میں رو رو کر یہ کہتا کہ: ’’خداوند، تو کب آئے گا۔ میں کب تک تیرے آنے کا انتظار کروں‘‘۔
آخر کار ایک خدائی کلام میں مجھے اس کا جواب ملا۔ اس کے مطابق، خدا نے فرمایا ہے: کنتُ کنزاً مخفیّا فاردتُ ان اُعرف فخلقت الخلق (میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا، پھر میں نے چاہا کہ میں جانا جاؤں۔ پھر میں نے انسان کو پیدا کیا)۔ اس ارشاد کے مطابق انسان کا مقصد وجود یہ ہے وہ اپنے خالق کی معرفت حاصل کرے۔ اور اس معرفت کی قیمت میں وہ ابدی جنت میں جگہ پائے۔ موت کے پہلے کا دور حیات حصول معرفت کا دَور ہے اور موت کے بعد کا دَور حیات آرام اور راحت کی ابدی جنت کی دنیا میں زندگی گذارنے کا دَور۔
یہ معرفتِ رب کوئی سادہ چیز نہیں۔ یہ ایک مشکل ترین مہم ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ابتدائی دَور حیات میں انسان کے رہنے کے لیے خدا نے جو دنیا بنائی وہ مکمل طورپر شبہات سے بھری ہوئی تھی۔ اس کے ہرجُز میں ایک شبہہ کا عنصر (element of doubt) پایا جاتا ہے۔ اس دنیا میں کوئی بھی فکری یاعملی چیز ایسی نہیں جو شبہہ سے خالی ہو۔ موت سے پہلے کے اِس دَورِ حیات میں انسان کا کام یہ ہے کہ وہ شبہات کے پردے کو پھاڑ کر حقیقت کو دیکھے، وہ شبہات کے باوجود کامل یقین کا درجہ حاصل کرے۔
دنیا میں جتنی بھی چیزیں ہیں ان سب پر شہات کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ انسان پیدا ہوتے ہی اپنے آپ کو اَفکار کے ایک جنگل میں پاتا ہے۔زندگی کے بارے میں مختلف قسم کے فلسفے اس کو حیرانی کا تحفہ دیتے ہیں۔ یہاں درجنوں مذاہب ہیں اور ہر مذہب اپنے بارے میں سچا ہونے کا دعویٰ کررہا ہے۔ ہر انسان اپنے اندر جذبات و خواہشات کا ایک طوفان لیے ہوئے ہے جو خالص عقلی رویّہ اختیار کرنے میں مسلسل رکاوٹ بنتا ہے۔ اسی طرح ہر آدمی کا یہ حال ہے کہ وہ خاندانی اور سماجی بندھن میں پھنسا ہوا ہے۔ ہر آدمی مفادات کے خول میں جی رہا ہے۔ ہر آدمی کی عادتیں اور رجحانات اس کو اپنے ساتھ باندھے ہوئے ہیں۔ ہرآدمی مال و اولاد، اور رشتے داروں کے جال میں اس طرح پھنسا ہواہے کہ اس کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔
ایسی حالت میں سچائی کی معرفت صرف اُس انسان کو حاصل ہوتی ہے جو اپنے اندر موضوعی طرزِ فکر (objective thinking) کی تشکیل کرسکے۔ وہ اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرسکے کہ وہ شبہات کے پردے کو پھاڑ کر حق کو حق کے روپ میں دیکھے اور باطل کو باطل کے روپ میں دیکھے۔ وہ چیزوں کو ویسا ہی دیکھے جیسا کہ وہ ہیں۔
اسی کے ساتھ اس کے اندر وہ صلاحیت ہو جس کو انقلابی صلاحیت (revolutionary nature) کہا جاتا ہے۔ یعنی جب ایک بات سمجھ میں آجائے تو کسی بھی مصلحت کی پَروا کیے بغیر وہ کھُلے طورپر اس کو قبول کرلے۔ وہ اپنی زندگی کا رُخ بدل کر دریافت شدہ حقیقت کو اپنی زندگی کا نشانہ بنالے۔
شبہات کے اِس پَردے کو پھاڑنے کا ذریعہ صرف ایک ہے۔ اوروہ ہے خالق کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) کو جاننا۔ یہ تخلیقی منصوبہ چیزوں کی اس طرح تَوجیہہ کر دیتا ہے کہ شبہات کے تمام پردے ہٹ جاتے ہیں اور حقیقت اسی طرح نمایاں ہوکر سامنے آجاتی ہے جس طرح کالے بادل چھٹنے کے بعد روشن سورج سامنے آجاتا ہے۔
خدا کا تخلیقی منصوبہ کیا ہے۔ اِس تخلیقی منصوبے کا کلیدی پہلو یہ ہے کہ انسان کو ہر قسم کی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے اورپھر اس کو مکمل طورپر آزاد کردیا گیا ہے۔ اب انسان کا امتحان یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی کو صرف صحیح طورپر استعمال کرے، وہ اپنی آزادی کا کبھی غلط استعمال (misuse) نہ کرے۔ اِسی استعمال کے اوپر انسان کے ابدی مستقبل کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ آزادی کا صحیح استعمال کرنے والوں کے لیے جنت ہے اور آزادی کا غلط استعمال کرنے والوں کے لیے جہنم۔ اِس آزادی کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس سے مسابقت اور چیلنج پیدا ہوتا ہے اور مسابقت اور چیلنج کے بغیر کوئی ترقی ممکن نہیں۔
فلسفے میں انسان اور خدا کی نسبت سے سب سے زیادہ قابلِ بحث سوال وہ رہا ہے جس کو بُرائی کا مسئلہ(problem of evil) کہا جاتا ہے۔ یعنی انسانی دنیا میں اتنی زیادہ مصیبت (suffering) کیوں ہے۔ خدا اگر مکمل خوبی ہے تو اس نے ایسی دنیا کیوں بنائی جہاں انسان طرح طرح کی مصیبتوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہے۔
خدا کے تخلیقی نقشے کو سمجھنے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ یہ تمام مصیبتیں کسی نہ کسی پہلو سے آزادی کے غلط استعمال کی قیمت ہیں۔ یہ قیمت بظاہر ایک بہت سخت قیمت ہے لیکن خدا کی طرف سے یہ خوش خبری ہے کہ موت کے بعد جب یوم الحساب (Day of Judgement) آئے گا تو خدا کسی انسان کو اس کے صرف اُس عمل پر پکڑے گا جس میں یہ ثابت ہو کہ آدمی نے اپنی ملی ہوئی آزادی کا استعمال کیا تھا۔ اس کے سوا خالق کے تخلیقی نقشے کی بنا پر کسی کو جومصیبت پیش آئے گی اُس کے لیے ایسی تلافی (compensation) کا انتظام کردیا جائے گا کہ وہ بلا اشتباہ یہ سمجھ لے گا کہ اس کے ساتھ جو ہوا وہ عین انصاف کا تقاضا تھا۔ مزید یہ کہ یہ مصیبت ایک اعتبار سے شاک ٹریٹمنٹ ہے(Shock treatment) ہے۔ کیوں کہ وہ انسان کے لیے ذہنی ارتقاء کا ذریعہ بنتی ہے۔
سفرنگ کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے یہ طریقہ کافی نہیں ہے کہ اپنے ذہنی قیاس کے تحت اس پر رائے قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ اس کو تاریخ انسانی کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کی ترقی کے لیے زیادہ بڑا عامل آرام نہیں ہے بلکہ مصیبت ہے۔ آرام میں انسان کی صلاحیتیں مفولج ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اس کے برعکس، مصیبتوں میں جو انسان بنتے ہیں وہ زیادہ بڑی بڑی ترقیاں حاصل کرتے ہیں۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ:
It is not ease but effort, not facility but difficulty that makes men.
مغرب کے ترقی یافتہ سماجوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہاں ایک نئی ’’بیماری ‘‘ پیدا ہوئی ہے جس کو افلوئنزا(affluenza) کانام دیا گیا ہے۔ یہ خوش حال طبقے کی بیماری ہے۔ خوش حال گھرانوں میں ذہنی سورماؤں کے بجائے ذہنی بونے (intellectual dwarf) بن رہے ہیں۔ ان کا آئی کیو (IQ) بہت کم ہوتاہے۔ وہ کاہل ہوتے ہیں اور کام میں حصہ نہیں لے پاتے۔ آج بھی اور پچھلی تاریخ میں ایسا ہوا ہے کہ مصیبتوں میں پلنے والے لوگوں نے بڑے بڑے کام کئے ہیں، انڈیا میں تقریباً تمام بڑے لیڈروں نے مشکل حالات میں پرورش پائی۔ اسی طرح جتنے بڑے بڑے دولت مند لوگ ہیں وہ سب غریب گھرانوں میں پیدا ہوئے اور پھر محنت کرکے ترقی حاصل کی۔
انسانی تاریخ کے ہر دور میں ایسے مفکر پیدا ہوتے رہے جنھوں نے یہ کوشش کی کہ وہ آئیڈیل انسانی سماج بنائیں یا آئیڈیل ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔ ہر ایک اپنی تمام کوششوں کے باوجود صرف ایک غیر معیاری سماج بنا سکا۔
تاریخ کا یہ ظاہرہ بھی خالق کے تخلیقی منصوبے کو سامنے رکھنے سے پوری طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ خالق نے موجودہ دنیا اِس لیے نہیں بنائی کہ یہاں آئیڈیل سماج یا آئیڈیل ریاست قائم ہو۔ موجودہ دنیا کی محدودیت اور اس کے اندر مختلف قسم کے ڈس ایڈوانٹیج(disadvantage) کا ہونا حتمی طورپر اِس امر میں مانع ہے کہ یہاں کوئی آئیڈیل سماج یا آئیڈیل ریاست قائم ہوسکے۔