عمل کا مدار نیت پر ہے
صحیح البخاری کی پہلی روایت ان الفاظ میں آئی ہے: عن عمر بن الخطاب قال: سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: إنما الأعمال بالنیات، وإنما لکل امریئٍ ما نویٰ: فمن کانت ہجرتہ إلی دنیایصیبہا أو امرأۃٍ ینکحہا فہجرتہ إلی ما ہاجر إلیہ۔
یعنی حضرت عمر فاروق نے کہا کہ میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ عمل کا مدار نیت پر ہے اور ہر آدمی کے لیے وہی ہے جس کی وہ نیت کرے، پس جس کی ہجرت دنیا کو پانے کے لیے ہو یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہو تو اُس کی ہجرت اُسی کے لیے ہے جس کی طرف اُس نے ہجرت کی۔
نیت کے معنی قصد اور ارادہ (intention) کے ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خدا کسی کے ظاہری عمل کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ آدمی نے جو عمل کیا ہے اُس کو اُس نے کس ارادے کے تحت کیا ہے۔ کسی کے عمل کی قیمت خدا کے یہاں اس کے داخلی ارادے کے اعتبار سے ہوگی، نہ کہ اُس کے ظاہرکے اعتبار سے۔
اصل یہ ہے کہ ہر عمل کی ایک داخلی اسپرٹ ہوتی ہے، اور ایک اُس کی ظاہری صورت۔ اسلام میں اصل اعتبار داخلی اسپرٹ کا ہے، نہ کہ ظاہری فارم کا۔ داخلی اسپرٹ کے بغیر ظاہری فارم بے قیمت ہے، خواہ بظاہر وہ کتنا ہی مکمل دکھائی دیتا ہو۔ خدا کے یہاں وہی عمل قبول کیا جائے گا جس کے اندر اسلام کی مطلوب اسپرٹ موجود ہو، خواہ دیکھنے والوں کو بظاہر وہ عظیم نہ دکھائی دیتا ہو۔
داخلی اسپرٹ یہ ہے کہ آدمی کا عمل قلبی جذبے کے تحت صادر ہوا ہو۔ کوئی آدمی اُس کے عمل کو دیکھنے والا نہ ہو تب بھی وہ اس عمل میں مشغول ہو۔ کسی قسم کا مادی فائدہ نہ ملنے والا ہو تب بھی وہ اپنا عمل کرتا رہے۔ یہ وہ عمل ہے جو آدمی کی داخلی شخصیت کا خارجی اظہار ہو۔ جس میں اُس کی اندرونی شخصیت بے تابانہ طورپر ظاہر ہوگئی ہو۔ جس کا محرّک صرف خدا کا خوف اور محبت ہو، کوئی بھی دوسرا محرک اُس کے عمل میں نہ پایا جاتا ہو۔