اَسلاف کا طریقہ

روی عن خارجۃ بن زید بن ثابت قال: ’’کان زید إذا سئل عن شیئٍ، قال: ہل وقع؟ فإن قالوا لہ: لم یقع، لم یخبرہم۔ وإن قالوا: قد وقع، أخبرہم‘‘ (ابن القیم، أعلام الموقعین، جلد اوّل، صفحہ 61 )

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لڑکے خارجہ کہتے ہیں کہ جب زید سے کوئی بات پوچھی جاتی تو وہ دریافت کرتے: کیا ایسا ہوچکا ہے۔ اگر انھیں نفی میں جواب دیا جاتا تو وہ مسئلہ نہ بتاتے۔ اور اگر یہ کہا جاتا کہ ایسا واقعہ بالفعل ہوچکا ہے، تو وہ سائل کو مسئلہ بتا دیتے۔

و عن مسروقٍ قال: ’’کنت أمشی مع أبیّ بن کعب فقال لہ رجل یا عماہ کذا و کذالک۔ فقال: یا ابن أخی أکان ہذا؟ قال: لا، قال: فأعفنا حتی یکون‘‘ (حوالۂ مذکورہ)

مسروق (تابعی) سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے ساتھ چل رہا تھا تو ایک آدمی نے آکر پوچھا: اے چچا، اگر ایسا اور ایسا ہو تو (یعنی کوئی فرضی مسئلہ دریافت کیا)۔ ابی بن کعب ؓ نے کہا: اے میرے بھائی کے لڑکے، کیا ایسا واقعۃً ہو چکا ہے۔ اس نے کہا کہ نہیں۔ یہ سن کر انھوں نے جواب دیا: پھر ہمیں اس وقت تک معاف رکھیں جب تک ایسا عملاً واقع نہ ہوجائے۔

یہ دونوں واقعات بتاتے ہیں کہ سوال یا استفتا کے بارے میں علماء سلف کا طریقہ کیا تھا، وہ ایسا نہیں کرتے تھے کہ محض سوال یا استفتا پر شرعی مسئلہ بیان کرنے لگیں بلکہ وہ سائل یا مستفتی سے یہ پوچھتے تھے کہ جس معاملے کے بارے میں تم مسئلہ پوچھتے ہو وہ معاملہ بالفعل پیش آچکا ہے۔ اگر وہ کہتا کہ ہاں تو شرعی مسئلہ بیان کرتے، بصورتِ دیگر وہ سائل سے کہتے کہ فرضی سوالات مت کرو۔ صرف انھیں امورمیں شرعی مسئلہ دریافت کرو جو عملاً پیش آچکے ہیں۔

یہ تھا علمائے سلف کا طریقہ اور بلا شبہہ یہی صحیح اسلامی طریقہ ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom