خدا کی حکومت
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا مشن یہ ہے کہ وہ دنیا میں خدا کی حکومت قائم کریں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ خدا کی حکومت بروقت ہی کامل طورپر قائم ہے اور مومن وہ ہے جو خدا کی اس قائم شدہ حکومت کا اعتراف کرکے اس کے آگے آزادانہ طورپر سرنڈر کر دے۔ وہ اپنے آپ کو خدا کی اس قائم شدہ حکومت کا متقیانہ شہری بنا لے۔ اسی اختیاری اطاعت کا دوسرا نام ایمان ہے۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے: أفغیر دین اللہ یبغون ولہ أسلم من فی السموات والأرض طوعاً و کرہا وإلیہ یُرجعون (آل عمران: 83) یعنی کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں۔ حالاں کہ اسی کے حکم میں ہے جو کوئی آسمان اور زمین میں ہے، خوشی سے یا ناخوشی سے اور سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اپنا دین ساری کائنات میں جبراً قائم کررکھا ہے۔ انسان کو یہی دین اپنے ذاتی فیصلہ کے تحت اختیار کرنا ہے۔ اس اختیار کا تعلق اصلاً فرد سے ہے نہ کہ نظام سے۔ اگر بالفرض کسی انسانی نظام کے اوپر اللہ کا دین قاہرانہ طاقت کے ذریعہ نافذ کردیا جائے تب بھی اللہ کا مطلوب پورا نہ ہوگا۔ کیوں کہ اللہ کے منصوبہ کے مطابق، جو چیز مطلوب ہے وہ یہ کہ ہر فرد اپنے آزادانہ اختیار کے تحت اللہ کا مطیع بن جائے۔
قرآن میں مختلف انداز سے یہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ نے اپنے پیغمبر کے ذریعہ حق اور باطل کو واضح طورپر بیان کردیا ہے۔ اب جو شخص چاہے اُس کا مومن بنے اور جوشخص چاہے اُس کا انکار کردے (فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر، الکہف: 29) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کا تخلیقی منصوبہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی منشا کا علم دے کر آزاد چھوڑدے اور پھر دیکھے کہ کون شخص آزادانہ اطاعت کا ثبوت دے کر انعام کا مستحق بنتا ہے، اور کون شخص آزادانہ نافرمانی میں مبتلا ہوکر سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔
خدا کی اطاعت کا قاہرانہ نظام اس تخلیقی منصوبہ کی نفی ہے، اس لیے وہ خدا کا مطلوب دین نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس طرح قاہرانہ اطاعت کا نظام پوری انسانی تاریخ میں کبھی اس دنیا میں قائم نہیں ہوا، اور اُس کی وجہ یہ تھی کہ وہ خدا کا مطلوب ہی نہ تھا۔