دنیا اور آخرت
قرآن میں یہ دعا بتائی گئی ہے کہ اے ہمارے رب، ہم کو دنیا میں حسنہ دے، اور ہم کو آخرت میں حسنہ دے (ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ، البقرۃ: 201)
اس کا مطلب کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کو دونوں دنیاؤں کا فائدہ دے۔ یعنی دنیا میں مال دے اور آخرت میں جنت۔ ایک مسلم صحافی نے اس نظریہ کے تحت ایک ماہانہ پرچہ نکالا اور اس کا نام رکھ دیا: ’فلاح دین‘ و دنیا۔ مگر اس قرآنی دعا کا یہ مطلب نہیں۔اس دعا میں حسنہ سے مراد وہ حسنہ ہے جو اللہ کے نزدیک حسنہ کی حیثیت رکھتی ہو، نہ کہ وہ چیز جس کو آدمی بطور خود حسنہ سمجھ لے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس دنیا میں جنتی اعمال کی توفیق اور آخرت میں جنت کے اندر داخلہ۔
ایک انسان کے لیے دنیا کا حسنہ یہ ہے کہ اس کو خدا کی معرفت حاصل ہو۔ وہ دین کو اس کے صحیح مفہوم کے ساتھ سمجھ سکے۔ اور رسول کو اپنا غیر مشروط رہنما بنا سکے۔اور صحابہ کرام کی زندگی کی صورت میں جو معیاری دینی نمونہ قائم کیا گیا ہے اس کو رضا و رغبت کے ساتھ پوری طرح قبول کرے۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ خدا اس کو ہر قسم کی ذہنی برائیوں سے بچائے وہ دین کی غلط تعبیرات سے بچ کر دین کو اس کے صحیح مفہوم کے ساتھ اختیار کرے۔ اسی طرح وہ اس گمراہی سے محفوظ رہے کہ ذاتی مفاد، ذاتی خواہشیں یا کوئی اور ذاتی رجحان اس کو دین کی شاہراہ سے ہٹا دے۔ اس دنیا میں وہ نہ سرکش بنے اور نہ دین کے نام پر بے دینی کو اختیار کرنے والا بن جائے۔
ہم کو آخرت میں حسنہ دے— اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کے انعامات میں ہم کو حصہ دار بنا۔ آخرت میں جنت کی صورت میں ایک ایسی دنیا بننے والی ہے جو آخری حد تک معیاری دنیا ہوگی۔ وہاں آدمی خدا کی رحمت اور مہربانی کے سائے میں جئے گا اور ابدی طورپر ایک ایسی با معنی زندگی حاصل کرے گا جو معنویت اور مسرت اور راحت سے بھر پورہوگی۔یہی جنتی زندگی انسان کی اعلیٰ ترین منزل ہے۔ اُس دعا کا مطلب یہ ہے کہ خدایا، تو مجھے دنیا میں اس مطلوب زندگی کی توفیق دے جو مجھ کو آخرت کی جنت کو پانے کا مستحق بنا دے۔