دعا عبادت ہے

دعا کے معنیٰ ہیں پکارنا۔ یہ لفظ جب شرعی اصطلاح کے طورپر بولا جائے تو اُس کا مطلب ہوگا اللہ کو پکارنا، اللہ سے التجا کرنا۔ یہ دعا ایک عظیم عبادت ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ ’الدعاء ہو العبادۃ‘ (الترمذی، ابن ماجہ، احمد) یعنی دعا ہی عبادت ہے۔ ایک اور روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الدعاء مخ العبادۃ (الترمذی، کتاب الدعاء) یعنی دعا عبادت کا مغز ہے۔

دعا کا عبادت ہونا بتاتا ہے کہ دعا ایک ذاتی نوعیت کا عمل ہے۔ ہر آدمی کو اپنی دعا آپ کرنا ہے، جس طرح ہر آدمی اپنی عبادت آپ کرتا ہے۔ کوئی شخص ایسا نہیں کرسکتا کہ وہ کسی دوسرے آدمی سے کہے کہ تُم میری طرف سے نماز پڑھ دو، اسی طرح یہ بھی درست نہیں کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے کہے کہ تُم میرے لیے دعا کردو۔

قرآن میں اہلِ ایمان کی یہ صفت بتائی گئی ہے: یدعون ربہم خوفاً وطمعا (السجدہ: 16) یعنی وہ لوگ اپنے رب کو پکارتے ہیں خوف کے ساتھ اور امید کے ساتھ۔ کسی آدمی کا اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارنا ایک انتہائی قسم کا ذاتی عمل ہے۔ یہ دعائیہ واقعہ کسی آدمی کے دل کی انتہائی گہرائیوں کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے۔ اس قسم کی دعا ایک آدمی کو خود کرنا ہے۔ وہ ایسا نہیں کرسکتا کہ کسی دوسرے شخص سے کہے کہ تم میری طرف سے خوف کرلینا یا میری طرف امید کرلینا۔

اس قسم کی دعا کسی انسان کے لیے اس کی عبدیت کا معیار ہے۔ جو شخص اللہ پر ایمان رکھنے کا مدعی ہو اُس کی زندگی میں ایسے لمحات آنے چاہئیں جب کہ اُس کی روح اللہ کی یاد سے تڑپ اٹھے۔ اُس کے دل ودماغ میں اللہ کے تصور سے زلزلہ پیدا ہوجائے۔ اُس کے سینے میں تعلق باللہ کا سیلاب اُمنڈ پڑے اور پھر اس زلزلہ خیز کیفیت کے ساتھ وہ سراپا التجا بن کر اللہ سے دعا کرنے لگے۔

جس آدمی کے اندر یہ کیفیت پیدا نہ ہو، اُس کا ایمان ہی اللہ کے نزدیک غیر معتبر ہوجائے گا۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ: من لم یسأل اللہ یغضب علیہ (الترمذی، کتاب الدعوات) یعنی جو شخص اللہ سے سوال نہیں کرتا اللہ اُس پر غضب ناک ہوتا ہے۔

دعا ایک ایسا لطیف عمل ہے جو براہِ راست خدا اوربندے کے درمیان پیش آتاہے۔ اس عمل کے دوران کوئی تیسرا شخص موجود نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ بہترین دعا وہ ہے جو تنہائیوں میں کسی بندۂ خدا کے سینے سے ابلتی ہے۔ ایک روایت میں جنتی انسان کی ایک صفت یہ بتائی گئی ہے: ذکر اللہ خالیا ففاضت عیناہ (النسائی، مؤطا) یعنی وہ شخص جس نے اللہ کو تنہائی میں یاد کیا اور پھر اُس کی دونوں آنکھیں بہہ پڑیں۔

ان نصوص کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دعا انتہائی ذاتی نوعیت کا ایک لطیف عمل ہے۔ وہ ہر مدعی ٔ ایمان کے لیے اُس کی ربانیت کا اظہار ہے۔ اس حقیقت کو سامنے رکھیے تو معلوم ہوگا کہ دعا ایسی چیز نہیں کہ آپ کسی مفروضہ بزرگ سے مل کر کہیں کہ آپ میرے لیے دعا کردیجیے۔ اس قسم کی درخواست بلاشبہہ دعا کی تصغیر ہے۔ یہ گویا اللہ کی طرف دوڑنے کے بجائے انسان کی طرف دوڑنا ہے۔

اسی طرح لاؤڈاسپیکر پر دعا کرنا بھی ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ اس قسم کا مکبّرانہ فعل ایک تقریر ہے نہ کہ دعا۔ حتی کہ یہ بھی حقیقی دعا نہیں کہ آپ کچھ الفاظ کو رٹ لیں اور ہر بار ان رٹے ہوئے الفاظ کو زبان سے دہرادیں۔ دعا، اپنی حقیقت کے اعتبار سے، قلبی تڑپ کا ایک عمل ہے، وہ رسمی الفاظ کے کسی مجموعے کا نام نہیں۔

صحیح البخاری میں کتاب الایمان کے تحت ایک باب کا ترجمۂ باب ان الفاظ میں قائم کیاگیا ہے: دعاؤکم إیمانکم (تمھاری دعا تمھارا ایمان ہے)اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسا ایمان ویسی دعا۔ دعا ایمان کو ناپنے کا پیمانہ ہے۔ اگر آدمی کو گہرا ایمان حاصل ہوا ہے تو اس کی دعا بھی دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی ایک ربانی آواز ہوگی۔ وہ جب دعا کرے گا تو اس کا پورا وجود اس کی دعاؤں میں شامل ہوجائے گا۔ دعا اس کے لیے اپنے رب سے ملاقات کا لمحہ بن جائے گی۔ اس کی دعا اپنے رب سے سرگوشی (whisper) کے ہم معنی ہوگی، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: یناجی ربّہ (مسند احمد)

اس کے برعکس، جس کا ایمان قلب میں اترا ہوا نہ ہوبلکہ صرف لفظی اقرار کے ہم معنی ہو، اس کی دعا بھی صرف لفظی اور رسمی دعا ہوگی۔ وہ کچھ رٹے ہوئے الفاظ کو زبان سے دہرائے گا مگر ان الفاظ کا اس کی قلبی کیفیات سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ اس کی دعا صر ف تلفظِ لسانی کے ہم معنی ہوگی نہ کہ روحانی کیفیت کے اظہار کے ہم معنی۔

حدیث میں آیا ہے کہ جب تم اللہ سے دعا مانگو تو خوب لپٹ کر دعا مانگو۔ لپٹ کر دعا مانگنے کا مطلب کیا ہے، اس کو میں ایک مثال سے واضح کروں گا۔ یہ مثال بیٹے اور باپ کے معاملے سے تعلق رکھتی ہے۔ مگر اس سے بندے اور خدا کے درمیان دعا کے معاملے کو بھی سمجھا جاسکتا ہے۔

رام پور کا واقعہ ہے۔ وہاں ایک اسکول ماسٹر تھے۔ ان کی آمدنی زیادہ نہ تھی۔ اُن کے بیٹے کو بائیسکل کا شوق ہوا۔ اُس نے اپنے باپ سے کہا کہ میرے لیے ایک بائیسکل لے لیجیے۔ باپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ بیٹا کئی دن تک اپنے اس سوال کو دہراتا رہا۔ مگر باپ اُس کو نظر انداز کرتا رہا۔ ایک دن بیٹے نے زیادہ اصرار کیا تو باپ نے غصہ ہوکر کہا کہ میرے پاس بائیسکل خریدنے کے لیے پیسہ نہیں۔اب اگر تم نے بائیسکل کے لیے کہا تم میں تم کو ماروں گا۔ یہ سُن کر بیٹا رونے لگا۔ اُس نے روتے ہوئے کہا کہ— آپ ہی تو ہمارے باپ ہیں، آپ سے نہ کہیں تو کس سے کہیں۔

بیٹے کے یہ الفاظ سُن کر باپ کی آنکھوں میں آنسو آگیے۔ اُس نے کہا کہ اچھا میرے بیٹے، میں ضرورتم کو بائیسکل دوں گا۔ اور پھر پیسہ کا انتظام کرکے اگلے دن اُس نے بائیسکل خریدی اور بیٹے کو دے دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب بیٹے نے مذکورہ الفاظ کہے تو گویا باپ اور بیٹا دونوں ایک ترازو پر آگیے۔ باپ نے محسوس کیا کہ اگر وہ بائیسکل کا انتظام نہ کرے تو گویا اُس کی پدریت (fatherhood)ہی مشتبہ ہوجائے گی۔

باپ اور بیٹے کا یہ واقعہ بندے اور خدا کے معاملے کو بتاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کون سی دعا ہے جو ضرور قبول ہوتی ہے، جو لوٹائی نہیں جاتی۔ یہ وہ دعا ہے جس میں بندے کی پوری ہستی دعا میں ڈھل جاتی ہے۔ جب دعا کا قبول ہونا خدا کے لیے بھی اُتنا ہی بڑا مسئلہ بن جاتا ہے ہے جتنا بڑا انسان کے لیے۔

غالباً دعاکی یہی قسم ہے جس کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ: رُبّ أشعث أغبر مدفوع بالأبواب لو أقسم علی اللہ لأبرّہ (صحیح مسلم، کتاب البر) یعنی بہت سے لوگ ہیں جن کے بال بکھرے ہوئے ہیں، جن کے کپڑے گرد آلود ہیں، جن کے اوپر لوگوں کے دروازے بند ہیں، اگر وہ اللہ پر قسم کھائیں تو اللہ اُن کی قسم کو پورا کرے گا۔

اس حدیث میں اُس انسان کی تصویر بتائی گئی ہے جو اللہ کے کام میں اتنا زیادہ مشغول ہوا کہ اُس کو بال اور کپڑے کا اہتمام کرنے کی بھی فرصت نہ رہی۔ جو لوگ اپنے آپ کو اللہ کے کام میں اس طرح وقف کردیں اُن کا معاملہ اللہ کا معاملہ بن جاتا ہے ہے۔ وہ جب کسی چیز کے لیے دعا کرتے ہیں تو وہ ایک ایسی چیز کو مانگنا ہوتا ہے جس کی قبولیت کا فیصلہ پیشگی طورپرکیا جاچکا ہے۔

یہ دعا کوئی سادہ چیز نہیں ہے، یہ مومن کے لیے ایک عجیب سرمایہ ہے۔ دعا کے سرمایہ ہونے کے بہت سے پہلو ہیں۔ مثلاً کسی شخص کے خلاف آپ سے کوئی ایسی غلطی ہوگئی جس کی تلافی کی کوئی اور صورت نہ ہو تو آپ اُس کے لیے اللہ سے دعا کرتے ہوئے کہیں کہ اے اللہ، تو میری طرف سے اُس کے حق میں دعائے خیر لکھ دے۔ آپ کے اوپر کسی کا احسان ہے اور آپ اُس کے احسان کا بدلہ نہ دے سکتے ہوں تو آپ اُس کے حق میں بہترین دعائیں کریں۔ آپ کسی معذوری کی بنا پر کوئی دینی کام نہ کرسکیں تو آپ اُن لوگوں کے لیے اللہ کی مدد کی دعا کریں جو اس کام کو انجام دے رہے ہیں۔ آپ کے دل میں کسی کے خلاف شکایت آجائے تو آپ اللہ سے یہ درخواست کریں کہ وہ آپ کے دل سے شکایت کو نکال دے اور اُس کی جگہ خیر خواہی کے جذبات رکھ دے۔

امام ابن تیمیہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب قرآن کی کسی آیت کو سمجھنے میں اُنھیں مشکل پیش آتی تو وہ وضو کرکے کسی ویرانے میں چلے جاتے اور دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ سے یہ کہتے کہ ائے ابراہیم کو علم دینے والے، مجھے بھی علم دے دے(یا معلم إبراہیم علّمنی)

حقیقت یہ ہے کہ دعا ہر مشکل کے وقت مومن کا سہارا ہے۔ وہ ہر مشکل مسئلے کا حل ہے۔ دعا بلاشبہہ ایک طاقت ہے، سب سے بڑی طاقت۔ دعا اللہ سے ملاقات کا لمحہ ہے۔ مگر یہ لمحہ غافل لوگوں کے حصے میں نہیں آتا۔ یہ قیمتی لمحہ صرف اسی انسان کے لیے مقدر ہے جو اپنے دل کے اندر اعلیٰ ربانی کیفیت کو بیدار کرچکا ہو۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom