ذہنی تحفّظ کے بغیر

ہندستان کے مشہور رہنما مہاتما گاندھی (وفات: 1948 ) نے ایک بار کلام کرتے ہوئے اپنے بارے میں کہا تھاکہ: میں اپنے گھر کی کھڑکیوں کو کھلا رکھنا چاہتا ہوں تا کہ باہر کی تازہ ہوا میرے گھر کے اندر آسکے۔ مگر میں نہیں چاہوں گا کہ ہوا اتنی زیادہ آئے کہ وہ میرے گھر کو اڑا لے جائے:

I want th windows of my house open so that fresh air may blow in but I would not like my house to be blown away.

مہاتما گاندھی کے اس قول کی روشنی میں غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ لوگ عام طور پر دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو کامل طورپر متعصب ہوں۔ وہ کسی ایک کے اس طرح اندھے مقلد بن جائیں کہ اس کے سوا کوئی اور چیز انھیں سرے سے نظر ہی نہ آئے۔ اس کو مکمل ذہنی جمود کی حالت کہا جاسکتا ہے۔ دوسری قسم اُن لوگوں کی ہے جو جزئی طورپر جامد اور جزئی طورپر غیر جامد ہوں۔ وہ دوسرے افکار کو اپنے ذہن کے اندر آنے کی اجازت دیں۔ مگر اسی کے ساتھ وہ اپنے مزاج میں اتنے پختہ ہوچکے ہوں کہ صرف جزئی تبدیلی کو وہ قبول کرسکیں۔ وہ اپنے اندر کسی انقلابی تبدیلی کے لیے راضی نہ ہوں۔

یہ دونوں قسم کے لوگ بظاہر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے دونوں میں زیادہ فرق نہیں۔ کیوں کہ اصل مقصود کامل سچائی ہے۔ اور جہاں تک کامل سچائی کا تعلق ہے، دونوں ہی اُس سے یکساں طورپر محروم رہیں گے۔ اور جو شخص کامل سچائی سے محروم ہو اُس کے اندر ذہنی ارتقاء کا عمل بھی اپنی پوری رفتار کے ساتھ جاری نہیں ہوسکتا۔

کسی آدمی کے لیے کامل سچائی وہ ہے جس کو اُس نے کسی تحفظ ذہنی کے بغیر ہر اعتبار سے کھلے طورپر جانچا ہو۔ اور پھر زندہ شعور کے تحت اُس کا ذہن اس پر مطمئن ہوا ہو کہ اُس نے جس چیز کو اختیار کیا ہے وہ کسی اشتباہ کے بغیر بلا شبہہ کامل سچائی ہے۔ جس چیز کی وہ ہر اعتبار سے جانچ ہی نہ کرے وہ خود اُس کے اپنے اقرار کے مطابق، اُس کے لیے کامل سچائی نہیں۔ اُس نے جس چیز کو سچائی کے طورپر لیا ہے وہ اُس کا ایک مانوس عقیدہ ہے، نہ کہ شعوری اعتبار سے ہر جانچ میں پورا اُترا ہوا عقیدہ۔ اس قسم کے جمود کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آدمی عین اُس چیز سے محروم ہوجائے جو اُس کے لیے سب سے بڑی چیز ہے، یعنی اُس کے ذہن میں فکری ارتقاء کا عمل کسی روک کے بغیر جاری ہونا۔

عام طورپر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ سیکولر موضوعات پر تو کسی حد تک کھُلے ذہن کے تحت سوچنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ مگر جب معاملہ مذہبی موضوعات کا ہو تو وہ کسی بھی طرح غیر متعصبانہ انداز میں سوچنے پر راضی نہیں ہوتے۔ حتی کہ جو لوگ سیکولر موضوعات پر بظاہر اپنے ذہن کی کھڑکیاں کھلی رکھے ہوئے ہیں وہ بھی اس وقت سختی کے ساتھ اپنے ذہن کی کھڑکیوں کو بند کرلیتے ہیں جب کہ کوئی مذہبی موضوع زیر بحث آگیا ہو۔

میں نے اللہ کے فضل سے تمام مذاہب کا مطالعہ کیا ہے۔ میں خالص علمی مطالعے کے نتیجے میں اس پر مطمئن ہوگیا ہوں کہ اسلام ہی واحد مستند اور معتبر مذہب ہے۔ ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب، ’اسلام ری ڈسکورڈ(Islam Rediscovered)

مگر اسلام کو واحد مستند مذہب مانتے ہوئے بھی میں کہتا ہوں کہ ہم دوسرے مذاہب کا مطالعہ غیر متعصبانہ انداز میں کرسکتے ہیں اور اس مطالعے سے وہ فائدہ حاصل کرسکتے ہیں جس کو ایک حدیث میں اس طرح بیان کیاگیا ہے: الحکمۃ ضالۃ المؤمن حیث وجدھا فہو أحق بہا (حکمت مومن کا گُم شدہ مال ہے، وہ جہاں اس کو پائے وہ اُسی کا ہے)۔

مثال کے طورپر میں کہوں گا کہ آپ اپنے والد کو عزت کا اعلیٰ مقام دیتے ہوئے دوسرے انسانوں کو بھی قابلِ احترام سمجھ سکتے ہیں۔ اس سے اپنے والد کے حق میں آپ کا اعلیٰ جذبہ کسی بھی طورپر متاثر نہیں ہوگا۔ اسی طرح ایک مومن دین اسلام کو واحد مستند دین مانتے ہوئے دوسرے مذاہب کا نہ صرف احترام کرسکتا ہے بلکہ اُن کے مطالعے کووہ اپنے ذہنی ارتقاء میں مددگار بنا سکتا ہے۔

مذاہب کا تقابلی مطالعہ (comparative study) ایک مقبول موضوع ہے۔ مگر میرے علم کے مطابق، یہ مطالعہ زیادہ صحت مند انداز میں نہیں کیا جاتا۔ مثلاً عیسائی اور یہودی علماء اپنے تقابلی مطالعے میں زیادہ تر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام کوئی مستقل مذہب نہیں، وہ بائبل سے اخذ کیا ہوا ایک مذہب ہے۔

اسی طرح ہندو علماء جب مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرتے ہیں تو وہ اپنی ساری کوشش یہ ثابت کرنے پر لگا دیتے ہیں کہ تمام مذاہب ایک ہیں۔ اور ہر مذہب یکساں طورپر سچا اور برحق ہے۔ اسی طرح مسلم علماء جب مختلف مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرتے ہیں تو اُن کی ساری کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ یہ ثابت کرسکیں کہ صرف اسلام سچّا مذہب ہے۔ باقی تمام مذاہب باطل اور قابل رد ہیں۔ اس قسم کا مطالعہ جذباتی تسکین کا ذریعہ تو ہوسکتا ہے مگر وہ ذہنی ارتقاء کا ذریعہ ہر گز نہیں بن سکتا۔

صحیح اور علمی طریقہ یہ ہے کہ مذاہب کا تقابلی مطالعہ اس لیے کیا جائے کہ وہ خود صاحب مطالعہ کے ذہنی ارتقاء کا ذریعہ بن جائے۔ وہ صاحب مطالعہ کے ذہنی افق کو وسیع کرکے اُسے زیادہ سے زیادہ بُلند ذہنی سطح تک پہنچانے میں مددگار بن سکے۔ یہاں اس معاملے کی چند مثالیں نقل کی جاتی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح مختلف مذاہب کا مطالعہ کسی آدمی کے ذہنی ارتقاء کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

1 - کنفیوشش (Confucious) چین کا مشہور فلسفی اور مذہبی اخلاقی مفکر ہے۔ اُس کا ایک قول ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے: جس کو ہارنا آجائے اُس کو کوئی ہرا نہیں سکتا۔ کنفیوشش کے اس قول کی معنویت اُس وقت سمجھ میں آتی ہے جب کہ اُس کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیش آنے والی صلح حدیبیہ کی روشنی میں دیکھا جائے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ صُلح حدیبیہ فریقِ ثانی کے مقابلے میں گویا شکست قبول کرنے کے ہم معنیٰ تھی۔ مگر صرف دو سال کی محدود مدت میں اس شکست سے عظیم فتح ظاہرہوئی۔

کنفیوشش کے مذکورہ قول میں ہار ماننا در اصل ایک قسم کی تدبیر ہے۔ اس تدبیر کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو زیادہ مستحکم بنا سکے، یہاں تک کہ اُس کا برتر استحکام ہی اُس کے لیے فتح کی ضمانت بن جائے، جیسا کہ صلح حدیبیہ کی صورت میں پیش آیا۔

2 - حضرت مسیح نے اپنے شاگردوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ تم اپنے دشمن سے محبت رکھو۔ (لُوقا، باب 6) حضرت مسیح کی یہ بے حد بنیادی تعلیم ہے۔ مگر اس قول کی پوری معنویت اُس وقت سمجھ میں آتی ہے جب کہ اُن کے اس قول کا مطالعہ قرآن کی ایک آیت کو سامنے رکھ کر کیا جائے۔

قرآن کی سورہ نمبر 41میں ارشاد ہوا ہے: اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو، پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔ (حٰم السجدہ: 34)

قرآن کی یہ آیت حضرت مسیح کے مذکورہ قول کی معنویت کوواضح کررہی ہے۔ اس کے مطابق، دشمن سے محبت کرنا دشمنی کو ختم کرنے کی ایک برتر تدبیر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر دشمن انسان کے اندر امکانی طورپر ایک دوست انسان چھپا ہوا ہے۔ یک طرفہ حسنِ سلوک کے ذریعہ اس دشمن انسان کو دریافت کرو اور اس کے بعد مسئلہ اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔

3 - حضرت مسیح نے اپنے شاگردوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ جوشخص تمھارا کُرتا لینا چاہے اُس کو تم اپنا چغہ بھی دے دو۔ (لوقا، باب 6)

حضرت مسیح کے اس قول کی اہمیت اُس وقت معلوم ہوتی ہے جب کہ اُس کو قرآن کی ایک آیت سے ملا کر دیکھا جائے۔ وہ آیت یہ ہے: فلا ینازعنک فی الأمر وادع إلی ربّک (الحج: 67) یعنی پس وہ اس معاملے میں تم سے جھگڑا نہ کریں۔ اور تم اپنے رب کی طرف بلاتے رہو۔

اس کے مطابق، حضرت مسیح کا مذکورہ قول آدابِ دعوت سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک داعی کو چاہیے کہ اگر مدعو سے کسی معاملے میں اُس کی نزاع پیدا ہو تو وہ یک طرفہ طورپر اُسے ختم کردے تاکہ داعی اور مدعو کے درمیان وہ معتدل فضا برہم نہ ہونے پائے جو موثر دعوتی عمل کے لیے ضروری ہے۔

4 - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے کہا کہ مجھے ایک ایسی کلیدی بات بتائیے جس کے ذریعہ میں اپنے تمام معاملات کو درست کرسکوں۔ آپ نے مختصر الفاظ میں اُس کا جواب دیتے ہوئے کہا: لاتغضب (تم غصہ نہ کرو)۔ اس قولِ رسول کی معنویت ہم کو رسول اور اصحابِ رسول کی زندگی میں ملتی ہے۔ تاہم دوسرے مذاہب میں بھی اس کی مثالیں ہیں جو اس معاملے کی وضاحت میں مدد دیتی ہیں۔

مثال کے طورپر ہندو پیشوا سوامی وویکا نند کا واقعہ ہے کہ اُن کے ایک مسیحی دوست نے اُن کا امتحان لینا چاہا۔ اُس نے سوامی جی کو اپنے گھر پر مدعو کیا۔ سوامی جی جب وہاں پہنچے تو اُن کے مسیحی دوست اُن کو ایک کمرے میں لے گیے۔ یہاں ایک میز پر مختلف مذاہب کی مقدس کتابیں نیچے اوپر کی ترتیب میں رکھی ہوئی تھیں۔ سب سے نیچے ہندو مذہب کی مقدس کتاب گیتا تھی اور سب سے اوپر مسیحی مذہب کی مقدس کتاب بائبل۔

سوامی جی جب اُس کمرے میں پہنچے تو اُن کے مسیحی دوست نے کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سوامی جی، اس کے بارے میں آپ کا تبصرہ کیا ہے۔ سوامی وویکا نند کے لیے بظاہر یہ ایک بے عزتی کامعاملہ تھا، کیوں کہ اُن کی مقدس کتاب سب سے نیچے تھی اور مسیحیت کی مقدس کتاب سب سے اوپر۔ سوامی جی نے اس منظر کو دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے کہا— بنیاد تو بہت اچھی ہے:

The foundation is really good.

یہ واقعہ بتاتا ہے کہ آدمی اگر غصہ نہ ہو تو اُس کا ذہن پوری طرح کام کرے گا۔ وہ زیادہ مؤثر انداز میں اپنا دفاع کرسکے گا۔ یہاں تک کہ غصہ کے وقت غصہ نہ ہونا آدمی کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ وہ اپنے مائنس کو پلس میں تبدیل کرسکے، جیسا کہ مذکورہ واقعے میں سوامی وویکا نند نے کیا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom