دو قسم کے ماڈل
انسان دنیا میں کس طرح زندگی گزارے، اس کے لیے قرآن میں دو قسم کے ماڈل بتائے گیے ہیں۔ ایک جنتی ماڈل اور دوسرا جہنمی ماڈل۔ جنتی ماڈل ملکوتی کردار پر مبنی ہے اور جہنمی ماڈل وہ ہے جس کا نمونہ ابلیس کی مثال میں ملتا ہے۔ موجودہ دنیا میں جو لوگ ملکوتی کردار کو اپنائیں اگلی دنیا میں ان کے لیے ابدی راحت ہے اور اس کے برعکس، جو لوگ ابلیسی ماڈل کو اپنائیں اگلے دور حیات میں وہ ابدی عذاب میں ڈال دیے جائیں گے۔
فرشتوں کا نمونہ کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ انھوں نے تخلیق آدم کے وقت خدا کے سامنے اپنا شبہہ ظاہر کیا۔ انھوں نے کہا— کیا تو ایسی مخلوق کو پیداکر رہا ہے جو زمین میں فساد کرے اور وہاں خون بہائے۔ یہ ایک نہایت سنگین نوعیت کا سوال تھا۔ مگر جب خدا نے آدم کے ذریعہ اس کی وضاحت کی تو فوراً فرشتوں نے اپنا شبہہ واپس لیتے ہوئے کہا کہ لاعلم لنا إلا ما علمتنا (البقرہ: 32) گویا انھوں نے یہ اعتراف کرلیا کہ ہمارے شبہہ کی بنیاد خود ہماری کم علمی تھی نہ کہ اصل منصوبہ کا کوئی نقص۔
موجودہ دنیا میں یہی انسان کا خاص امتحان ہے۔ یہاں بار بار ایک انسان کو دوسرے انسان کے بارے میں شبہات اور اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے موقع پر ملکوتی کردار یہ ہے کہ جب معاملے کی وضاحت کی جائے تو فوراً آدمی اپنی غلطی کا اعتراف کرے۔ وہ کھلے طور پر اعلان کرے کہ میں اپنی کم علمی کا شکار ہوا۔ دوسرے شخص پر میں نے جو اعتراض یا الزام عائد کیا وہ سراسر بے بنیاد تھا نہ کہ کوئی واقعی حقیقت۔
دوسرا ماڈل جو قرآن میں بتایا گیا ہے وہ ابلیس کا ماڈل ہے۔ ابلیس کو بھی خدائی تخلیق پر اعتراض ہوا۔ مگر معاملے کی وضاحت کے باوجود اس نے اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کیا۔ وہ یہ سوچ کر اپنی رائے پر اکڑ گیا کہ میں آدم سے بہتر ہوں (الأعراف: 12) ایسی حالت میں کیوں میں اعتراف کرکے آدم کے سامنے جھکوں۔
فرشتوں کے کردار اور ابلیس کے کردار میں اس فرق کا نفسیاتی سبب کیا تھا۔ وہ یہ تھا کہ جب اختلاف پیدا ہوا تو ابلیس نے معاملے کو اپنے اور آدم کے درمیان سمجھا۔ اس طرح اس کو نظر آیا کہ میں تو آدم سے بہتر ہوں۔ حالاں کہ صحیح یہ تھا کہ وہ معاملے کواپنے اور خدا کے درمیان کا معاملہ بنائے۔ اگر وہ ایسا کرتا تو اس کو معلوم ہوتا کہ مجھے اپنی غلطی ماننا چاہیے۔ کیوں کہ اگر میں اپنی غلطی نہ مانوں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں اس کو خدا پر ڈال رہا ہوں اور خدا کی طرف وہ لوٹنے والی نہیں۔ اس کے برعکس، فرشتوں نے معاملے کو اپنے اور خدا کے درمیان کا معاملہ قرار دیا۔ اس لیے انھیں اپنی غلطی کے اعتراف میں کوئی دیر نہیں لگی۔
یہی امتحان آج بھی ہر انسان کا ہر لمحہ ہورہا ہے۔ جب بھی دو آدمیوں یا دو گروہوں کے درمیان اختلافی معاملہ پیش آئے اس وقت اگر انسان معاملے کو اپنے اور دوسرے انسان کا معاملہ سمجھے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ابلیس والی نفسیات کا شکار ہوجائے گا۔ اس کے برعکس، اگر وہ معاملے کو اپنے اور خدا کے درمیان سمجھے تو وہ فوراً جھک کر اپنی غلطی کااعتراف کرلے گا— اس دنیا میں ہر اکڑ خدا کے خلاف ہے نہ کہ کسی انسان کے خلاف۔