دور جنگ کا خاتمہ

انسان کی تاریخ بظاہر جنگوں کی ایک تاریخ نظرآتی ہے۔ بیسویں صدی سے پہلے یہ جنگ ایک زمانی ضرورت ہو سکتی تھی مگر بیسویں صدی کے بعد انسانی زندگی میں جو انقلاب آیا ہے اُس کے بعد جنگ ایک غیر ضروری چیزبن چکی ہے۔ اب جنگ ایک قسم کا خلاف زمانہ فعل (anachronism) ہے۔وہ سب کچھ جس کو حاصل کرنے کے نام پر پہلے جنگ کی جاتی تھی وہ اب جنگ کے بغیرزیادہ بہتر طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ قدیم پُر تشدد ذرائع کے مقابلہ میں جدید پُر امن ذرائع کہیں زیادہ موثر اور نتیجہ خیز حیثیت رکھتے ہیں۔

قدیم زمانہ میں اتنی زیادہ جنگ کیوں ہوتی تھی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ حوصلہ مند لوگوں کو اپنے حوصلہ کی تسکین کے لیے اس کے سوا کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا تھا کہ وہ لڑکر اپنا مقصد حاصل کریں۔ وہ جنگ اس لیے کرتے تھے کہ اُن کے سامنے بظاہر جنگ کا کوئی متبادل (alternative)موجود نہ تھا۔

اصل یہ ہے کہ قدیم زمانہ میں دو ایسی چیزیں مو جود تھیں جو لوگوں کے لیے جنگ کو گویا ناگزیربنائے ہوئے تھیں۔ ایک، خاندانی بادشاہت اور دوسرے، زرعی اقتصادیات۔

قدیم زمانہ میں ہزاروں سال سے خاندان پر مبنی بادشاہت (family rule)کا طریقہ چلاآرہا تھا۔ اس نظام کی بنا پر ایسا تھاکہ کسی سیاسی حوصلہ مند کے لیے اپنے سیاسی حوصلہ کی تسکین کی صرف ایک ہی صورت تھی۔ یہ کہ وہ موجود خاندانی حکمراں کو قتل یا معزول کر کے اُس کے تخت پر قبضہ کر لے۔ اس طرح ایک خاندان کے بعد دوسرے خاندان کی حکومت کا نظام ہزاروں سال تک دنیا میں چلتا رہا۔

موجودہ زمانہ میں پہلی بار ایساہوا کہ تاریخ میں ایسے انقلابات پیش آئے جن کے نتیجہ میں خاندانی بادشاہت کا نظام ختم ہو گیا اور دنیا میں جمہوری حکمرانی کا نظام قائم ہوا۔اب سیاسی حکمران دَوری انتخابات(periodical election)کے ذریعہ چُنے جانے لگے۔ اس طرح ہر آدمی کے لیے اپنے سیاسی حوصلہ کے نکاس(outlet)کا موقع مل گیا، ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہو گیا کہ وہ پُرامن ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے یہ کوشش کرے کہ وہ کسی بھی دوسرے شخص کی طرح مقرر میعاد(term)کے لیے سیاسی اقتدار تک پہنچ جائے۔

دوسرا بنیادی فرق وہ ہے جو اقتصادیات کے میدان میں ہوا ہے۔ قدیم زمانہ میں ہزاروں سال سے ایسا تھا کہ اقتصادیات کا سارا انحصار زمین پر مبنی ہوتا تھا۔ جس کے پاس زمین ہے وہ صاحبِ مال ہے۔اور جس کے پاس زمین نہیں وہ صاحبِ مال بھی نہیں۔ مزید یہ کہ قدیم سیاسی نظام کے تحت، زمین کا اصل مالک بادشاہ ہوتا تھا، یا وہ جس کو بادشاہ جاگیر یا عطیہ کے طور پر زمین دے دے۔

ایسی حالت میں کسی اقتصادی حوصلہ مند کو اپنے حوصلہ کی تکمیل کی ایک ہی صورت نظر آتی تھی۔ یہ کہ وہ مالک زمین سے لڑ کر اُس سے زمین کو چھینے اور اُس پر قابض ہو کر اپنے اقتصادی حوصلہ کی تسکین حاصل کرے۔ قدیم زمانہ میں اس اعتبار سے کسی آدمی کے لیے بظاہر صرف دو میں سے ایک کا انتخاب تھا۔یا تو وہ مستقل غریبی پر قانع رہے یا جنگ کر کے زمین پر قبضہ حاصل کرے۔

موجودہ زمانہ میں اس پہلو سے ایک نیا واقعہ ظہور میں آیا ہے جس کو صنعتی انقلاب (industrial revolution)کہا جاتا ہے۔ اس جدید انقلاب نے صورت حال کو یکسر بدل دیا۔ اب ہزاروں بلکہ ان گنت ایسے نئے اقتصادی ذرائع وجود میں آگئے ہیں جن کو استعمال کر کے ہر آدمی بڑی سے بڑی کمائی کر سکتا ہے۔ زمین کا مالک بنے بغیر وہ دولت کا مالک بن سکتا ہے۔ یہ تبدیلی اتنی زیادہ بڑی ہے کہ اُس کو بجا طور پور معاشی انفجار (economic explosion)کہنا درست ہوگا۔

یہ تبدیلی اتنی بڑی ہے کہ اُس نے انسانی زندگی کے سیاسی اور معاشی نظام کو آخری حد تک بدل ڈالا ہے۔ جو کچھ پہلے بظاہر نا ممکن تھا، وہ اب پوری طرح ممکن ہو چکا ہے۔ پہلے جو چیز صرف خیالی نظر آتی تھی، وہ اب واقعہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ سیاسی اور اقتصادی اجارہ داری(monopoly) کا دور ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔

اس انقلابی تبدیلی کے بعد اب کسی کے لیے جنگ کا کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ کوئی شخص جس اقتصادی یا سیاسی مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے، اُس کو وہ جدید مواقع کو استعمال کرتے ہوئے، پُر امن طور پر حاصل کر سکتا ہے۔ ایسی حالت میں جنگ کرنے کی کیا ضرورت۔ اب جنگ اور تشدد کا طریقہ کسی آدمی کے لیے اپنی بے شعوری کا اعلان تو ہو سکتا ہے۔ مگر وہ کسی مقصد کے حصول کا کوئی نتیجہ خیز ذریعہ نہیں۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom