خاموش تبلیغ
پیغمبرِاسلام کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ 610عیسوی میں جب آپ نے مشن شروع کیا تو ابتدائی کئی سال تک آپ خاموشی کے ساتھ انفرادی ملاقاتوں کے ذریعے لوگوں تک اپنی بات پہنچاتے رہے۔ اُس وقت کے مکّہ میں نیز پور ے ملک میں بتوں کو پوجا جاتا تھا۔ بت پرستی کا کلچر ہر طرف چھایا ہوا تھا۔ پیدائش سے موت تک ہر معاملے میں مشرکانہ رسمیں داخل ہو چکی تھیں۔ ایسی حالت میں دینِ شرک کے بجائے دینِ توحید لے کر اُٹھنا، نزاع اور ٹکرائو کو دعوت دینے کے ہم معنیٰ تھا۔
ایسی حالت میں پیغمبرِاسلام کے لیے دو میں سے ایک کا انتخاب تھا۔ ایک یہ کہ لوگوں کو کھُلے طورپر توحید کی طرف بلائیں اور کھُلے طور پر شرک کو غلط قراردیں۔ آپ کے لیے دوسرا انتخاب یہ تھا کہ آپ خاموشی کے ساتھ انفرادی ملاقاتوں کے ذریعے اپنا مشن شروع کریں اور حالات کا اندازہ کرتے ہوے تدریجی طور پر آگے بڑھیں۔ پہلے طریقے میں متشددانہ ٹکرائو کا اندیشہ تھا، اِس لیے آپ نے اس کو چھوڑ دیا۔ اِس کے بجائے آپ نے دوسرے طریقے کو اختیار کرلیا، جو واضح طور پَر امن کا طریقہ تھا۔ جس میں یہ ممکن تھا کہ لوگوں سے ٹکرائو کی صورتِ حال پیدا کیے بغیر اپنا کام جاری رکھا جاسکے۔
پیغمبرِاسلام کی زندگی میں یہ پیس فل ایکٹوزم کی پہلی مثال تھی۔ اِس طرح آپ نے اپنی پوری تحریک امن کے اصول پر چلائی۔ اِسی حقیقت کو ایک حدیث میں آپ نے اِس طرح فرمایا: لا تتمنّوا لقاء العدوّ، وسلوا ﷲ العافیۃ۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر3024 ) یعنی اگر تم کو کسی دشمن کا سامنا پیش آئے تو ایسا نہ کرو کہ ردِّعمل کی نفسیات میں مبتلا ہو کر اس سے لڑ جائو بلکہ امن کے اصولوں کو اختیار کرتے ہوئے دشمنی کے مسئلے کو حل کرو:
Solve the problem of enmity by
following the peaceful method.
اِ س طرح آپ پُرامن انداز میں کام کرتے رہے یہاں تک کہ دھیرے دھیرے83آدمی آپ کے مشن میں شامل ہو گیے۔ اُس وقت آپ کے ایک سینئر ساتھی ابو بکر بن ابی قحافہ نے کہا کہ اب ہم کو اعلان کے ساتھ کھُلے عام اپنا کام کرنا چاہیے۔ پیغمبرِاسلام نے کہا کہ نہیں، اے ابو بکر، ابھی ہم تھوڑے ہیں (یا أبا بکر إنّا قلیل) سیرت ابنِ کثیر جلد ۱، صفحہ441۔
لیکن ابو بکر صدیق نے اِس کے باوجود ایسا کیا کہ وہ کعبہ گئےاور وہاں بلند آواز سے اعلان کر کے لوگوں کو بتایا کہ میں پوری طرح محمد کا ساتھی بن گیا ہوں۔ یہ سُن کر مخالفین کی ایک جماعت دَوڑ کر آئی۔ وہ حضرت ابو بکرکو مارنے پیٹنے لگی۔ انھوں نے ان کو اتنا زیادہ مارا کہ وہ زخمی ہوکر گِرپڑے۔ مارنے والوں نے ابوبکر کواُس وقت چھوڑا جب کہ انھوں نے سمجھا کہ اب ان کا خاتمہ ہو چکا ہے۔
عمر بن الخطّاب آپ کے ساتھیوں میں نہایت طاقت وَر شخص تھے۔ انھوں نے بھی پیغمبرِاسلام سے کہا کہ ہم حق پَر ہیں، پھر ہم کیوں خاموش رہیں۔ ہم اعلان کے ساتھ کھُلے طور پر اپنا کام کریں گے۔ یہ سُن کر پیغمبرِاسلام نے فرمایا: یا عمر إ نا قلیل، قد رأیت ما لقینا (سیرت ابنِ کثیر، جلد1، صفحہ 439)۔ یعنی اے عمر،ہم تھوڑے ہیں، ہمارے ساتھ جو پیش آیا وہ تم نے دیکھ لیا۔
دھیرے دھیرے پیغمبرِاسلام کا مشن پھیلنے لگا۔ آپ کے ساتھیوں کی تعداد بڑھتی رہی۔ پھر وہ وقت آیا جب کہ مدینہ سے 73آدمی آکر آپ سے ملے، اور بتایا کہ ہم آپ کے مشن میں آپ کے ساتھی ہو چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اب آپ مکّہ والوں کی زیادتی کو اور زیادہ برداشت نہ کیجیے۔ ہم کو اجازت دیجیے کہ ہم مکّہ والوں کے خلاف جہاد کریں۔ پیغمبر ِاسلام نے فرمایا: اصبروا، فإنی لم اُومر بالقتال(المواہب اللدنیة، 1/199)یعنی تم صبر کرو،کیوں کہ مجھے لڑائی کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔
پیغمبرِاسلام کی یہ روش بتاتی ہے کہ وہ ہمیشہ عملی نتیجے کو سامنے رکھتے تھے۔ اُن کا یہ ماننا تھا کہ اقدام کو مثبت نتیجے کا حامل ہونا چاہیے، ایسا اقدام جو کائونٹر پروڈکٹیو ـ(counterproductive) ثابت ہو، وہ کوئی اقدام نہیں۔ آپ نتیجہ خیز اقدام(result-oriented action)کے حامی تھے۔
پیغمبرِاسلام کی لائف بتاتی ہے کہ ان کی اسکیم میں اُس قسم کی چیز کے لیے کوئی جگہ نہ تھی جس کو موجودہ زمانے میں خودکُش بمباری (suicide bombing) کہا جاتا ہے۔ خودکُش بمباری کیا ہے، وہ دراصل مایوسی کا آخری درجہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنے مخالف پَر غلبہ حاصل نہیں کرسکتا ، اِس لیے وہ یہ چاہنے لگتا ہے کہ فریقِ ثانی کو محدود نقصان پہنچانے کی خاطر خود اپنے آپ کو ہلاک کرے، او رپھر اپنے آپ کو یہ کہہ کر مطمئن کرلے کہ میں نے ایسا اِس لیے کیا کہ میں شہید ہو جائوں۔
دشمن کے مقابلے میں خودکش بمباری دراصل یہ ہے کہ آدمی کے سامنے پیس فل ایکشن کا انتخاب کھُلا ہوا ہو مگر نفرت اورانتقام کے جذبات میں مبتلا ہو کر وہ اس کو دیکھنے کے لیے اندھا ہو جائے اور اندھے پن میں وہ خود اپنے کو ہلاک کر ڈالے۔ کوئی بھی صورتِ حال جہاں کوئی شخص خودکُش بمباری کا چوائس لیتا ہے وہاں یقینی طور پر اس کے لیے پُر امن طریقِ کار کا راستہ کھُلا ہوتا ہے۔ مگر وہ اس کو دیکھ نہیں پاتا۔
اصل یہ ہے کہ پُرامن طریقِ کار کا انتخاب لینے کے لیے پہلی ضروری شرط یہ ہے کہ آدمی کا ذہن نفرت اور انتقام کے جذبات سے خالی ہو۔ وہ غیر متاثر انداز میں واقعات کا تجزیہ کرے۔ پیغمبرِاسلام کے الفاظ میں: وہ چیزوں کو ویسا ہی دیکھ سکے جیسا کے وہ ہیں (أرنا الأ شیاء کما ھی)تفسیر الرازی، 1/119۔ پُرامن عمل ایک مثبت عمل ہے اور مثبت عمل کی اہمیت کو ایک مثبت ذہن ہی سمجھ سکتا ہے،اور اس کے مطابق اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرسکتا ہے۔