سیاسی ایمپائر سے غیر سیاسی ایمپائر تک
کمیونی کیشن کے اعتبار سے تاریخ کے دو دور ہیں۔ ایک ہے اتصال قریب کا دور، اور دوسرا ہے الاتصال عن بُعد (telecommunication) کا دور۔ جدید کمیونی کیشن (modern communication )سے پہلے جسمانی ذریعے سے اتصال ہوا کرتا تھا۔ جدید کمیونی کیشن کے دور میں یہ ممکن ہوگیا ہے کہ جسمانی دوری کے باوجودبذریعہ آلات اتصالِ بعیدکیا جاسکے۔ اتصالِ بعید کا یہ طریقہ اسلام جیسے دعوتی مشن کے لیے بے حد اہم حیثیت رکھتا ہے۔ اس دریافت کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ محلی دعوت کو عالمی دعوت کی صورت دی جاسکے۔ یہ تاریخی واقعہ اسلامی مشن کے لیے بے حد اہم تھا۔ اس لیے اس کو پیشگی طور پر پیغمبر کو ایک وقتی معجزہ کی صورت میں دکھایا گیا۔ اس معجزاتی واقعہ کو قرآن کی سورہ نمبر17 میں اِسراء کہا گیاہے۔
اسراء کا لفظی مطلب ہے رات کو سفر کرنا (to travel by night) ۔ یہ لفظ عام طور پر تیز رفتار سفر کے لیے بولا جاتا ہے۔ بعد کے زمانے میں ایسی ٹکنالوجی دریافت ہونے والی تھی جس کے بعددور کا سفر یا دور کی پیغام رسانی عمومی طور پر ممکن ہوجائے۔ اور اس طرح ایک انقلابی واقعہ ظہور میں آئے۔ وہ یہ کہ دعوتِ نبوت جو قدیم تاریخ میں ایک محلی دعوت کی حیثیت رکھتی تھی، وہ جدید ٹکنالوجی کے ذریعےایک عالمی دعوت کی حیثیت اختیار کرلے۔ یہ واقعہ پیغمبرانہ مشن کی نسبت سے ایک انقلابی واقعہ تھا۔ یہ انقلابی واقعہ قدیم زمانے میں لوگوں کے لیےایک ناقابل تصور واقعہ ہوسکتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالی نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک وقتی معجزہ کی صورت میں اس کا تجربہ کرایا جو بعد کے زمانے میں ایک عمومی واقعہ بننے والا تھا۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس واقعہ کا تجربہ اس طرح کرایا گیا کہ ہجرت سے ایک سال پہلے 622 عیسوی میں ایک رات کو مکہ سے یروشلم تک کے سفر کا وہ واقعہ پیش آیا جس کو قرآن میں اسراء کہا گیا ہے۔ واضح ہو کہ مکہ سے یروشلم تک کی دوری تقریبا دوہزار کلو میٹر ہے۔
اس سلسلے میں قرآن کی سورہ نمبر 17 میں یہ الفاظ آئے ہیں:سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَى بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا (الاسراء:1) ۔ اس آیت میں لنریہ من آیاتنا میں من تبعیضیہ ہے۔ اس کا ترجمہ اردو مترجمین نے ’’کچھ‘‘کے لفظ سے کیا ہے۔اورشاہ ولی اللہ دہلوی نے درست طور پران الفاظ کا فارسی ترجمہ اس طرح کیا ہے:تا بنمایم اش بعض نشانہائے خود(تاکہ ہم دکھائیں اس کو اپنی نشانیوں میں سے بعض )۔
قرآن کی تفسیر میں جس چیز کو شان نزول کی روایات کہا جاتا ہے، ان میں قیاساًتاریخ بھی شامل ہے۔ یعنی نزولِ قرآن کے وقت جو تاریخ تھی اس کے حوالے سے قرآن کی بعض آیات کو سمجھنا۔ اس اصول کے مطابق غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی اس آیت میں من آیاتناسے مراد غالباً مستقبل کاوہ واقعہ ہے جو کمیونی کیشن بذریعہ ٹکنالوجی کی صورت میں بعد کوظہور میں آنے والا تھا۔
ایک مثال
اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا،اسنا (ISNA)کی دعوت پر میرا ایک سفر امریکا کے لیے ہوا۔ 26 اگست 2015 کو دہلی سے روانگی ہوئی۔ تو دہلی سے ایر انڈیا کے ذریعے روانگی ہوئی۔ 9ستمبر2015کو دہلی واپس پہنچا۔ یہ سفر ایک قافلے کی صورت میں تھا۔ اس میں دس آدمی شامل تھے۔ اس سفر کے دوران نیو یارک، واشنگٹن، شکاگو، اور پنسلوانیا میں مختلف پروگرام ہوئے۔
اس سفر کے دوران ایک خاص تجربہ وہ تھاجو 4ستمبر2015 کو پیش آیا۔ شکاگو ایرپورٹ کے پاس ایک ادارہ ٹرکش امریکن سوسائٹی(Turkish American Society) کے نام سے قائم ہے۔ اس سینٹر کے ذمے دار مجھ کو وہاں لے گئے۔ تقریبا ایک دن وہاں ٹھہرنے کا موقع ملا۔ یہ ایک بڑا سینٹر ہے جو امریکا کے ترقیاتی معیار پر قائم کیا گیا ہے۔ یہ فتح اللہ گولن کی تعلیمی تحریک کے مرکز کے طور پر بنایا گیا ہے۔
فتح اللہ گولن کی تحریک ایک غیر سیاسی تحریک ہے۔ اس کے ممبروں کی تعداد تقریبا دو ملین ہے۔ یہ لوگ جدید اسٹینڈرڈ کے مطابق ساری دنیا میں انگریزی اسکول قائم کرتے ہیں۔ ان کے اسکولوں اور تعلیمی مرکزوں کی تعداد مختلف ملکوں میں تقریبا ڈیڑھ ہزار ہے۔ یہ تعلیمی ادارے تقریباً ایک سو ساٹھ ملکوں میں قائم ہیں۔ امریکا میں ان کا جو اسکول ہے وہ امریکا کے دس اعلیٰ اسکولوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
جدید ترکی کا میں عرصہ سے مطالعہ کر رہاہوں۔ پہلی بار ترکی کے لیے میرا سفر مئی 2012 میں ہوا تھا۔ یہ سفر فتح اللہ گولن کے ادارہ کی دعوت پر ہوا تھا۔ دوسری بار امریکا کے سفر کے دوران جدید ترکی کے بارے میں مزید معلومات مجھے حاصل ہوئیں۔اس مطالعے کا ایک پہلو وہ ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ فتح اللہ گولن صاحب اور ان کے ساتھیوں نے دورِ حاضر کے مواقع کو سمجھا، اور خاموش عمل کے ذریعے پوری دنیا میں اپنا ایک ایجوکیشنل ایمپائر قائم کردیا۔
جو لوگ خلافتِ ترکی کے سقوط کو ملت کا ناقابلِ تلافی المیہ سمجھتے ہیں، ان کو معلوم نہیں کہ اس دنیا میں کوئی محرومی ناقابلِ تلافی محرومی نہیں ہوتی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ترکی نے پولٹیکل ایمپائر کو کھویا، مگر اس کے بعد وہاں کے کچھ لوگوں نے زیادہ بڑے پیمانے پر ایجوکیشنل ایمپائر بنالیا۔ امریکا کے لیےمیرا یہ سفر دو ہفتے کے لیے تھا۔ اس دوہفتے کے دوران میری ٹیم کمیونی کیشن کے ذریعے عالمی سطح پر دعوتی کام کرتی رہی۔ میں نے سوچا کہ یہ بھی دعوہ ایمپائر کی مثال ہے۔ اس دعوہ ایمپائر کے امکانات اتنے زیادہ ہیں کہ یہ کہنا صحیح ہوگا :
Sky is the limit
قدیم زمانے میں کئی سیاسی ایمپائر بنائے گئے۔ ان میں سے ہر سیاسی ایمپائر محدود جغرافی حیثیت رکھتا تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں کمیونی کیشن کی ترقی نے اس بات کو ممکن بنادیا ہے کہ غیرسیاسی ایمپائر کوپوری دنیا میں قائم کیا جاسکے۔ حتی کہ اگر چاند اور مریخ پر انسان ہوں توماڈرن کمیونی کیشن کے ذریعے اس غیر سیاسی ایمپائر کا دائرہ وہاں تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ آج کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مسلمان عصر حاضر کو سمجھیں ، اور عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں۔ یہ وقت کی سب سے زیادہ اہم ضرورت ہے۔