سیاسی غلو

قرآن میں ایک نصیحت اِن الفاظ میں آئی ہے: لاتغلوا فی دینکم(النساء :171) یعنی تم لوگ اپنے دین میں غلو نہ کرو۔ پیغمبر ِاسلام صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ غلو مذہبی گروہوں کی ہمیشہ خاص گمراہی رہی ہے۔ چناںچہ آپ نے فرمایا: ایاکم والغلو فی الدین فانما ھلک من کان قبلکم بالغلو فی الدین (مسند احمد، حدیث نمبر 1851) یعنی تم غلو سے بہت زیادہ بچو کیوں کہ پچھلی امتیں اسی لئے ہلاک ہوئیں کہ انھوں نے دین میں غلو کیا۔

غلو کے معنی انتہا پسندی (extremism)کے ہیں۔ غلو دراصل زوال کی علامت ہے۔ کوئی مذہبی گروہ جب زوال کا شکار ہوتا ہے تو اس کے اندر غلو پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلاً مسیحی گروہ کے بعد کی نسلوں میں ابنیتِ مسیح کا عقیدہ، وغیرہ۔ جیسا کہ معلوم ہے ، حضرت مسیح کی پیدائش معجزاتی انداز میں ہوئی تھی۔ بعد کے مسیحیوں نے اس میں غلو کرنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے یہ عقیدہ بنا لیا کہ حضرت مسیح خدا کے بیٹے تھے۔

حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اﷲ وسلم نے فرمایا کہ میرے امت میں بھی وہ ساری خرابیاں پیدا ہو ں گی جو پچھلی امتوں میں ہوئیں، بلکہ پچھلی امتوں سے بھی زیادہ۔ یہی مطلب ہے اس حدیث کا جس میں بتایا گیا ہے کہ پچھلی امتوں میں 72 فرقے ہوئے تھے اور مسلمانوں میں73فرقے ہو جائیں گے۔

اس قسم کے بہت سے اعتقادی غلو، جلی یا خفی انداز میں مسلمانوں کے اندر پیدا ہو گئے ہیں۔ مگر مسلمانوں میں غلو کی اور ایک قسم ہے جو غالباً کسی پچھلی امت میں پائی نہیں گئی۔ شاید اسی لئے حدیث میں آیا ہے کہ بنی اسرائیل 72 فرقوں میں بٹ گئے اور تم 73فرقوں میں بٹ جائوگے۔ غلو کی اس اضافی قسم کو سیاسی غلو (political extremism)کہا جاسکتا ہے۔

معلوم تاریخ کے مطابق، کسی پچھلی امت کو وہ سیاسی عظمت نہیں ملی جو مسلمانوں کو ظہور اسلام کے بعد ایک ہزار سال کے دوران حاصل ہوئی۔ سیاسی عظمت عقیدہ کا حصہ نہ تھی بلکہ وہ تاریخ کا حصہ تھی۔ مگر مسلمانوں نے اس میں غلو کیا یہاں تک کہ عملی طور پر اس کو عقیدہ کا حصہ بنا دیا۔ اس طرح مسلمانوں میں سیاسی غلو پیدا ہو گیا۔ اسی غلو کا نتیجہ وہ متشددانہ جہاد ہے، جو آج مسلم دنیا میں پایا جاتا ہے۔

سیاسی عظمت کے دور میں مسلمانوں کے اندر اس معاملہ میں غلو آمیز افکار پیدا ہوئے۔ مثلاً یہ کہ مسلمان خدا کی زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں اور ان کو یہ حق ہے کہ وہ خدا کی نیابت میں تمام قوموں کے اوپر حکومت کریں۔ دین ایک مکمل اسٹیٹ کے ہم معنی ہے، اور دین اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک وہ اسٹیٹ کی صورت میں قائم نہ ہو جائے۔ مسلمان افضل گروہ ہے اور دوسری قومیں ان کے مقابلہ میں غیر افضل گروہ۔ اس لئے مسلمان کبھی اس کو برداشت نہیں کرسکتے کہ غیر افضل گروہ ان کے اوپر غالب ہو جائے۔ مسلمانوں کی ذمہ داری صرف نماز روزہ کی ادائیگی سے پوری نہیں ہوسکتی۔ اسی کے ساتھ یہ بھی لازمی طور پر ضروری ہے کہ مسلمان خدا کی حاکمیت کا جھنڈا ساری زمین پر گاڑدیں۔

اس قسم کے عقیدہ کا کوئی تعلق خدا کے اتارے ہوئے دین سے نہیں۔ یہ تمام تر سیاسی غلو ہے مگر موجودہ دور کے مسلمان پوری طرح اس سیاسی غلو میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ تقریباً سارے مسلمان اس غلو آمیز سوچ کا شکار ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ کوئی شعوری طور پر اس میں مبتلا ہے اور کوئی غیر شعوری طور پر اس کا حصہ بنا ہوا ہے۔

جیسا کہ معلوم ہے پچھلی امتوں کو ان کے پیغمبر کے بعد سیاسی عظمت نہیں ملی اس لئے ان کے یہاں سیاسی غلو کا ظاہرہ وجود میں نہیں آیا۔ ان کے یہاں اعتقادی غلو پیدا ہوا کیوں کہ ان کے حالات کے اعتبار سے اسی قسم کا غلو ان کے درمیان پیدا ہونا ممکن تھا۔

مسلمانوں کا معاملہ استثنائی طور پر مختلف تھا۔ ان کے پاس مذہبی عقائد بھی تھے اوراسی کے ساتھ تاریخی معنوں میں سیاسی عظمت بھی۔ چناںچہ حدیث کے مطابق، ان کے یہاں اعتقادی غلو کے اعتبار سے 72 فرقے بن گئے۔ اسی کے ساتھ حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق، ان کے یہاں ایک 73واں فرقہ بھی پیدا ہوا۔ یہ نیا فرقہ سیاسی غلو کرنے والوں کا فرقہ تھا۔ اعتقادی غلو کی برائی مسلمانوں میں تقریباً اتنی ہی ہے جتنی کہ دوسری امتوں میں پائی جاتی ہے مگر اسی کے ساتھ سیاسی غلو نے ان کے معاملہ کو بہت زیادہ سنگین بنا دیا ہے۔

قرآن و حدیث کے مطابق، مسلم امت کا سب سے بڑا فریضہ دعوت ہے۔ یعنی غیر مسلم قوموں میں پُرامن طور پر خداکاپیغام پہنچانا۔ اسی کو قرآن و حدیث میں شھادت علی الناس کہا گیا ہے— مگر موجودہ مسلمان اپنے سیاسی غلو کی بنا پر دعوت اِلی اﷲ کے کام سے تقریباً مکمل طور پر دور ہو گئے ہیں۔ ان کی اس دوری کی سب سے زیادہ خطرناک شکل یہ ہے کہ انھوں نے دوسرے دوسرے کاموں پر دعوت کا لیبل لگا دیا ہے۔ مثلاً مناظرہ (debate)کو دعوت کہنا، سیاسی نظام کے لیے ہنگامہ آرائی کو دعوت کہنا، اصلاح المسلمین کے کام کو دعوت کہنا، کمیونٹی ورک کو دعوت کہنا، وغیرہ۔

آج سب سے زیادہ ضروری کا م یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر دعوت کا شعور پیدا کیا جائے۔ ان کے تعلیمی نظام کو دعوت کے اصول پر قائم کیا جائے۔ ان کو داعی گروہ کی حیثیت سے اٹھایا جائے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ انھیں غیر دعوتی سر گرمیوں سے روکا جائے، کیوں کہ اس کے بغیر موثر انداز میں دعوت کا کام نہیں ہو سکتا۔

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ عصمت من الناس کا راز تبلیغ ما انزل اﷲ میں چھپا ہوا ہے (المائدة: 67)۔یعنی مسلمان اگر دعوت اِلی اﷲ کا کام کریں تو اﷲ ان کی جان و مال کا محافظ بن جائے گا۔ گویا دینی پیغام کا کام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اور یہ اﷲ کا ذمہ ہے کہ وہ ان کے مادی مفادات کی حفاظت کرے گا۔

مشہور حدیث میں آیا ہے : إنما الأعمال بالنیات (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1)۔ یعنی عمل کا دارو مدار نیت پر ہے۔ اس حدیث میں نیت سے مراد وہی چیز ہے جس کو عام طور پر روح یا اسپرٹ کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میںاگرچہ بہت سے اعمال ہیں۔ جن کی ایک ظاہری صورت ہوتی ہے مگر اسلام میں اصل اہمیت کی چیز عمل کی روح یا اسپرٹ ہے نہ کہ محض اس کا ظاہری فارم۔

دوسری طرف حدیث میں آیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بعدکے زمانے کے مسلمانوں کے بارے میں فرمایا: لا یبقى من الإسلام إلاإسمہ (شعب الإیمان للبہیقی، حدیث نمبر1763)۔ یعنی اسلام کا صرف نام باقی رہے گا۔ بعد کی مسلم نسلوں میں ایسا ہوگا کہ داخلی روح یا اسپرٹ تو ان میں ختم ہو جائے گی، البتہ اسلامی اعمال کی ظاہری صورت ان کے یہاں باقی رہے گی۔ لوگ اسلام کی اصل حقیقت سے بے بہرہ ہوں گے۔ وہ صرف ظاہری اسلام کو جانیں گے اور اس کا اہتمام کریں گے۔

اس فرق سے غلوکے معاملہ کو سمجھا جاسکتا ہے۔ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جب کہ اس کی اسپرٹ زندہ تھی تو ساری توجہ روح یا اسپرٹ پر دی جاتی تھی۔ بعد کی نسلوں میں جب زوال آیا تو ظاہری چیزوں کو اہمیت دی جانے لگی۔ یہی ہر معاملہ میں ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر بزنس کلچر میں ایک لفظ بہت بولا جاتا ہے وہ ہے کسٹمر فرینڈلی بیہیویر (customer-friendly behaviour)۔ چناںچہ بزنس مین اپنے کسٹمر کے ساتھ بہت زیادہ دوستانہ آداب کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں گھر کے ادارہ کو دیکھیے۔ کسی گھر میں آپ ماں باپ کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنیں گے کہ ہمارا رویہ اپنی اولاد کے ساتھ سن فرینڈلی (son-friendly) ہوتا ہے۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ ماں باپ کے اندر اپنی اولاد کے لیے محبت کی روح اپنے آپ موجود رہتی ہے، اس لیے انھیں اس کی ظاہری نمائش کی ضرورت نہیں۔

بزنس مین کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ بزنس مین کے دل میں اپنے کسٹمر کے لئے کوئی قلبی شفقت اورمحبت نہیں ہوتی۔ اس لئے وہ ظاہری آداب کا خوب اہتمام کرتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جہاں داخلی روح زندہ ہو وہاں ظواہر کا زیادہ اہتمام دکھائی نہیں دے گا لیکن جب داخلی روح موجود نہ رہے تو ظاہری چیزوں کا خوب اہتمام ہوگا۔

یہی وہ انسانی مزاج ہے جو مذہب میں وہ چیز پیدا کرتا ہے جس کا نام غلو ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ غلو یا انتہا پسندی کا معاملہ ہمیشہ ظاہری چیزوں میں کیا جاتا ہے، نہ کہ داخلی حقیقت میں۔

موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مذکورہ پیغمبرانہ پیشین گوئی مکمل طور پر پوری ہو چکی ہے۔ مسلمانوں میں جو غلو پیدا ہوا ہے۔ اس کی ایک قسم وہ ہے جس کو اعتقادی غلو کہا جاسکتا ہے۔ مثلاً حضرت علی کی تفضیلِ مطلق کا عقیدہ، بزرگوں کے وسیلوں کا عقیدہ ، قبروں کے تقدس کاعقیدہ، وہ عقیدہ جس کو الطاف حسین حالی نے ان الفاظ میں بیان کیا:

نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں

موجودہ زمانے میں ساری دنیا میں جہاد کے نام پر متشددانہ کارروائیاں جاری ہیں۔ کچھ لوگ اس میں براہ راست طور پر ملوث ہیں اور کچھ لوگ اس میں اس طرح شریک ہیں کہ وہ اپنی تقریر یا تحریر میں اس کو درست ثابت کرتے ہیں، کچھ اور لوگ ہیں جواس پر خاموشی کا طریقہ اختیار کئے ہوئے ہیں مگر شرعی اصول کے مطابق وہ بھی اس میں شریک ہیں۔ غرض مسلمانوں کا ایک گروہ اس متشددانہ جہاد میں براہ راست طور پر ملوث ہے اور دوسرا گروہ بالواسطہ طور پر۔

یہ سیاسی غلو موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ اس کمزوری نے ان سے وہ تمام انسانی اوصاف چھین لیے ہیں جو کسی قوم کو عزت اور عظمت کا مقام دیتے ہیں۔ مثلاً انسان کی خیرخواہی، آفاقی طرز فکر، مثبت انداز میں سوچنا، زمانہ کی تبدیلیوں کو جاننا، حقیقت پسندی کا مزاج، دوسروں کا اعتراف، داعیانہ اسپرٹ، امن کی اہمیت کو سمجھنا، موضوعی نقطۂ نظر (objective thinking)،وغیرہ۔

اس سیاسی غلو کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ مسلمان ماضی کے جنون سے باہر نہ آسکے، وہ حال کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ ماضی میں جنگ فیصلہ کن ہوا کرتی تھی، موجودہ زمانہ میں پرامن وسائل زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں۔ مگر مسلمانوں کو اس کی خبر نہیں۔ ماضی میں زراعات پر مبنی اقتصادیات کا دور تھا۔ اب انڈسٹری پر مبنی اقتصادیات کا دور آچکا ہے مگر مسلمان اس سے بے خبر ہیں۔ ماضی میں جدید کمیو نی کیشن کا کوئی وجود نہ تھا جب کہ آج جدید کمیونی کیشن سب سے بڑی طاقت بن چکی ہے۔ مگر مسلمان اس کو نہیں جانتے۔ ماضی میں تمام ذرائع حکومت کے پاس ہوتے تھے، موجودہ زمانہ اداروں (institutions)کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانہ میں یہ ممکن ہو گیا ہے کہ کوئی گروہ اداروں کے ذریعے ایک متوازی امپائر بنا سکے مگر مسلمانوں کو اس نئی حقیقت کی کوئی خبر نہیں، وغیرہ۔

موجودہ زمانہ میں جو متشددانہ جہاد شروع کیا گیا، وہ ٹیپو سلطان (وفات:1799) سے لے کر آج تک جاری ہے۔ مگر اس دو سو سالہ جہاد کا کوئی بھی مثبت نتیجہ نہیں۔اس کے باوجود مسلمانوں میں ابھی تک ازسرے نو جائزہ (reassessment)کی کوئی حقیقی تحریک نہیں اٹھ سکی۔ اس کا سبب مسلمانوں کا یہی شعوری پچھڑاپن ہے۔ آج سب سے بڑا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کے اس شعوری پچھڑےپن کو دور کیا جائے، اس کے بغیر صورت حال میں کسی مثبت تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔

تقریباً۷۰ سال پہلے امیر شکیب ارسلان نے ایک کتاب لکھی جس کا ٹائٹل تھا:’’لماذا تأخر المسلمون و تقدم غیر ھم‘‘(مسلمانوں کیوں پیچھے رہ گئے اور دوسری قومیں کیوں آگے ہوگئیں)۔ اس کتاب میں جہادمیں پچھڑنے کو مسلمانوں کی پسماندگی کا سبب بتایا گیا ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں اس عربی شعر کو نقل کیا تھا:

تاخرتُ استبقی الحیاۃ فلم أجد

لنفسی حیاۃ مثل أن اَتقدّما

میں بقائے حیات کے لئے جنگ سے پیچھے رہا۔ مگر اس میں میں نے اپنے لئے کوئی زندگی نہ پائی۔ زندگی تو صرف آگے بڑھنے والوں کے لئے تھی۔

یہی بات پچھلے دوسو سال سے تمام مسلم رہنما لکھتے اور بولتے رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ جہادی نظریہ تمام دنیا کے مسلمانوں میں پھیل گیا۔ حتیٰ کہ جہادی ماڈل ہی عمل کا واحد ماڈل بن گیا۔ لیکن آج نتیجہ کو سامنے رکھ کر سوچیے تو معلوم ہوگا کہ یہ عمل، معکوس نتیجہ(counterproductive)پیدا کرنے والاعمل ثابت ہوا۔ ایسی حالت میں مذکورہ شعر کی بات کو بدل کر یہ کہنا صحیح ہوگا کہ —میں نے زندگی اور بقاء کے لئے جنگ کا طریقہ اختیار کیا مگر آخر کار معلوم ہوا کہ زندگی اور بقاء تو ان لوگوں کے لیے ہے جو متشددانہ طریقہ کار کے بجائے پرامن طریقہ کار کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom