موافقِ اسلام دور

قرآن و حدیث میں کثرت سے ایسی پیشین گوئیوں کا ذکر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں آنے والا دور، اسلام کے لیے ایک موافق دور بن جائے گا۔ یہ ممکن ہوجائے گا کہ اسلامی دعوت کا مشن موافق حالات میں انجام دیا جاسکے۔ اس سلسلے میں کچھ متعلق آیتیں اور حدیثیں یہاں نقل کی جاتی ہیں۔

 -1 ایک آیت قرآن میں تین مقام پر آئی ہے۔اس کے الفاظ یہ ہیں: ہُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَى وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَى الدِّینِ کُلِّہِ(التوبہ: 33 ، الفتح: 28 ، الصف: 9) یعنی اسی نے اپنے رسول کو بھیجا ہے ہدایت اور دین حق کے ساتھ تاکہ اس کو سارے دین پر غالب کردے۔ اس آیت میں اظہار سے مراد سیاسی اظہار نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب دلائل و براہین کے ذریعے اظہار۔ اِس اظہار سے مراد کوئی وقتی اظہار نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے تاریخ میں ایک ایسا عمل (process )شروع ہوگا جو مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اس انتہا تک پہنچے گا کہ دنیا میں حالات کے لحاظ سے ایک موافق اسلام دور آجائے۔ اہل اسلام کے لیے یہ موقع ہوگا کہ وہ حکیمانہ منصوبہ مندی کے ذریعے اللہ کے دین کو نظریاتی اعتبار سے ایک غالب دین بنادے۔

 -2اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (فصلت:53) یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے۔ قرآن کی اس آیت میں اُن علمی دلائل کا ذکر ہے جو سائنسی دور میں سامنے آئے۔ اور جو اسلام کے نظریات کو مسلمہ دلائل کے سطح پر ثابت کرنے والے ہیں۔

3  -اسی طرح قرآن کی ایک آیت یہ ہے:سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَى بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا (الاسراء: 1)یعنی پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایا ہے، تاکہ ہم اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ قرآن کی اس آٰیت میں پیغمبر اسلام کے ایک واقعے کی صورت میں امت کے لیے اس مستقبل کی پیشگی خبر دی گئی ہے جب کہ دنیا میں ہوائی سفر کا دور آجائے گا، اور امتِ محمدی کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ وہ تیز رفتار سفر کے ذریعے ساری دنیا میں اللہ کا پیغام پہنچادے۔

 -4اسی طرح ایک لمبی حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں:ولیتمن اللہ ہذا الأمر حتى یسیر الراکب ما بین صنعاء إلى حضرموت، لا یخشى إلا اللہ (مسند احمد، حدیث نمبر21057) یعنی اللہ ضروراس امر کو مکمل کرے گا یہاں تک کہ ایک مسافر صنعاء اور حضرموت کے درمیان سفر کرے گا، اور اس کو اللہ کے سوا کسی اور کا ڈر نہ ہوگا۔ اس حدیثِ رسول میں اس دور کی پیشگی خبر دی گئی ہے جب کہ دنیا میں مذہبی جبر (religious persecution) کا دور مکمل طور پر ختم ہوجائے گا، اور مذہبی آزادی (religious freedom) کا دور مکمل طور پر آجائے گا۔ اور یہ ممکن ہوجائے گا کہ کسی رکاوٹ کے بغیر اسلامی دعوت کا کام ساری دنیا میں بلا خوف کیا جاسکے۔

 -5اسی طرح ایک حدیث میں امت کے لیے ایک واقعے کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے: فلم یقاتلوا بسلاح ولم یرموا بسہم قالوا لا إلہ إلا اللہ واللہ أکبر فیسقط أحد جانبیہاثم یقولوا الثانیة لا إلہ إلا اللہ واللہ أکبر فیسقط جانبہا الآخر ثم یقولوا الثالثة لا إلہ إلا اللہ واللہ أکبر فَیُفَرَّجُ لہم فیدخلوہا ۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2920)یعنی وہ کسی ہتھیار سے جنگ نہیں کریں گے، اور نہ کوئی تیر اندازی کریں گے، وہ صرف لا الہ الا اللہ ، اور اللہ اکبر کہیں گے پس قلعے کے ایک جانب کی دیوار گر جائے گی، پھر وہ دوبارہ کہیں گے، لا الہ الا اللہ ، اور اللہ اکبر تو دوسری سمت کی دیوار بھی گر جائے گی، پھر وہ تیسری مرتبہ کہیں گے، لا الہ الا اللہ ، اور اللہ اکبر تو وہ ان کے لیے کھل جائے گا، پس وہ اُس میں داخل ہوجائیں گے۔

اس حدیث میں اُس آنے والے دور کو بتایا گیا ہے جب کہ پر امن جدو جہد (peaceful activism) ہر قسم کی کامیابی کے لیے کافی ہوگی۔

 -6اسی طرح ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، حدیث نمبر3062)۔یعنی اللہ ضرور اس دین کی مدد فاجر انسان کے ذریعے سے کرے گا۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے دور میں اسلام کے لیے موافق حالات اتنے عام ہوجائیں گے کہ سیکولر لوگوں کا عمل بھی اس کےحق میں تائید بن جائے گا۔

 -7اس نوعیت کی ایک آیت فرعون کے ذیل میں اس طرح آئی ہے: فَالْیَوْمَ نُنَجِّیکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُونَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَةً (یونس 92 :) یعنی (اللہ نے فرعون سے کہا کہ)پس آج ہم تیرے بدن کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لئے نشانی بنے۔اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ بعد کے زمانے میں ایسی نشانیاں ظاہر ہوں گی جو قرآن کے بیانات کی تصدیق کرنے والی ہوں، انھیں میں سے ایک حضرت موسی کے زمانے کے فرعون کی لاش کی دریافت ہے۔ جوآج قاہرہ کے میوزیم میں موجود ہے۔

 -8اسی طرح قرآن کی دو آیتیں ہیں: الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِی خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ O ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ إِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَہُوَ حَسِیرٌ O (الملک:3-4)  قرآن کی یہ آیتیں  ساتویں صدی عیسوی میں اتریں۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ خدا کی تخلیق میں کوئی فطور (flaw) نہیں ہے۔ بعد کی تحقیقات مسلسل طور پر اس قرآنی دعوے کی تصدیق کرتی جارہی ہیں۔

اس طرح کے بیانات قرآن و حدیث میں کثرت سےموجود ہیں۔ یہ بیانات اسلام کی ابدیت کو بتاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی صداقت ہر دور میں نئے نئے دلائل کے ساتھ ظاہر ہوتی چلی جائے گی۔ اسلام ہمیشہ ایک زندہ مذہب کی حیثیت سے باقی رہے گا۔ اسلام کے ساتھ نہ صرف اس کے پیرؤوں کی بڑی تعداد موجود رہے گی، بلکہ نظری اعتبار سے اسلام ہمیشہ دلیل و حجت کی سطح پر قائم رہے گا۔ اسلام کی یہ حیثیت اسلام کے داعیوں کے لیے ایک بشارت ہے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom