ایمان کے بعد ایمان
قرآن میں اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئےایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا آمِنُوا (النساء:136) یعنی اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ۔ اس آیت کے مطابق اہل ایمان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ایمان کے بعد دوبارہ ایمان لائیں۔ یہ ایمان کے بعد دوبارہ ایمان کیا ہے ، اس کو سمجھنے کے لیے قرآن کی ایک اور آیت کا مطالعہ کیجیے۔ اس دوسری آیت کے الفاظ یہ ہیں: قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَکِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْإِیمَانُ فِی قُلُوبِکُم (الحجرات:14)یعنی اعراب (بدو) کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے، کہو کہ تم ایمان نہیں لائے۔ بلکہ یوں کہو کہ ہم نے اسلام قبول کیا، اور ابھی تک ایمان تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔
دونوں آیتوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے بعد ایمان کا مطلب یہ ہے کہ قولی ایمان کو داخل القلب ایمان بنایا جائے۔ کلمۂ ایمان کے تلفظ کو ایک ایسے کلمہ کے درجے تک پہنچایا جائے جو انسان کے لیے یقین اور شعوری بیداری کے ہم معنی بن جائے۔ ایک ایسا ایمان جو انسان کی سوچ میں اس طرح شامل ہوجائے کہ وہ اپنے ہر علم اور ہر تجربے کو حقیقتِ ایمانی میں ڈھال لے۔
یہ مقصد کس طرح حاصل ہوتا ہے۔ اس کا ذریعہ صرف ایک ہے، اور وہ تدبر (ص:29) ہے۔ یعنی ایمان باللہ اور اس کے متعلقات پر برابر سوچتے رہنا، ہرمعاملے کو اللہ کی ہدایت کی روشنی میں جانچتے رہنا، ہر صبح و شام اپنا بے لاگ محاسبہ کرتے رہنا، کائنات کی نشانیوں میں مسلسل طور پر غور کرتے رہنا، ہر مشاہدہ اور تجربہ سے رزقِ رب (طہ:131) حاصل کرتے رہنا۔ اسی کا نام تدبر ہے۔ اور یہی تدبر اس بات کا ضامن ہے کہ کسی انسان کا قولی ایمان ایک داخل القلب ایمان بن جائے۔ اقرار کے درجے کا ایمان یقین کے درجے کا ایمان بن جائے۔