طریق استدلال کا مسئلہ
ٹی۔ آر۔ مائلز(T.R.Miles) نے کہا ہے:
’’ماضی کے علمائے مذاہب کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جس نے ایک بے کار چک (Dud Cheque) لکھ دیا ہو،جس کے لیے بنک میں واقعی رقم موجود نہ ہو۔ یہ لوگ ایسے الفاظ استعمال کرتے رہے جس کے پیچھے معنویت کا سرمایہ نہیں تھا۔’’ناقابل تغیر حقیقت اعلیٰ قواعد زبان کی رو سے ایک صحیح جملہ ہے مگر وہ ایک بے کار چک ہے جس کے پیچھے کوئی حقیقی سرمایہ موجود نہیں۔‘‘
Religion and Scientific Outlook, p. 20
اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ مذہب کے جو دعوے ہیں ان کی بنیاد کسی دلیل پر قائم نہیں ہے۔ مذہب خالص اعتقادی چیز ہے۔ جب کہ کسی چیز کا حقیقت ہونا اس وقت متحقق ہوتا ہے جب کہ وہ اعتقاد کی اندرونی دنیا سے باہر ثابت کی جا سکے۔ مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ ’’کہکشاں نورانی بادل نہیں بلکہ الگ الگ ستاروں کا مجموعہ ہے۔‘‘ ابتدائی طور پر یہ بیان صرف ایک عقیدہ ہے مگر جب مدعی اسے دوربین کے شیشہ میں دکھا دے تو یہ عقیدہ ایک ایسی حقیقت بن جاتا ہے جو ہر ایک کے لیے قابل مشاہدہ ہو۔ مذہب کی صداقتوں کو اس طور پر خارج میں (Demonstrate) نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے مذہب صرف ایک دعویٰ یا عقیدہ ہے۔ اس سے زیادہ اس کو کوئی حیثیت حاصل نہیں۔
آیئے اس سوال کا تجزیہ کریں۔ یہ معیار استدلال جس کا اوپر ذکر ہوا سادہ طور پر ایک واحد چیز نظرآتا ہے۔ مگر عمل میں آنے کے بعد اس کے کئی درجہ بن جاتے ہیں۔
1۔ اس کا ابتدائی درجہ یہ ہے کہ جو چیز زیر بحث ہے خود وہ چیز براہ راست ہمارے اپنے تجربے اور مشاہدے میں آ جائے۔ مثال کے طور پر ایک شخص دعویٰ کرتا ہے کہ ’’پانی میں کیڑے ہوتے ہیں ‘‘ بظاہر یہ عجیب سا دعویٰ ہے۔ مگر جب ہم اس دعویٰ کو جانچنے کے لیے پانی کے قطرے کو خوردبین کے شیشے کے نیچے رکھتے ہیں تو واقعی ہمیں نظر آتا ہے کہ پانی کے اندر بے شمار چھوٹے چھوٹے کیڑے بلبلا رہے ہیں۔
2۔دوسرا درجہ وہ ہے کہ جب کہ دعویٰ پورا کا پورا تو نظر نہ آئے مگر اس کے کچھ اجزاء (Patches) دکھائی دے رہے ہوں۔ مثال کے طور پر یہ دعویٰ کہ’’زمین گول ہے‘‘ اپنی پوری شکل میں کسی بھی طرح انسانی مشاہدہ میں نہیں آ سکتا۔ مگر اس کی گولائی کے بعض حصوں کو ہم بلاشبہ دیکھ سکتے ہیں۔ مثلاً ایک خلائی جہاز جب اوپر اٹھ کر دوربینی کیمرے سے زمین کی تصویر لیتا ہے تو وہ اس میں اسی طرح گول نظر آتی ہے جیسے چاند۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ اس کی گولائی کا صرف جزء ہوتا ہے، نہ کہ کُل۔
3۔ مگر اس طرح کے مشاہدات سے جو حقائق ہمارے ادراک میں آتے ہیں وہ اس دنیا کے بہت معمولی حقائق ہیں۔ ان مشاہدات سے کوئی بھی معنی خیز حقیقت (significant fact) حاصل نہیں ہوتی۔ حالانکہ دنیا کے بارے میں ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ وہ بے شمار معنی خیز حقائق سے بھری ہوئی ہے۔
یہاں جدید ذہن اپنے معیار استدلال میں ایک اور اضافہ کرتا ہے، اور وہ یہ کہ وہ استدلال بھی ایک صحیح معیار استدلال ہے جس میں اگرچہ اصل حقیقت کو براہ راست دکھایا نہ گیا ہو مگر اس کے کچھ ایسے پہلو ہمارے تجربہ میں آتے ہوں جن سے قیاس کیا جا سکے کہ ایسی کوئی حقیقت یہاں پائی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر الیکٹران بذات خود ایک ناقابل مشاہدہ چیز ہے۔ وہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ نہ کوئی خوردبین اسے دکھا سکتی ہے اور نہ کوئی ترازو اسے تول سکتا ہے۔ مگر اس کے باوجود سائنس کی دنیا میں الیکٹران کو ایک حقیقت سمجھا جاتا ہے۔ کیوں اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ الیکٹران بذات خود تو نظر نہیں آتا، مگر اس کے کچھ ایسے اثرات(effects) قابل اعادہ تجربات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں جن کی توجیہہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی کہ ہم الیکٹران جیسے ایک نظام کا وجود فرض کریں۔ الیکٹران بذات خود ایک مفروضہ ہے مگر اس مفروضہ کی بنیاد چونکہ بالواسطہ تجربہ پر ہے اس لیے سائنس اسے تسلیم کرتی ہے۔
معیار استدلال میں اس تیسرے اضافہ کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ وہ معنی خیز حقائق ہمارے دسترس میں آ سکے جن کا دوسرا نام جدید طبیعیات یا نیوکلیر سائنس ہے۔
(4) مگر مطالعہ نے بتایا کہ یہ تیسرا معیار بھی آخری نہیں ہے۔ اس سے جو حقائق ہمیں دستیاب ہوتے ہیں، وہ تمام تر وہی ہیں جن کو ایک عالم نے تکنیکی حقائق (technical truths) کہا ہے جب کہ کائنات کی وسعت تکنیکی حقائق سے بہت آگے جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ معنی خیز حقائق وہاں سے شروع ہوتے ہیں جہاں تکنیکی حقائق کا خاتمہ ہوتاہے۔ مثال کے طور پر جسم انسانی کا حیاتیاتی اور عضویاتی مطالعہ ہمارے سامنے بہت سے حقائق کھولتا ہے اور بلاشبہ اس کے اندر معنویت بھی ہے۔ مگر اس سے زیادہ معنی خیز حقیقت وہ ہے جو انسان کے آغاز و انجام سے متعلق ہے مگر یہاں حیاتیات اور عضویات کا رواجی مطالعہ ہمارا ساتھ نہیں دیتا، اسی لیے ایک مغربی عالم نے کہا ہے— جو چیز قابل دریافت ہے وہ غیر اہم ہے اور جو چیز اہم ہے وہ قابل دریافت نہیں:
‘‘The knowable is unimportant, and the important is unknowable.’’
اب جدید ذہن معیار استدلال کی فہرست میں ایک اور معیار کا اضافہ کرتاہے۔ اور وہ یہ کہ مشاہدات و تجربات، خواہ خالص ٹیکنیکل سائنس کے معنی میں، اصل دعویٰ سے براہ راست مربوط نہ ہو، مگر وہ اصل دعویٰ کے حق میں جائز قرینہ پیدا کرتے ہوں، نیز ان کی توجیہہ کے لیے کوئی بہتر تصور موجود نہ ہو تو ایسے استدلال کو بھی جائز اور صحیح استدلال سمجھا جائے گا۔
یہ آخری معیار استدلال بھی جدید ذہن کے لیے ایک معقول معیار (valid criterion) ہے، اور جو چیز اس معیار پر قرارِ واقعی طور پر پوری اترے، اس کو بھی ایک ثابت شدہ چیز سمجھا جائے گا۔ اس کی وضاحت کے لیے میں یہاں دو مثالیں دینا چاہتا ہوں۔ ایک منفی اور دوسری مثبت۔
منفی مثال کے ذیل میں جدید ذہن کے خلافِ مذہب نظریات کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ مذہب کے سلسلہ میں جدید ذہن کا کہنا صرف یہ نہیں ہے کہ وہ ہمارے لیے قابل فہم نہیں ہے۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر خود مذہب کی واقعیت کے بارے میں اس نے ایک بیان (statement) دے دیا ہے۔ اور وہ یہ کہ مذہب ایک سراسر غلط اور بے بنیاد چیز ہے۔
انکار مذہب کا یہ دعو ی کس معیار استدلال کے تحت کیا گیاہے۔ وہ تمام تر اسی معیار کے تحت ہے، جس کو ہم نے اوپر نمبر4 کے ذیل میں بیان کیا ہے۔ گویا جدید ذہن مذہب کے خلاف دلیل قائم کرنے کے لیے اس چوتھے معیار کو ایک جائز اور معقول معیار تسلیم کرتاہے۔
مذہب کے خلاف دور جدید کا مقدمہ بیک وقت دو متضاد پہلوئوں کا حامل ہے۔ ایک طرف جدید ذہن کا کہنا ہے کہ مذہب چونکہ ایسے عقائد کے مجموعہ کا نام ہے جس کا مظاہرہ (demonstration) ممکن نہیں ہے، اس لیے وہ شخصی عقیدہ کی چیز ہے۔ دوسروں سے اس کے ماننے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ دوسری طرف فلسفیوں اور سائنس دانوں کی ایک فوج یہ بھی کہہ رہی ہے کہ جدید دریافتوں نے مذہبی عقائد کو باطل ثابت کر دیا ہے۔
یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ کیونکہ مذہب اگر ایک ایسے دائرے کی چیز ہے جس کو دوسرے شخص کے سامنے علمی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا، تو جس طرح اس کا ثابت کرنا ناممکن ہوگا اسی طرح اسکا رد کرنا بھی ناممکن ہونا چاہیے۔ اس اعتبار سے دیکھئے تو دور جدید کے موقف کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم مذہب کو علمی طور پر مدلل کرنا چاہیں تو وہ کہیں گے کہ تم فضول کوشش کر رہے ہو کیونکہ مذہب ثابت کرنے کی چیز ہی نہیں۔ لیکن جب وہ خود مذہب کے خلاف دلیل قائم کرنا چاہیں تو مذہب ایک ایسے دائرے کی چیز بن جاتا ہے جہاں علمی دلائل قائم کیے جا سکتے ہوں۔
اس تضاد کی وجہ حقیقۃً یہ نہیں ہے کہ مذہب واقعی ایسے دائرہ سے تعلق رکھتا ہے جہاں دلائل قائم نہ کیے جا سکتے ہوں۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مخالفین مذہب یہ نہیں چاہتے کہ جس اصول استد لال کے تحت انہوں نے مذہب کا رد کرنا چاہا ہے، اسی اصول استد لال کو اہل مذاہب اس کے اثبات کے لیے استعمال کریں۔ کیوں کہ اگر ایسا ہوا توا نہیں مذہب کی معقولیت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی عدالت میں سرکاری وکیل تو اپنا فرض انجام دے رہا ہو مگر ملزم کو اپنا وکیل رکھنے کی اجازت نہ ہو۔ سرکاری وکیل کا ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت اس اصول کو تسلیم کرتی ہے کہ مقدمہ کی وضاحت کے لیے وکیل ہونا چاہیے، مگر اس اصول کو جب ملزم استعمال کرنا چاہے تو حکومت اس کی مخالف ہو جاتی ہے کیونکہ اسے اندیشہ ہوتا ہے کہ اس کا فائدہ کہیں ملزم کو نہ پہنچ جائے۔
اگر اصول یہ ہے کہ حقیقت صرف مشاہدہ اور تجربہ سے حاصل شدہ چیز کا نام ہے تو مذہب کے مخالفین کا موقف اسی وقت صحیح ہو سکتا ہے جب کہ انہوں نے مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ براہ راست طورپر یہ معلوم کر لیا ہو کہ فی الواقع مذہب کوئی چیز نہیں ہے۔ مثلاً ان کا مشاہدہ اس حد تک مکمل ہو چکا ہو کہ وہ کہہ سکیں کہ عالم کے اندر اور عالم کے باہر جوکچھ ہے وہ سب ہم آخری حد تک دیکھ چکے ہیں اور اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہاں نہ خدا ہے، نہ فرشتے، نہ جنت نہ دوزخ، بالکل اسی طرح جیسے10 فٹ چوڑے اور 10 فٹ لمبے ایک خالی کمرے کے اندر ایک بینا شخص ہو تو وہ اس میں نظر دوڑا کر یہ کہنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے کہ اس کے اندر کوئی ہاتھی یا شیر موجود نہیں ہے۔
ظاہر ہے کہ مخالفین مذہب اس موقف میں نہیں ہیں۔ پھر استدلال کا وہ کون سا طریقہ ہے جس سے انہوں نے مذہب کے خلاف مواد حاصل کیا ہے۔ یہ مذہب کا براہ راست مشاہدہ نہیں بلکہ بعض مشاہدات کی توجہیہ ہے۔مثلاً عالم افلاک میں باہمی کشش کو دریافت کرنے کے بعد یہ کہنا کہ کوئی خدا نہیں ہے، جو کائنات کو سنبھالے ہوئے ہو۔ کیونکہ قانون کشش اس کی توجیہہ کے لیے موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں جس مشاہدہ کی بنیاد پر دلیل قائم کی گئی ہے، وہ خود خدا کا عدم وجود نہیں ہے، یعنی کسی دوربین نے آخری طور پر ہمیں یہ خبر نہیں دی کہ یہ کائنات خدا سے خالی ہے بلکہ ایک خارجی مشاہدہ کی بنیاد پر یہ استنباط کیا گیا ہے کہ خدا کو نہیں ہونا چاہیے۔ گویا مشاہدہ یا تجربہ خود عدم وجود کا نہیں ہوا بلکہ ایک اور واقعہ کا ہوا ہے جس سے عدم وجود کو قیاس کر لیا گیا ہے۔
میں کہتا ہوں کہ یہ اصول استد لال جس کو موجودہ زمانہ میں مذہب کے رد کے لیے صحیح سمجھا گیا ہے وہی مذہب کی صداقت کا سب سے بڑاثبوت ہے۔ غلطی اصول استد لال میں نہیں بلکہ اصول استد لال کے انطباق میں ہے۔ اگر اس کو صحیح طور پر منطبق کیا جائے تو نتیجہ بالکل برعکس برآمد ہوگا۔
اس سے ظاہر ہوا کہ استدلال کے چوتھے معیار کو بھی جدید ذہن، ایک جائز اور معقول معیار (valid criterion) تسلیم کرتا ہے۔
اوپر ہم نے چوتھے معیار استد لال کی منفی مثال دی تھی۔ مثبت مثال کے ذیل میں عضویاتی ارتقا(organic evolution) کو پیش کیا جا سکتا ہے جس کو جدید دنیا میں اس طرح تسلیم کر لیا گیا ہے کہ آج علم کی تمام شاخوں میں اس کے اثرات پھیل چکے ہیں۔ نظریہ ارتقا کی صداقت کا ثبوت پہلے اور دوسرے و تیسرے معیار کے مطابق حاصل نہیں ہوتا۔ اس کی صداقت کا واحد ثبوت صرف اس معیار استدلال میں ملتا ہے جس کو اوپر نمبر4 کے تحت بیان کیا گیا ہے۔
عضویاتی ارتقا جدید دنیا کے لیے ایک سائنٹفک حقیقت ہے۔ سائنس آف لائف کے مصنفین نے لکھا ہے’’عضویاتی ارتقا کے حقیقت ہونے سے اب کسی کو انکار نہیں ہے۔ سوا ان لوگوں کے جو جاہل ہوں یا متعصب ہوں یا اوہام پرستی میں مبتلا ہوں۔‘‘ ماڈرن پاکٹ لائبریری(نیویارک) نے(Man and the Universe) کے نام سے کتابوں کا ایک سلسلہ شائع کیا ہے۔ اس سلسلہ کی پانچویں کتاب میں ڈارون کی کتاب’’اصل الانواع‘‘ کو تاریخ ساز تصنیف قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے:
’’انسان اپنا شجرۂ نسب معلوم کرنے کے لیے طویل ترین مدت سے جو کوشش کر رہا ہے، اس سلسلہ میں کسی نظریہ کو اتنی زبردست مذہبی مخالفت کا سامنا کرنا نہیں پڑا جتنا چارلس ڈارون کے انتخاب طبعی کو۔ اور نہ کسی دوسرے نظریہ کو اتنی زیادہ سائنسی تصدیق (scientific affirmation) حاصل ہوئی ہے جتنی اس نظریہ کو حاصل ہوئی ہے۔‘‘
Philosophers of Science, p. 244
امریکہ کا مشہور ارتقا پسند عالم سمپسن(G.G.Simpson) لکھتا ہے:
’’ڈارون تاریخ کے بلند ترین لوگوں میں سے ایک تھا جس نے انسانی علم کی ترقی میں بہت نمایاں کام انجام دیا ہے۔ یہ مقام اس نے اس لیے حاصل کیا کہ اس نے نظریہ ارتقا کو آخری اور مکمل طور پر ایک حقیقت ثابت کر دیا، نہ کہ محض ایک قیاس یا متبادل مفروضہ جو سائنسی تحقیق کے لیے قائم کر لیا گیا ہو۔‘‘
Meaning of Evolution, NY, 1951, p. 127
اے ای مینڈر لکھتا ہے:
’’یہ نظریہ کہ انسان اور دوسری ذی حیات اشیاء کے موجودہ صورت میں پہنچنے کا ارتقائی عمل ہوا ہے، یہ اب اتنے دلائل سے ثابت ہو چکا ہے کہ اس کو تقریباً حقیقت (approximate certainty)کہا جا سکتا ہے۔‘‘
Clearer Thinking, p. 113
لل(R.S.Lull) لکھتا ہے:
’’ڈارون کے بعد سے نظریہ ارتقا دن بدن زیادہ قبولیت حاصل کرتا رہا ہے، یہاں تک کہ اب سوچنے اور جاننے والے لوگوں میں اس بارے میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا ہے کہ یہ واحد منطقی طریقہ ہے جس کے تحت عمل تخلیق کی توجیہہ ہو سکتی ہے اور اس کو سمجھا جا سکتا ہے۔‘‘
Organic Evolution, p. 15
وہ مزید لکھتا ہے:
’’تمام سائنس داں اور دوسرے جاننے والوں میں سے بیشتر لوگ نظریہ ارتقا کی صداقت (truth) پر مطمئن ہو چکے ہیں۔ خواہ وہ جمادات سے متعلق ہو یا حیوانات سے متعلق۔ یعنی یہ کہ زمین جب اس قابل ہوئی کہ اس پر زندہ چیزیں رہ سکیں، اس وقت لمبی مدت کے عمل کے نتیجہ میں زندگی کی کچھ سادہ اقسام پیدا ہوئیں اور اس کے بعد طویل مدت کے مسلسل عمل سے نباتات اور حیوانات کی وہ تمام حیرت انگیز قسم وجود میں آئیں جن کو ہم آج اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔‘‘(صفحہ83)
اس نظریہ کی مقبولیت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ لل کی سات سو صفحے کی کتاب میں زندگی کے تخلیقی تصور(special creation) پرصرف ایک صفحہ اور چند سطریں ہیں اور بقیہ تمام صفحات عضویاتی ارتقا کے بارے میں ہیں۔ اسی طرح انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (1958) میں تخلیق(creationism) کے نظریہ کو چوتھائی صفحہ سے بھی کم دیے گئے ہیں۔
اس کے مقابلہ میں عضویاتی ارتقا کے عنوان کے تحت جو مقالہ شامل کیا گیا ہے وہ باریک ٹائپ کے پورے چودہ صفحات تک پھیلا ہوا ہے۔ اس مقالے میں بھی حیوانات میں ارتقا کو بطور ایک حقیقت(fact) تسلیم کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ڈارون کے بعد اس نظریہ کو سائنس دانوں اور تعلیم یافتہ طبقہ میں قبول عام(general acceptance) حاصل ہو چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ نظریۂ ارتقا کے حق میں وہ کون سے دلائل فراہم ہوئے ہیں، جن کی وجہ سے دور جدید کے اہل علم نے اس کی صداقت تسلیم کر لی ہے۔ یہاں میں اس کے چند بنیادی پہلوئوں کا ذکر کروں گا، تاکہ اندازہ ہو سکے کہ ان دلائل کی نوعیت کیا ہے۔
1۔ حیوانات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان میں ادنیٰ اور اعلیٰ اقسام پائی جاتی ہیں۔ واحد الخلیہ جانوروں (single cellular animal) سے لے کر اربوں خلیات رکھنے والے جانور، اسی طرح صلاحیتوں کے اعتبار سے حیوانات میں ادنی اور اعلیٰ درجات کا فرق۔
2۔ اس ابتدائی مشاہدہ کو جب اس کہانی کے ساتھ ملاکر دیکھا جائے جو زمین کی تہوں میں نقش ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس فرق میں باعتبار زمانہ ایک ارتقائی ترتیب ہے۔ کروڑوں برس پہلے زمین پر زندگی کی جو شکلیں آباد تھیں اس کے پنجر قدرتی عمل کے تحت پتھرائی ہوئی حالت میں اب بھی زمین کے نیچے دبے ہوئے ہیں جن کو فاسل (fossil) کہا جاتا ہے۔ یہ فاسل بتاتے ہیں کہ زمین پر زیادہ قدیم دور میں، حیوانات کی جو قسمیں یہاں آباد تھیں، وہ سادہ قسمیں تھیں اور اس کے بعد دھیرے دھیرے زیادہ پیچیدہ اور ترقی یافتہ قسمیں یہاں آباد تھیں، وہ سادہ قسمیں تھیں اور اس کے بعد دھیرے دھیرے زیادہ پیچیدہ اور ترقی یافتہ قسمیں آباد ہوتی رہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی زندگی کی موجودہ قسمیں سب کی سب بیک وقت وجود میں نہیں آئیں ۔بلکہ سادہ قسمیں وجود میں آئیں اور اس کے بعد دھیرے دھیرے ترقی یافتہ قسمیں۔
3۔ اس کے بعد ایک اور حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے، وہ یہ کہ مختلف حیوانات کے درمیان نوعی اختلاف کے باوجود ان کے جسمانی نظام میں بہت سی مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً مچھلی چڑیا سے ملتی جلتی ہے اور گھوڑے کا ڈھانچہ انسان کے مشابہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ سارے ذی حیات ایک ہی خاندان کی پیداوار ہیں، اور سب کے اجداد بالآخر ایک ہی تھے۔
4۔ ایک نوع سے دوسری نوع کیسے نکلی، یہ اس وقت معلوم ہو جاتا ہے جب ہم ایک اور واقعہ کو دیکھتے ہیں۔ وہ یہ کہ ایک جانور کے بطن سے جو بچے پیدا ہوتے ہیں وہ سب کے سب یکساں نہیں ہوتے بلکہ ان کے مختلف بچوں میں کچھ فرق ہوتا ہے۔ یہی فرق اگلی نسلوں میں مزید ترقی کرتا ہے اور انتخاب طبعی کے عمل کے تحت آگے بڑھتا رہتا ہے۔ یہ فرق لاکھوں سال کے بعد اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ ایک چھوٹی گردن والی بکری، لمبی گردن والے زرافہ کی شکل اختیار کر لیتی ہے اس نظریہ کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ ’’انیمل بیالوجی‘‘ کے مصنفین(ہالڈیناور ہکسلے)نےارتقاکوتبدیلیوں کےانتخاب (selection of mutation) کا نام دیا ہے۔
نظریہ ارتقا کے حامیوں کے دلائل جس معیار استد لال پراترتے ہیں، وہ کون سا معیار ہے۔ وہ وہی معیار ہے، جس کو ہم نے اوپرنمبر4 کے تحت بیان کیا ہے۔ یعنی دعویٰ یااس کے اثرات کا براہ راست تجربہ نہ ہونا۔ البتہ ایسے مشاہدات کا حاصل ہونا، جن سے ان کی صداقت کا منطقی قرینہ معلوم ہوتا ہے۔
نظریہ ارتقا کے حامی ابھی تک ان میں سے ایک چیز کا بھی مشاہدہ یا تجربہ نہیں کرا سکے ہیں، جن کے اوپران کے نظریہ کی بنیاد قائم ہے۔ مثلاً وہ کسی لیبارٹری میں یہ نہیں دکھا سکتے کہ بے جان مادہ سے زندگی کیسے پیدا ہو جاتی ہے۔اس سلسلہ میں ان کے دعویٰ کی بنیاد صرف یہ ہے کہ طبیعیاتی ریکارڈ بتاتا ہے کہ وہ پہلے بے جان مادہ تھا۔ پھر کائنات میں زندگی رینگنے لگی۔ اس سے وہ قیاس کر لیتے ہیں کہ زندگی بے جان مادہ سے اسی طرح نکل آئی ہے، جیسے ماں کے پیٹ سے بچہ نکلتا ہے۔ اسی طرح ایک نوع کا دوسرے نوع میں تبدیل ہونا بذات خود کوئی تجربہ اور مشاہدہ کی چیز نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی چڑیا خانہ میں ایسے تجربات کیے جا سکیں جہاں بکری زرافہ بنتی ہوئی نظر آئے۔ بلکہ بعض خارجی مشاہدات، مثلاً مختلف انواع میں مشابہت اور ایک نسل کے کئی بچوں میں باہم فرق سے یہ قیاس کر لیا گیا ہے کہ نوعیں الگ الگ وجود میں نہیں آئیں، بلکہ ہر نوع دوسری نوع سے برآمد ہوتی چلی گئی ہے۔ اسی طرح جبلت کا ذہانت کی شکل میں ترقی کرنے کا معاملہ ہے جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ انسان بھی حیوان ہی کی ایک اگلی نسل ہے۔
اس سلسلہ میں بھی ابھی تک کوئی ایسا مشاہدہ سامنے نہیں لایا جا سکا، جہاں فی الواقع جبلت ذہانت میں تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہو۔ یہ بھی محض ایک قیاس ہے،جس کی بنیاد صرف اس واقعہ پر ہے کہ ارضیاتی تحقیق میں جبلت والے جانوروں کے آثار نچلے طبقات میں ملتے ہیں اور ذہانت والے جانوروں کے آثار اوپر کے طبقات میں۔
اس قسم کے تمام دلائل کی نوعیت یہ ہے کہ دعویٰ اور دلیل کے درمیان جو ربط ہے، وہ صرف قیاسی ربط ہے، نہ کہ تجرباتی یا مشاہداتی ربط۔ مگر اس قسم کے دلائل کی بنیاد پر ارتقا کے تصور کو موجودہ زمانہ میں ایک سائنٹفک حقیقت قرار دے دیا گیا ہے۔ گویا جدید ذہن کے نزدیک علمی حقائق کا دائرہ صرف انہیں واقعات تک محدود نہیں ہے، جو براہ راست تجربہ سے معلوم ہوں۔ بلکہ تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر جو منطقی قرینہ حاصل ہوتا ہے وہ بھی اتنا ہی سائنٹفک حقیقت ہو سکتا ہے جتنا وہ حقیقت جس کایا جس کے اثرات کا براہ راست تجربہ کیا جا سکتا ہو۔
یہاں مجھے نظریہ ارتقا کی صداقت یا عدم صداقت سے بحث نہیں ہے، کیونکہ یہاں جو سوال ہے وہ اصلاً معیار استد لال سے متعلق ہے نہ کہ نظریہ ارتقا سے متعلق۔ اور یہ ایک معلوم بات ہے کہ خواہ کوئی بھی معیار استدلال ہو، اس سے ثابت کی ہوئی چیز صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔ سائنس میں آئے دن نظریات بدلتے رہتے ہیں، حالانکہ عموماً وہ ان معیاروں کے مطابق ثابت کیے جاتے ہیں، جو خالص تجرباتی نوعیت سے متعلق ہیں۔ کسی معیار استدلال کو جائز اور معقول تسلیم کرنے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس کے حوالے سے جو بات بھی پیش کر دی جائے وہ لازماً صحیح ہو۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ نتیجہ غلط ہو، مگر معیار تسلیم شدہ ہے تو اصل معیار کی معقولیت اس کے بعد بھی باقی رہے گی۔
سرآرتھر کیتھ کے الفاظ میں ارتقا مذہب عقلیت کا ایک بنیادی عقیدہ (basic dogma of rationalism) ہے۔ ایک سائنسی انسائیکلوپیڈیا میں ڈارونزم کو ایک ایسا نظریہ کہا گیا ہے جس کی بنیاد توجیہہ بلامشاہدہ (explainations without demonstrations) پر قائم ہے۔
پھر ایک ایسی چیز جس کا لیبارٹری میں تجربہ نہ کیا جا سکتا ہو، جو صرف’’عقیدہ‘‘ ہو۔ اس کو کس بنا پر علمی حقیقت سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ اے ای مینڈر کے الفاظ میں یہ ہے:
1۔یہ نظریہ تمام معلوم حقیقتوں سے ہم آہنگ(consistent) ہے۔
2۔اس نظریہ میں ان بہت سے واقعات کی توجیہہ مل جاتی ہے جو اس کے بغیر سمجھے نہیں جا سکتے۔
3۔ دوسرا کوئی نظریہ ابھی تک ایسا سامنے نہیں آیا جو واقعات سے اس درجہ مطابقت رکھتا ہو۔
Clearer Thinking, p. 112
یہ استدلال جو نظریہ ارتقا کو حقیقت قرار دینے کے لیے معیار استدلال کے اعتبار سے کافی سمجھا جاتا ہے، یہی استدلال بدرجہا زیادہ شدت کے ساتھ مذہب کے حق میں موجود ہے، ایسی حالت میں جدید ذہن کے پاس کوئی وجہ جواز نہیں ہے کہ وہ کیوں ارتقا کو سائنسی حقیقت قرار دیتا ہے اور مذہب کو سائنسی ذہن کے لیے ناقابل قبول ٹھہراتا ہے۔
مندرجہ بالا چوتھے معیار استدلال کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ جب دعویٰ اور تجربہ میں براہ راست کوئی رابط نہیں ہے بلکہ صرف ہمارا استنباط(inference) دونوں کو مربوط کرتا ہے تو کیسے یقین کر لیا جائے کہ ہمارا استنباط لازماً صحیح ہے۔ میں کہوں گا کہ بلاشبہ ہمارے استنباط میں غلطی ہو سکتی ہے۔ مگر صرف یہ امکان اصل معیار کی معقولیت کو متاثر نہیں کر سکتا۔ اگر محض اس بنا پر اس معیار کی معقولیت پر شبہ کیا جائے تو ٹھیک اسی دلیل کی بنیاد پر دوسرے معیاروں کو بھی مشتبہ قرار دینا پڑے گا جس پر ہماری جدید سائنس کی ساری بنیاد قائم ہے۔
سائنس میں جتنے بھی نظریات تسلیم شدہ ہیں، بلااستثنا ہر ایک کا حال یہ ہے کہ خود اصل نظریات کبھی مشاہدہ یا تجربہ میں نہیں آتے۔ بلکہ بعض خارجی تجربات یا مشاہدات کی بنا پر کچھ نظریات قائم کر لیے گئے ہیں۔ یہاں بھی تجربہ اور نظریہ کو جو چیز باہم مربوط کرتی ہے وہ اصلاً استنباط ہے نہ کہ خود تجربہ اور مشاہدہ۔ سائنس داں کے اس قول کا مطلب کہ (electricity means flow of electron) یہ نہیں ہوتا کہ اس نے بجلی کے کسی تار میں خوردبین سے الیکٹران کو دوڑتے ہوئے دیکھ لیا ہے۔ یہ درحقیقت اس مشہور واقعہ کی ایک توجیہہ ہوتی ہے کہ جب ہم بٹن دباتے ہیں تو کیوں بلب جل جاتا ہے، پنکھا گھومنے لگتا ہے، کار خانے متحرک ہو جاتے ہیں۔ گویا جس چیز کا تجربہ کیا گیا ہے وہ محض ایک خارجی مظہر ہے نہ کہ خود وہ واقعہ جو اس خارجی مظہر سے مستنبط(infer) کیا جا رہا ہے۔ اس لحاظ سے سائنس کے تمام نظریات اسی طرح محض قیاسی مفروضے ہیں جن کا الزام چوتھے معیار کے تحت قائم کردہ نظریات کو دیا جاتا ہے۔
تیسرے اور چوتھے معیار میں جو واحد فرق بتایا جا سکتا ہے، وہ صرف یہ کہ تیسرے معیار میں تجربہ یا مشاہدہ براہ راست طورپر خود اصل دعوی سے متعلق ہوتا ہے۔ جب کہ چوتھے معیار میں وہ براہ راست طورپراصل دعوی سے متعلق نہیں ہوتا۔ مگر اس فرق کی اہمیت اس وقت ختم ہو جاتی ہے، جب ہم اس واقعہ کو سامنے رکھیں کہ تجربہ خواہ کتنا ہی متعلق اور براہ راست ہو مگر بہرحال وہ اصل حقیقت کا صرف ایک خارجی مظہر ہوتا ہے۔ وہ بذات خود اصل حقیقت نہیں ہوتا۔ جیسے ٹیلیفون نمبر بلاشبہ صاحب ٹیلی فون سے متعلق ہے مگر وہ خود صاحب ٹیلی فون نہیں ہے۔ گویا یہاں بھی سائنس داں کے مشاہدہ یا تجربہ کو جو چیز اصل حقیقت سے جوڑتی ہے، وہ صرف ایک ایسی چیز ہے، جو اس کے ذہن میں ہے، یعنی استنباط (inference)، نہ کہ خود مشاہدہ یا تجربہ:
‘‘It is as if here, too, what connects a scientist’s observation and experiment to the reality is a thing, which exists only in his mind that is, the capacity to make inferences, and not his ability to observe, or carry out experiments.’’
اسی لیے ایک سائنس داں نے اس کو ’’ذہنی خاکہ‘‘ قرار دیا ہے۔ وہ کہتا ہے:
‘‘Theories are mental pictures that explain known laws.’’
گویا بٹن دبانے سے بجلی کے بلب کا جلنا اگرچہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بٹن اور بلب میں کوئی خاص رشتہ ہے۔ مگر اس مظاہرے کے باوجود اصل رشتہ بہرحال غیر مرئی ہے، اور پھر بھی یہ ہمارا استنباط ہی ہے جو بٹن اور بلب کوایک دوسرے سے مربوط کرتا ہے۔ اس لیے بلب اور بٹن کی مشہور نوعیت کوتسلیم کرتے ہوئے یہ امر پھر بھی مشتبہ رہے گا کہ دونو ں کومربوط کرنے والا سائنسی نظریہ بذات خود حقیقی ہے یا غیر حقیقی۔ اب جس طرح یہ اشتباہ اور غلطی کا یہ امکان کسی سائنس داں کو نظریات قائم کرنے اور اس کو صحیح سمجھنے سے نہیں روکتا، اسی طرح کسی فلسفی یا کسی مذہبی شخص کو بھی مندرجہ بالا سبب کی بنا پر اسے نہیں روکا جا سکتا کہ وہ نظریات قائم کرے اور ان کے صحیح سمجھے۔