مذہب اور سائنس
مذہب اور سائنس دونوں بہت وسیع الفاظ ہیں، مذہب، زندگی کا ایک تصور اور اس تصور پر بننے والے ایک ہمہ گیر طرز عمل کا نام ہے، جو زندگی کے تمام پہلوئوں کے بارے میں اپنے کچھ مطالبات اور تقاضے رکھتا ہے۔ اور سائنس، اس محسوس دنیا کے مطالعہ کا نام ہے جو ہمارے مشاہدے اور تجربے میں آتی ہے یا آ سکتی ہے۔ اس اعتبار سے دونوں نہایت وسیع موضوعات ہیں اور ان کے دائرے بہت سے پہلوئوں سے ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں۔ مجھے یہاں دونوں کی تفصیلات پر کوئی بحث نہیں کرنی ہے۔ اس مقالے کا موضوع صرف وہ فرضی یا حقیقی تصادم ہے جو سائنس اور مذہب کے درمیان علمی حیثیت سے واقع ہوا اور جس کے کچھ نتائج برآمد ہوئے۔ میں مختصر طور پر صرف اس دعوے سے بحث کرنا چاہتا ہوں جس میں دوہرایا گیا ہے کہ سائنس کی دریافتوں نے مذہب کو بےبنیاد ثابت کر دیا ہے۔
سائنس اور مذہب کا روایتی ٹکرائو خاص طور پر اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی پیداوار ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب کہ جدید سائنس کا ظہور ہوا۔ سائنسی دریافتوں کے سامنے آنے کے بعد بہت سے لوگ یہ سمجھنے لگے کہ اب خدا کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ خدا کو ماننے کی ایک بہت بڑی وجہ، دوسری وجہوں کے ساتھ یہ تھی کہ اس کو مانے بغیر کائنات کی توجیہہ نہیں بنتی۔ مخالفین مذہب نے کہا کہ اب اس مقصد کے لیے ہم کو خدائی مفروضے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ جدید سائنسی تحقیقات کی روشنی میں ہم آسانی کے ساتھ پوری کائنات کی اس طرح تشریح کر سکتے ہیں کہ کسی بھی مرحلے میں خدا کو ماننے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ اس طرح خدا کا خیال ان کی نظر میں بےضرورت چیز بن گیا اور جو خیال بے ضرورت ہو جائے اس کا بے بنیاد ہونا لازمی ہے۔ یہ دعویٰ جب کیا گیا، اس وقت بھی اگرچہ وہ علمی حیثیت سے نہایت کمزور تھا۔ مگر اب تو خود سائنس نے براہ راست یا بالواسطہ طور پر اس بات کا اعتراف کر لیا ہے کہ اس کے پاس اس قسم کا دعویٰ کرنے کے لیے اطمینان بخش دلائل موجود نہیں ہیں۔
سائنس کی وہ کیا دریافت تھی جس میں لوگوں کو نظر آیا کہ اب خدا کی ضرورت ختم ہو گئی ہے۔ وہ خاص طور پر یہ تھا کہ سائنس نے معلوم کیا کہ کائنات کچھ خاص قوانین کی تابع ہے۔ قدیم زمانے کا انسان سادہ طور پر یہ سمجھتا تھا کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا کرنے والا خدا ہے۔ مگر جدید ذرائع اور جدید طرز تحقیق کی روشنی میں دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ ہر واقعہ کے پیچھے ایک ایسا سبب موجود ہے جس کو تجربہ کرکے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً نیوٹن کے مشاہدے میں نظر آیا کہ آسمان کے تمام ستارے اور سیارے کچھ ناقابل تغیر قوانین میں بندھے ہوئے ہیں اور انہیں کے تحت کرتے ہیں۔ ڈارون کی تحقیق نے اسے بتایا کہ انسان کسی خاص تخلیقی حکم کے تحت وجود میں نہیں آیا بلکہ ابتدائی زمانے کے کیڑے مکوڑے عام مادی قوانین کے تحت ترقی کرتے کرتے انسان بن گئے ہیں۔ اسی طرح مطالعہ اور تجربہ کے بعد زمین سے لے کر آسمان تک سارے واقعات ایک معلوم نظام کے تحت ظاہر ہوتے ہوئے نظر آئے جس کو قانون فطرت (law of nature) کا نام دیا گیا۔ قانون فطرت کا یہ عمل اس درجہ موثر تھا کہ اس کے بارے میں پیشگی خبر دی جا سکتی تھی۔
اس دریافت کا مطلب یہ تھا کہ جس کائنات کو ہم سمجھتے تھے کہ وہاں خدا کی کارفرمائی ہے، وہ کچھ مادی اور طبیعیاتی قوانین کی کارفرمائیوں کے تابع تھی۔ جب ان قوانین کو استعمال کیا گیا اور اس کے کچھ نتائج بھی برآمد ہوئے تو انسان کا یقین اور زیادہ بڑھ گیا۔ جرمن فلسفی کانٹ نے کہا ’’مجھے مادہ مہیا کرو اور میں تم کو بتا دوں گا کہ دنیا اس مادے سے کس طرح بنائی جاتی ہے۔‘‘
Give me matter and I shall demonstrate how the world is made out of matter.
ہیکل (Haeckel) نے دعویٰ کیا کہ ’’پانی‘‘ کیمیاوی اجزا اور وقت ملے تو وہ ایک انسان کی تخلیق کر سکتا ہے۔ نٹشے نے اعلان کر دیا کہ ’’اب خدا مر چکا ہے‘‘(God is dead)۔ اس طرح یہ یقین کر لیا گیا کہ اس کائنات کا خالق اور مالک کوئی زندہ اور صاحب ذہن و ارادہ ہستی نہیں ہے۔ بلکہ کائنات از اول تا آخر ایک مادی کائنات ہے۔ کائنات کی ساری حرکتیں اور اس کے تمام مظاہر خواہ وہ ذی روح اشیاء سے متعلق ہوں یا بے روح اشیاء کے بارے میں ہوں، اندھے مادی عمل کے سوا اور کچھ نہیں۔ سائنس نے جس دنیا کو دریافت کیا اس میں کہیں اس خدا کی کارفرمائی نظر نہیں آتی تھی جو تمام مذاہب کی بنیاد ہے۔ پھر خدا کو مانا جائے تو کس لیے مانا جائے۔
اگرچہ اس دریافت کے ابتدائی تمام ہیرو خدا کو ماننے والے لوگ تھے مگر دوسرے لوگوں کے سامنے جب یہ تحقیق آئی تو انہوں نے پایا کہ اس دریافت نے سرے سے خدا کے وجود ہی کو بے معنی ثابت کر دیا ہے۔ کیونکہ واقعات کی توجیہہ کے لیے جب خود مادی دنیا کے اندر اسباب و قوانین مل رہے ہوں تو پھر اس کے لیے مادی دنیا سے باہر ایک خدا کو فرض کرنے کی کیا ضرورت۔ انہوں نے کہا کہ جب تک دوربین نہیں بنی تھی اور ریاضیات نے ترقی نہیں کی تھی۔ اس وقت انسان نہیں جان سکتا تھا کہ سورج کیسے نکلتا ہے اور کیسے ڈوبتا ہے۔ چنانچہ اپنی لاعلمی کی وجہ سے اس نے یہ فرض کر لیا کہ کوئی خدائی طاقت ہے، جو ایسا کرتی ہے۔ مگر اب فلکیات کے مطالعہ سے ثابت ہو گیا ہے کہ جذب و کشش کا ایک عالمی نظام ہے جس کے تحت سورج، چاند اور تمام ستارے اور سیارے حرکت کررہے ہیں۔ اس لیے اب خدا کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسی طرح وہ تمام چیزیں جن کے متعلق پہلے سمجھا جاتا تھا کہ ان کے پیچھے کوئی ان دیکھی طاقت کام کر رہی ہے، وہ سب جدید مطالعہ کے بعد ہماری جانی پہچانی فطری طاقتوں کے عمل اور ردعمل کا نتیجہ نظر آیا۔ گویا ایک خدا یا مافوق الفطری طاقت کا وجودبے بنیاد طور پر فرض کر لیا گیا تھا۔ ’’اگر قوس و قزح گرتی ہوئی بارش پر سورج کی شعاعوں کے انعطاف (Refraction) سے پیدا ہوتی ہے تو یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ وہ آسمان کے اوپر خدا کا نشان ہے‘‘۔ ہکسلے اس قسم کے واقعات پیش کرتا ہوا کس قدر یقین کے ساتھ کہتا ہے:
‘‘If events are due to natural causes, they are not due to supernatural causes.’’ (Man in the Modern World, pp. 18-19)
یعنی واقعات اگر فطری اسباب کے تحت صادر ہوتے ہیں تو وہ مافوق الفطری اسباب کے پیدا کیے ہوئے نہیں ہو سکتے۔ اور ظاہر ہے کہ جب واقعات کے پیچھے مافوق الفطری اسباب موجود نہ ہوں تو کسی مافوق الفطرت ہستی کے وجود پر کیسے یقین کیا جا سکتا ہے۔
مخالفین مذہب کے اس استدلال میں کیا کمزوری ہے، اس کو ایک مثال سے سمجھئے۔ ایک شخص ریلوے انجن کو دیکھتا ہے کہ اس کے پہیے گھوم رہے ہیں اور وہ پٹری پر بھاگا چلا جا رہا ہے۔ اس کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہئے کیسے گھوم رہے ہیں۔
تحقیق کرنے کے بعد اس کی رسائی انجن کے پرزوں تک ہوتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ پرزوں کی حرکت سے پہئے گھوم رہے ہیں۔ کیا اس دریافت کے بعد وہ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوگا کہ انجن اپنے پرزوں کے ساتھ بذات خود ٹرین کی حرکت کا سبب ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ انجن سے پہلے انجینئر اور ڈرائیور کو ماننا ضروری ہے۔ انجینئر اور ڈرائیور کے بغیر انجن کا نہ تو کوئی وجود ہے اور نہ اس میں کسی قسم کی حرکت کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ گویا انجن یا اس کا پرزہ آخری حقیقت نہیں۔ آخری حقیقت وہ ذہن ہے جو انجن کو وجود میں لایا ہے اور اپنے ارادہ سے اس کو چلا رہا ہے۔ ایک عیسائی عالم نے بہت صحیح کہا کہ فطرت کائنات کی توجیہ نہیں کرتی۔ وہ خود اپنے لیے ایک توجیہ کی طالب ہے:
‘‘Nature does not explain, she is herself in need of an explanation.’’
کیونکہ، اس کے الفاظ میں، فطرت کا قانون تو کائنات کا ایک واقعہ ہے، اس کو کائنات کی توجیہ کہا جا سکتا ہے:
Nature is a fact, not an explanation.
مرغی کا بچہ انڈے کے مضبوط خول کے اندر پرورش پاتا ہے اور اس کے ٹوٹنے سے باہر آجاتا ہے۔ یہ واقعہ کیونکر ہوتا ہے کہ خول ٹوٹے اور بچہ جو گوشت کے لوتھڑے سے زیادہ نہیں ہوتا، وہ باہر نکل آئے۔ پہلے کا انسان اس کا جواب یہ دیتا تھا کہ ’’خدا ایسا کرتا ہے‘‘۔ مگر اب خوردبینی مشاہدہ کے بعد معلوم ہوا کہ جب 21 روز کی مدت پوری ہونے والی ہوتی ہے، اس وقت انڈے کے اندر ننھے بچے کی چونچ پر ایک چھوٹی سی سخت سینگ ظاہر ہوتی ہے۔ اس کی مدد سے وہ اپنے خول کو توڑ کر باہر آ جاتا ہے۔ سینگ اپنا کام پورا کرکے بچے کی پیدائش کے چند روز بعد خودبخود جھڑ جاتی ہے۔
مخالفین مذہب کے نظریے کے مطابق یہ مشاہدہ اس پرانے خیال کو غلط ثابت کر دیتا ہے کہ بچہ کو باہر نکالنے والا خدا ہے۔ کیونکہ خوردبین کی آنکھ ہم کو صاف طور پر دکھا رہی ہے کہ ایک 21 روزہ قانون ہے جس کے تحت وہ صورتیں پیدا ہوتی ہیں جو بچہ کو خول کے باہر لاتی ہیں۔ مگر یہ مغالطہ کے سوا اور کچھ نہیں۔
جدید مشاہدہ نے جو کچھ ہمیں بتایا ہے وہ صرف واقعہ کی چند مزید کڑیاں ہیں، اس نے واقعہ کا اصلی اور آخری سبب نہیں بتایا۔ اس مشاہدہ کے بعد صورت حال میں جو فرق ہوا ہے وہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ پہلے جو سوال خول ٹوٹنے کے بارے میں تھا، وہ ’’سینگ‘‘ کے اوپر جا کر ٹھہر گیا۔ بچہ کا اپنی سینگ سے خول کو توڑنا واقعہ کی صرف ایک درمیانی کڑی ہے۔ اس لحاظ سے وہ اصل واقعہ ہی کا ایک جزو ہے، وہ واقعہ کی تشریح نہیں ہے۔ واقعہ کی تشریح تو اس وقت معلوم ہوگی جب ہم جان لیں کہ وہ آخری اسباب کیا ہیں جن کے نتیجے میں بچہ کی چونچ پر سینگ نمودار ہوئی۔ اس آخری سبب کو جاننے سے پہلے سینگ کا ظہور خود ایک سوال ہے، نہ کہ اسے اصل سوال کا جواب قرار دیا جائے۔ کیونکہ پہلے اگر یہ سوال تھا کہ ’’خول کیسے ٹوٹتا ہے‘‘ تو اب یہ سوال ہو گیا کہ ’’سینگ کیسے بنی ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ دونوں حالتوں میں کوئی نوعی فرق نہیں۔ اس کو زیادہ سے زیادہ فطرت کا وسیع تر مشاہدہ کہہ سکتے ہیں۔ فطرت کی توجیہ کا نام نہیں دے سکتے۔
مخالفین مذہب جس انکشاف کو فطرت کی توجیہ کا نام دے کر اس کو خدا کا بدل ٹھہرا رہے ہیں، اس کو ہم نہایت آسانی سے فطرت کا طریق کار کہہ سکتے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا ان قوانین کے ذریعہ کائنات میں اپنا عمل کرتا ہے جس کے بعض اجزاء کو سائنس نے دریافت کیا ہے، فرض کیجئے مذہبی لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ سمندروں میں جوار بھاٹا لانے والا خدا ہے۔ اب جدید دور کا ایک سائنس داں ہم کو بتاتا ہے کہ جوار بھاٹا درحقیقت چاند کی کشش (gravity-pull of moon) اور دنیا کے سمندروں اور خشکی کے ٹکڑوں کی جغرافیائی وضع و ہئیت (Geographical Configuration) کے سبب سے ہوتا ہے۔ سائنس داں کے اس مشاہدے کو ہمیں رد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بہت خوشی کے ساتھ ہم اسے قبول کر سکتے ہیں۔ مگر اس سے ہمارے عقیدے کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ صحیح ہے کہ طوفان قوت کشش اور زمین کی جغرافی بناوٹ کے ذریعہ عمل کرتا ہے۔ مگر قوت کشش اور جغرافی بناوٹ کیا ہیں۔ وہ بھی خدا ہی کی مخلوق ہیں۔ وہ خدا ہی ہے جو ان ذرائع سے اپنا فعل انجام دیتا ہے۔ خدا آج بھی طوفان کا حقیقی سبب ہے۔ جان ولسن کے الفاظ میں:
‘‘This does'nt destroy belief: it is still God working through these things, who is responsible for the tides.’’ (John Wilson, Philosophy and Religion, London, 1816, p. 37)
اسی طرح حیاتیات کے میدان میں نظریہ ارتقا کے حوالے سے یہ بات بار بار دہرائی گئی ہے کہ حیاتیاتی عمل اب کسی ماورائے فطرت ذریعہ کی موجودگی کا تقاضا نہیں کرتا۔ دوسرے لفظوں میں زندگی کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے کسی باشعور خدا کو ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ جدید مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ زندگی صرف چند مادی طاقتوں سے خودبخود ہونے والا ایک نتیجہ ہے جو خاص طور پر تین ہیں:
reproduction, variation, and differential survival.
یعنی توالد و تناسل کے ذریعہ مزید زندگیوں کا پیدا ہونا، پیدا شدہ نسل کے بعض افراد میں کچھ فرقوں کا ظہور اور پھر ان فروق کا پشتہا پشت میں ترقی کرکے مکمل ہو جانا۔ اس طرح مخالفین مذہب کے نقطہ نظر کے مطابق ڈارون کے انتخاب طبیعی کے اصول کا حیاتیاتی مظاہر پر انطباق اس کو ممکن اور ضروری بنا دیتا ہے کہ زندگی کی نشو و نما پر خدا کی کارفرمائی کے تصور کو بالکل ترک کر دیا جائے۔
اگرچہ ابھی تک بذات خود یہ بات غیر ثابت شدہ ہے کہ انواع حیات فی الواقع اسی طرح وجود میں آئی ہیں جیسا کہ ارتقا پسند علماء بتاتے ہیں۔ تاہم اگر اس کو بلا بحث مان لیا جائے جب بھی اس سے مذہبی عقیدے کے تزلزل کا سوال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ انواع حیات اگر بالفرض ارتقائی عمل کے تحت وجود میں آئی ہوں جب بھی یکساں درجہ کی قوت کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ خدائی تخلیق کا طریقہ ہے، نہ کہ اندھے مادی عمل کا خودبخود نتیجہ۔ حقیقت یہ ہے کہ مشینی ارتقا (mechanical evolution) کو نہایت آسانی کے ساتھ تخلیقی ارتقا (creational evolution) ثابت کیا جا سکتا ہے۔ اور سائنس کے حوالے سے مذہب کی مخالفت کرنے والوں کے پاس اس کی تردید کی کوئی واقعی بنیاد نہیں ہوگی۔
مگر بات صرف اتنی ہی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سائنس نے بیسویں صدی میں پہنچ کر اپنے سابقہ یقین کو کھو دیا ہے۔ آج جب کہ نیوٹن کی جگہ آئن سٹائن نے لے لی ہے اور پلانک اور ہیزن برگ نے لاپلاس کے نظریات کو منسوخ کر دیا ہے، اب مخالفین مذہب کے لیے، کم از کم علمی بنیاد پر، اس قسم کا دعویٰ کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ نظریہ اضافیت (relativity) اور کوانٹم تھیوری نے خود سائنس دانوں کو اس نتیجہ تک پہنچایا ہے کہ وہ اس بات کا اعتراف کر لیں کہ یہ ناممکن ہے کہ سائنس میں مشاہد (Observer) کو مشاہدہ (observed) سے الگ کیا جا سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی چیز کے صرف چند خارجی مظاہر کو دیکھ سکتے ہیں، اس کی اصل حقیقت کا مشاہدہ نہیں کر سکتے۔ بیسویں صدی میں سائنس کے اندر جو انقلاب ہوا ہے اس نے خود سائنسی نقطہ نظر سے مذہب کی اہمیت ثابت کر دی ہے۔
سائنس میں جو چیز جدید انقلاب کہی جاتی ہے، وہ اس واقعہ پر مشتمل ہے کہ نیوٹن کا نظریہ جو دو سو سال تک سائنس کی دنیا پر حکمراں رہا، وہ جدید مطالعہ کے بعد ناقص پایا گیا ہے۔ اگرچہ سابقہ فکر کی جگہ ابھی تک کوئی مکمل نظریہ نہیں آ سکا ہے مگر یہ واضح ہے کہ نئے رجحان کے فلسفیانہ تقاضے اس سے بالکل مختلف ہیں جو پچھلے نظریے کے تھے۔ اب یہ دعویٰ نہیں رہا کہ سائنٹفک طریق مطالعہ ہی حقیقت کو معلوم کرنے کا واحد صحیح طریقہ ہے۔ ممتازسائنس داں حیرت انگیز طور پر اصرار کر رہے ہیں کہ سائنس ہم کو صداقت کا صرف جزئی علم دیتی ہے:
Science gives us but a partial knowledge of reality.
سائنسی رجحان میں یہ تبدیلی اچانک پیدا ہوئی ہے۔ صرف سو برس گزرے جب ٹنڈل (Tyndall) نے اپنے خطبہ بلفاسٹ (Belfast address) میں اعلان کیا تھا کہ سائنس تنہا انسان کے تمام اہم معاملات سے بحث (deal) کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس قسم کے خیالات اس مفروضہ یقین کی بنیاد پر قائم کیے گئے تھے کہ حقیقت تمام کی تمام صرف مادہ اور حرکت (matter and motion) پر مشتمل ہے۔
مگر فطرت کو مادہ اور حرکت کی اصطلاحوں میں بیان کرنے کی ساری کوشش ناکام ثابت ہوئی اٹھارہویں صدی کے آخر میں یہ کوشش اپنے عروج پر تھی جب لاپلاس (Laplace) نے یہ کہنے کی جرأت کی کہ ایک عظیم ریاضی داں جو ابتدائی سحابیہ (nebula) میں ذات کے انتشار کو جانتا ہو وہ دنیا کے مستقبل کی پوری تاریخ کو پیشگی بتا سکتا ہے۔ اس وقت یہ یقین کر لیا گیا تھا کہ نیوٹن کا نظریہ سارے علوم کی کنجی ہے۔
نیوٹن کے نظریے کی غلطی پہلی بار اس وقت ظاہر ہوئی جب سائنس دانوں نے روشنی کی مادی تشریح کرنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش انہیں ایتھر (ether) کے عقیدے تک لے گئی، جو بالکل مجہول اور ناقابل بیان عنصر (element)تھا۔ کچھ نسلوں تک یہ عجیب و غریب عقیدہ چلتا رہا۔ روشنی کی مادی تعبیر کے حق میں ریاضیات کے خوب خوب معجزے دکھائے گئے۔ لیکن میکسویل (Maxwell) کے تجربات کی اشاعت کے بعد یہ مشکل ناقابل عبور نظر آنے لگی۔ کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ روشنی ایک برقی مقناطیسی مظہر (electromagnetic phenomenon) ہے۔ یہ خلا بڑھتا رہا یہاں تک کہ وہ دن آیا جب سائنس دانوں پر واضح ہوا کہ نیوٹن کے نظریات میں کوئی چیز ’’مقدس‘‘ نہیں ہے۔ بہت دنوں کے تذبذب اور بجلی کو مادی (mechanical) ثابت کرنے کی آخری کوششوں کے بعد بالآخر بجلی کو ناقابل تحویل عناصر (irreducible elements) کی فہرست میں شامل کر دیا گیا۔
یہ بظاہر ایک سادہ سی بات ہے۔ مگر درحقیقت یہ بہت معنی خیز فیصلہ ہے۔ نیوٹن کے تصور میں ہم کو سب کچھ اچھی طرح معلوم تھا۔ اس کے مطابق ایک جسم کی کمیت اس کی مقدار مادہ تھی، طاقت کا مسئلہ حرکت سے سمجھ میں آ جاتا تھا، وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح یقین کر لیا گیا تھا کہ ہم اس فطرت کو جانتے ہیں جس کے متعلق ہم کلام کر رہے ہیں۔ مگر بجلی کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ اس کی فطرت (Nature) ایسی ہے جس کے متعلق ہم کچھ نہیں جان سکتے۔ اس کو معلوم اصطلاحوں میں تعبیر کرنے کی ساری کوششیں ناکام ہو گئیں۔ وہ سب کچھ جو ہم بجلی کے متعلق جانتے ہیں وہ صرف وہ طریقہ ہے جس سے وہ ہمارے پیمائشی آلات کو متاثر کرتی ہے۔ اب ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بات کس قدر اہم ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسے وجود (entity) کو طبیعیات میں تسلیم کر لیا گیا جس کے متعلق ہم اس کے ریاضیاتی ڈھانچے کے سوا اور کچھ نہیں جانتے۔
اس کے بعد اس نہج پر اس قسم کے کچھ اور تجربے کیے گئے اور یہ مان لیا گیا کہ یہ لامعلوم ہستیاں بھی سائنسی نظریات کے بنانے میں وہی حصہ ادا کرتی ہیں جو قدیم معلوم مادہ ادا کرتا تھا۔ یہ حقیقت قرار پا گئی کہ جہاں تک علم طبیعیات کا تعلق ہے، ہم کسی چیز کے اصلی وجود کو نہیں جان سکتے۔ بلکہ صرف اس کے ریاضیاتی ڈھانچے (mathematical structure) کو جاننے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اب اعلیٰ ترین سطح پر یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ ہمارا یہ خیال کہ ہم اشیاء کو ان کی آخری صورت میں دیکھ سکتے ہیں محض فریب تھا۔ پروفیسر اڈنگٹن (Eddington) کے نزدیک ریاضیاتی ڈھانچہ کا علم ہی وہ واحد علم ہے جو طبیعیاتی سائنس ہمیں دے سکتی ہے۔
’’جمالیاتی، اخلاقی اور روحانی پہلوئوں سے قطع نظر، کمیت مادہ، جوہر، وسعت اور مدت وغیرہ جو خالص طبیعیات کے دائرے کی چیزیں سمجھی جاتی ہیں، ان کی کیفیت کو جاننا بھی ہمارے لیے ویسا ہی مشکل ہو گیا ہے جیسے غیر مادی چیزوں کی حقیقت کو جاننا۔ موجودہ طبیعیات اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ ان چیزوں سے براہ راست واقف ہو سکے۔ ان کی حقیقت ادراک سے باہر ہے۔ ہم ذہنی خاکوں کی مدد سے اندازہ کرتے ہیں مگر ذہن کا کوئی عکس ایک ایسی چیز کی بعینہ نقل نہیں ہو سکتا جو خود ذہن کے اندر موجود نہ ہو۔ اس طرح اپنے حقیقی طریق مطالعہ کے اعتبار سے طبیعیات ان خارج از ادراک خصوصیتوں کا مطالعہ نہیں کرتیں بلکہ وہ صرف مطالعہ بر آلہ (pointer reading) ہے جو ہمارے علم میں آتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ یہ مطالعہ عمل کائنات کی بعض خصوصیات کو منعکس کرتا ہے، مگر ہماری اصل معلومات آلاتی مطالعہ سے متعلق ہیں نہ کہ وہ خصوصیات کے بارے میں ہیں۔ آلاتی مطالعہ کو اشیاء کی حقیقی خصوصیات سے وہی نسبت ہے جو ٹیلی فون نمبر کو اس شخص سے جس کا وہ فون نمبر ہے۔‘‘
یہ واقعہ کہ سائنس صرف ڈھانچہ کی معلومات تک محدود ہے، بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت ابھی پورے طور پر معلوم شدہ نہیں ہے۔
اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہمارے احساسات یا خدا سے اتصال کا عارفانہ تجربہ اپنا کوئی خارجی جواب (objective counterpart) نہیں رکھتا۔ یہ قطعی ممکن ہے کہ ایسا کوئی جواب خارج میں موجود ہو۔ ہمارے مذہبی اور جمالیاتی احساسات اب محض مظاہر فریب (illusory phenomenon) نہیں کہے جا سکتے جیسا کہ سمجھا جاتا تھا۔ نئی سائنسی دنیا میں مذہبی عارف بھی ایک حقیقت کے طور پر رہ سکتا ہے۔
The Limitations of Sciencem, pp. 138-42
سائنٹفک فلاسفہ نے اس قسم کی تشریحات شروع کر دی ہیں۔ مارٹن وائٹ (Morton White) کے الفاظ میں بیسویں صدی میں فلسفیانہ ذہن رکھنے والے سائنس دانوں نے ایک نئی جنگ (Crusade) کا آغاز کر دیا ہے۔ جس میں وہائٹ ہیڈ،ایڈنگٹن اور جینز کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں ’’ان علما کا فکر صریح طور پر کائنات کی مادی تعبیر کی نفی کرتا ہے۔ مگر ان کی اصل خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے خود جدید طبیعیات اور ریاضیات کے نتائج کے حوالے سے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے بارے میں وہی الفاظ صحیح ہیں جو مارٹن وائٹ نے وائٹ ہیڈ کے متعلق لکھے ہیں:
‘‘He is a heroic thinker who tries to beard the lions of intellectualism, materialism and positivism in their own bristling den.’’ (p. 84)
‘‘The Domain of Physical Science, essay in Science, Religion and Reality’’ (The Age of Analysis, p. 84)
یعنی وہ ایک بلند ہمت مفکر ہے جس نے مادہ پرستی کے شیروں کو عین ان کے بھٹ میں للکارا ہے۔ انگریز ماہر ریاضیات اور فلسفی الفرڈ نارتھ وائٹ ہیڈ (1861-1947) کے نزدیک جدید معلومات یہ ثابت کرتی ہیں کہ فطرت بے روح مادہ نہیں، بلکہ زندہ فطرت ہے:
Nature is alive, p. 84
انگریز ماہر فلکیات سر آرتھر ایڈنگٹن (1882-1944) نے موجودہ سائنس کے مطالعہ سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ کائنات کا مادہ ایک شے ذہنی ہے:
‘‘The stuff of the world is mind-stuff.’’ (p. 146)
ریاضیاتی طبیعیات کا انگریز عالم سر جیمز جنیز (1877-1946) جدید تحقیقات کی تعبیر ان الفاظ میں کرتا ہے کہ کائنات، مادی کائنات نہیں بلکہ تصوراتی کائنات ہے:
‘‘The universe is universe of thought.’’ (p. 134)
یہ انتہائی مستند سائنس دانوں کے خیالات ہیں جن کا خلاصہ جے ڈبلیو این سولیون کے الفاظ میں یہ ہے کہ کائنات کی آخری ماہیت ذہن ہے:
‘‘The ultimate nature of the universe is mental.’’ (p. 145)
آخری حقیقت ذہن ہے یا مادہ۔ یہ فلسفیانہ الفاظ میں دراصل یہ سوال ہے کہ کائنات محض مادہ کے ذاتی عمل کے طور پر خود بخود بن گئی ہے یا کوئی غیر مادی ہستی ہے جس نے بالا رادہ اسے تخلیق کیا ہے جیسے کسی مشین کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ اپنے آخری تجربے میں محض لوہے اور پٹرول کا ایک اتفاقی مرکب ہے، گویا یہ کہنا ہے کہ مشین سے پہلے صرف لوہا اور پٹرول تھا اور اس نے خود ہی کسی اندھے عمل کے ذریعہ محض اتفاق سے مشین کی صورت اختیار کر لی ہے۔ اس کے برعکس اگر یہ کہا جائے کہ مشین اپنے آخری تجزیے میں انجینئر کا ذہن ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مشین سے پہلے ایک ذہن تھا جس نے مادہ سے الگ اس کے ڈیزائن کو سوچا اور بالا رادہ اسے تیار کیا۔
’’ذہن‘‘ کے تعین میں اختلاف سے ذہن کو آخری حقیقت ماننے والوں میں مختلف گروہ ہو سکتے ہیں ۔ جیسے خدا کو ماننے والے خدا کو ماننے کے باوجود مختلف ٹولیوں کی شکل میں پائے جاتے ہیں۔
مگر علمی مطالعہ کا یہ نتیجہ کہ کائنات کی آخری حقیقت ذہن ہے، یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے مذہب کی تصدیق ہے اور الحاد کی تردید۔
یہ ایک عظیم تبدیلی ہے جو موجودہ صدی میں سائنس کے اندر ہوئی ہے۔ اس تبدیلی کا اہم ترین پہلو جے ڈبلیو۔ این سولیون کے الفاظ میں، یہ نہیں ہے کہ تمدنی ترقی کے لیے زیادہ طاقت حاصل ہو گئی ہے۔ بلکہ یہ تبدیلی وہ ہے جو اس کی مابعد الطبیعیاتی بنیادوں (Metaphysical Foundations) میں واقع ہوئی ہے۔
The Limitations of Science, p. 138-50
برطانیہ کے مشہور ماہر فلکیات اور ریاضی داں سرجیمز جنیز (Sir James Jeans) کی کتاب ’’پراسرار کائنات‘‘ غالباً اس پہلو سے موجودہ زمانہ کا سب سے زیادہ قیمتی مواد ہے۔ اس کتاب میں موصوف خالص سائنسی بحث کے ذریعہ اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں:
’’جدید طبیعیات کی روشنی میں کائنات مادی تشریح (material representation) کو قبول نہیں کرتی۔ اور اس کی وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ اب وہ محض ایک ذہنی تصور (mental concept) ہو کر رہ گئی ہے۔‘‘
The Mysterious Universe, 1948. p. 123
جینز کے الفاظ میں:
‘‘If the universe is a universe of thought, then its creation must have been an act of thought.’’ (p. 133-34)
یعنی کائنات ایک تصوراتی کائنات ہے تو اس کی تخلیق بھی ایک تصوراتی عمل سے ہونی چاہیے۔ وہ کہتا ہے کہ مادہ کو امواج برق سے تعبیر کرنے کا جدید نظریہ انسانی تخیل کے لیے بالکل ناقابل ادراک ہے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ لہریں محض امکان کی لہریں (waves of probabilities) ہوں جن کا کوئی وجود نہ ہو۔ یہ اور اس طرح کے دوسرے وجوہ سے سر جیمز جینز اس نتیجہ تک پہنچا ہے کہ کائنات کی حقیقت مادہ نہیں، بلکہ تصور ہے۔ یہ تصور کہاں واقع ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ایک عظیم ریاضیاتی مفکر (mathematical thinker) کے ذہن میں ہے۔ کیونکہ ان کا ڈھانچہ، جو ہمارے علم میں آتا ہے، وہ مکمل طور پر ریاضیاتی ڈھانچہ ہے۔ یہاں میں ایک اقتباس نقل کروں گا:
’’یہ کہنا صحیح ہوگا کہ علم کا دریا پچھلے چند سالوں میں ایک نئے رخ پر مڑا ہے۔ تیس سال پہلے ہم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم ایک ایسی حقیقت کے سامنے ہیں جو اپنی نوعیت میں مشینی (mechanical) قسم کی ہے۔ ایسا نظر آتا تھا کہ کائنات ایٹموں کے ایک ایسے بے ترتیب ڈھیر پر مشتمل ہے جو اتفاقی طور پر اکٹھا ہو گئے ہیں اور جن کا کام یہ ہے کہ بے مقصد اور اندھی طاقتوں کے عمل کے تحت جو کوئی شعور نہیں رکھتیں کچھ زمانے کے لیے ایک بے معنیٰ رقص کریں جس کے ختم ہونے پر محض ایک مردہ کائنات باقی رہ جائے۔ اس خالص میکانکی دنیا میں، مذکورہ بالا اندھی طاقتوں کے عمل کے دوران میں، زندگی محض اتفاق سے وجود میں آ گئی۔ کائنات کا ایک بہت ہی چھوٹا گوشہ، یا امکان کے طور پر اس طرح کے کئی گوشے، کچھ عرصے کے لیے اتفاقی طور پر ذی شعور ہو گئے ہیں، اور یہ بھی ایک بے روح دنیا کو چھوڑ کر بالآخر ایک روز ختم ہو جائیں گے۔ آج ایسے قوی دلائل موجود ہیں جو طبیعی سائنس کو یہ ماننے پر مجبور کرتے ہیں کہ علم کا دریا ایک غیر مشینی حقیقت (non-mechanical reality) کی طرف چلا جا رہا ہے۔ کائنات ایک بہت بڑی مشین کے بجائے ایک بہت بڑے خیال (great thought) سے زیادہ مشابہ معلوم ہوتی ہے۔ ذہن (mind) اتفاقاً محض اجنبی کی حیثیت سے اس مادی دنیا میں وارد نہیں ہو گیا ہے، اب ہم ایک ایسے مقام پر پہنچ رہے ہیں کہ ذہن کا عالم مادی کے خالق اور حکمراں کی حیثیت سے استقبال کریں۔
یہ ذہن بلاشبہ ہمارے شخصی ذہن کی طرح نہیں ہے۔ بلکہ ایک ایسا ذہن ہے جس نے مادی ایٹم سے انسانی دماغ کی تخلیق کی۔ اور یہ سب کچھ ایک اسکیم کی شکل میں پہلے سے اس کے ذہن میں موجود تھا۔ جدید علم ہم کو مجبور کرتا ہے کہ ہم دنیا کے بارے میں اپنے ان خیالات پر نظرثانی کریں جو ہم نے جلدی میں قائم کر لیے تھے۔ ہم نے دریافت کر لیا ہے کہ کائنات ایک منصوبہ ساز یا حکمراں (designing or controlling power) کی شہادت دے رہی ہے جو ہمارے شخصی ذہن سے بہت کچھ مشابہ ہے۔ جذبات و احساسات کے اعتبار سے نہیں بلکہ اس طرز پر سوچنے کے اعتبار سے جس کو ہم ریاضیاتی ذہن (mathematical mind) کے الفاظ میں ادا کر سکتے ہیں۔‘‘
The Mysterious Universe, pp. 136-38.
سائنس کے اندر علمی حیثیت سے اس تبدیلی کے باوجود، یہ واقعہ ہے کہ عملی طور پر انکار خدا کے ذہن میں کوئی نمایاں فرق پیدا نہیں ہوا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس انکار خدا کے وکیل نئے نئے ڈھنگ سے اپنے دلائل کو ترتیب دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ کوئی علمی دریافت نہیں بلکہ محض تعصب ہے۔ تاریخ بے شمار مثالوں سے بھری ہوئی ہے کہ حقیقت کے ظاہر ہو جانے کے باوجود انسان نے محض اس لیے اس کو قبول نہیں کیا کہ تعصب اس کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ یہی تعصب تھا جب چار سو برس پہلے اٹلی کے علماء نے ارسطو کے مقابلے میں گلیلیو کے نظریے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ حالانکہ لیننگ ٹاور سے گرنے والے گولے اس کے نظریے کو آنکھوں دیکھی حقیقت بنا چکے تھے۔ پھر یہی تعصب تھا کہ جب انیسویں صدی کے آخر میں برلن کے پروفیسر ماکس پلانک (Max Plank) نے روشنی کے متعلق بعض ایسی تشریحات پیش کیں جو کائنات کے نیوٹنی تصور کو غلط ثابت کر رہی تھیں تو وقت کے ماہرین نے اس کو تسلیم نہیں کیا اور عرصہ تک اس کا مذاق اڑاتے رہے۔
حالانکہ آج وہ کوانٹم تھیوری کی صورت میں علم طبیعیات کے اہم اصولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
اگر کسی کا یہ خیال ہو کہ تعصب دوسرے لوگوں میں تو ہو سکتا ہے، مگر سائنس دانوں میں نہیں ہوتا، تو اس کو میں ایک سائنس داں کا قول یاد دلائوں گا۔ ڈاکٹر ہلز (A. V. Hills) نے کہا ہے:
‘‘I should be the last to claim that we, scientific men, are less liable to prejudice than other educated men.’’ (Quoted by A. N. Gilkes, Faith for Modern Man, p. 109)
یعنی میں آخری شخص ہوں گا جو اس بات کا دعویٰ کرے کہ ہم سائنس داں دوسرے تعلیم یافتہ لوگوں کے مقابلہ میں کم تعصب رکھنے والے ہوتے ہیں۔
اب ایک ایسی دنیا میں جہاں تعصب کی کارفرمائی ہو، یہ امید کیسے کی جا سکتی ہے کہ کوئی تصور محض اس لیے قبول کر لیا جائے گا کہ وہ علمی طور پر ثابت ہو گیا ہے۔ تاریخ کا طویل تجربہ ہے کہ انسان کے رہنما اس کے جذبات رہے ہیں، نہ کہ اس کی عقل۔ اگرچہ علمی اور منطقی طور پر عقل ہی کو بلند مقام حاصل ہے مگر زیادہ تر ایسا ہی ہوا ہے کہ عقل خود جذبات کی آلہ کار رہی ہے۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ وہ جذبات کو اپنے قابو میں کر سکی ہو۔ عقل نے ہمیشہ جذبات کے حق میں دلائل تراشے ہیں اور اس طرح اپنے جذباتی رویہ کو عقلی رویہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ خواہ حقیقت واقعہ انسان کا ساتھ نہ دے مگر جذبات سے لپٹا رہنا وہ اپنے لیے ضروری سمجھتا ہے۔ ہم کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا معاملہ کسی مشین سے نہیں ہے جو بٹن دبانے کے بعد لازماً اس کے مطابق اپنا ردعمل ظاہر کرتی ہے، بلکہ ہمارا مخاطب انسان ہے۔ اور انسان اسی وقت کسی بات کو مانتا ہے جب کہ وہ خود بھی ماننا چاہے۔ اگر وہ خود ماننا نہ چاہتا ہو تو کوئی دلیل محض دلیل ہونے کی حیثیت سے اسے قائل نہیں کر سکتی۔ دلیل کو برقی بٹن (Electric Switch) کا قائم مقام نہیں بنایا جا سکتا۔ اور بلاشبہ انسانی تاریخ کی یہ سب سے بڑی ٹریجڈی ہے۔