تبصرہ
اوپر کی سطروں میں مذہب کی جو جدید تشریح نقل کی گئی ہے اس کے بارے میں، میں الکسس کیرل کے وہ الفاظ دہرائوں گا، جو اس نے خود اپنے بارے میں لکھے ہیں:
’’مصنف کو تسلیم ہے کہ مذہب سے متعلق ذہنی اعمال کی تشریح جو اس نے کی ہے وہ نہ سائنس دانوں کو پسند آئے گی اور نہ مذہبی لوگوں کو۔ سائنس دان اس قسم کی کوشش کو طفلانہ یا بے معنی کوشش سمجھیں گے اور مذہبی علماء اس کو غلط اور فضول قرار دیں گے۔‘‘ (ایضاً صفحہ 132)
مذہب کی مندرجہ بالا تشریح میں اگرچہ مذہب کے الفاظ موجود ہیں مگر حقیقاً اس میں اور خالص الحاد میں کوئی فرق نہیں ہے۔
1۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس تشریح کے مطابق مذہب ایک غیر حقیقی چیز قرار پاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا اور آخرت اور الہام فی الواقع اپنا کوئی وجود نہیں رکھتے، بلکہ وہ ہماری قوت تخیل کے کرشمے ہیں۔ مگر مذہب نے جس شدت کے ساتھ ذہنوں میں جگہ بنائی ہے اس کے لحاظ سے یہ بات بالکل ناقابل قیاس ہے کہ وہ محض ایک تخیلاتی چیز ہو۔ دور حاضر کا مشہور مورخ ٹائن بی لکھتا ہے:
’’اگر ہم مذاہب کے ایک سروے پر نکلیں جو مختلف مقامات پر مختلف زبانوں میں بے شمار انسانی سماج اور گروہوں میں رائج رہے ہیں، جن کے متعلق ہم کچھ معلومات رکھتے ہیں تو ہمارا پہلا تاثر یہ ہوگا کہ مذہب کی شکلوں میں حیران کن حد تک تعدد پایا جاتا ہے۔ تاہم غور و فکر اور تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ دراصل تین بنیادی اقسام کی مختلف صورتیں ہیں۔ یعنی فطرت، انسان خود اور حقیقت مطلق (Absolute Reality)جو کہ نہ فطرت ہے، نہ خود انسان ہے بلکہ وہ ان کے اندر ہوتے ہوئے ان سے باہر ہے۔‘‘
An Historian's Approach to Religion, p. 16
گویا تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم ترین زمانے سے لے کر اب تک انسان ایک حقیقت اعلیٰ کی تلاش میں سرگرداں رہا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک بالکل فرضی چیز اس طرح انسانی تاریخ پر چھا جائے۔ کیا دوسری کسی ایسی چیز کی نشاندہی کی جا سکتی ہے جو غیر حقیقی ہونے کے باوجود اس طرح انسان کی نفسیات پر اثر انداز ہوتی ہو۔
2۔ اس تشریح میں فطری طور پر مذہب کسی ایک چیز کا نام نہیں رہتا بلکہ وہ ہزار چیز بن جاتا ہے۔ کیوں کہ جب مذہب آدمی کا اپنا ذہنی عمل ہے تو وہ ہر شخص کی اپنی استعداد، اپنے مزاج اور اپنی یافت کے لحاظ سے الگ الگ ہوگا۔ حالانکہ مذہب کا حکم الٰہی ہونا یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ ایک متعین شکل میں ہوتا کہ اس کی بنیاد پر ہر شخص کے رویے کے صحیح اور غلط ہونے کا تعین کیا جا سکے۔ اس طرح تصور مذہب کے فرق کی وجہ سے حقیقت مذہب میں بنیادی فرق ہو جاتا ہے۔ یہاں میں ٹائن بی کا ایک اقتباس نقل کروں گا:
’’مختلف لوگوں کے عقائد بہرحال مختلف ہوں گے کیوں کہ حقیقت مطلق (Absolute Reality)ایک راز ہے جس کی صرف ایک جزوی جھلک انسانی ذہن نے دیکھی ہے۔ اتنی بڑی حقیقت صرف ایک راستہ پر چل کر معلوم نہیں ہو سکتی۔ میرا عقیدہ کتنا ہی مضبوط اور پختہ کیوں نہ ہو کہ میرا ادراک صحیح ہے۔ مجھے اس سے باخبر رہنا چاہیے کہ میری روحانی نظر محدود ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ دوسرا کوئی مشاہدہ نہیں ہو سکتا۔ مذہبی اصطلاح میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ مجھے یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ دوسرے لوگوں کو خدا کا الہام نہیں ہوا۔ اور اسی طرح یہ بھی امکان ہے کہ دوسروں کا الہام اس سے زیادہ مکمل اور ترقی یافتہ ہو جو مجھ کو ہوا ہے۔ میں اور میرا ساتھی دونوں مختلف راستوں سے ایک ہی منزل کی طرف چلے جا رہے ہیں۔ تمام انسان مخفی حقیقت تک پہنچنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی حقیقت مطلق کی مناسبت سے تعمیر کر سکیں یا مذہبی اصطلاح کے مطابق خدا کی مرضی پر چل سکیں۔ یہ تمام لوگ ایک ہی قسم کی تلاش میں مصروف ہیں۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ سب روحانی بھائی ہیں۔ اور رواداری اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک وہ محبت میں تبدیل نہ ہو جائے۔‘‘
An Historian's Approach to Religion, p. 251
اس طرح جماعتی سطح پر خدا کے بہت سے تصورات بن جاتے ہیں، چنانچہ انسائیکلو پیڈیا آف ریلیجن انیڈ ایتھکس کے مولفین نے سماجی سطح پر خدا کے 22 تصورات دریافت کیے ہیں، اور 22 الگ الگ عنوانات کے تحت ان کی تشریح کی ہے۔ (ملاحظہ ہو جلد 5 عنوان: خدا (God)
3۔ اسی طرح اس تشریح کے خانہ میں نبوت اور ختم نبوت سب بے معنی الفاظ ہو جاتے ہیں۔ ٹائن بی اپنی مذکورہ بالا کتاب میں لکھتا ہے:
’’مورخ کا نقطہ نظر اس سے متصادم نہیں ہے کہ خدا نے انسان کے اوپر الہام کیا تاکہ روحانی نجات کے لیے انسان کی مدد کرے۔ جو کہ بلا واسطہ کوشش سے انسان کے لیے ممکن نہ ہوتا۔ مگر مورخ اس ابتدائی مقدمہ کو یہاں تک پہنچانے میں مشتبہ ہے کہ یہ دعویٰ کیا جائے کہ خدا کی طرف سے ایک مخصوص اور آخری الہام ہوا ہے جو اس کہکشانی نظام میں سورج کے ایک کرہ پر ایک متعین وقت میں ایک خاص گروہ کو عطا ہوا ہے۔ ’’خدا اپنی مخلوق پر الہام کرتا ہے‘‘ کے مقدمہ کے اس ذاتی (self centered) انطباق میں مورخ شیطانی شرارتوں کی جھلک دیکھتا ہے۔ کیوں کہ الہام اور مخصوص الہام میں منطقی طور پر کوئی لازمی رشتہ نہیں ہے۔ یعنی یہ کہ ’’میں ‘‘ ہی وہ شخص ہوں جس پر تمام لوگوں کے درمیان خدا کا الہام ہوا ہے اور میرا الہام مخصوص اور آخری ہے۔‘‘ (صفحہ 132)
میں کہوں گا کہ اس غلطی کی بنیاد خود اس تصور الہام میں ہے جو مورخ مان رہا ہے، ورنہ معلوم ہوتا کہ فی الواقع الہام اور مخصوص الہام میں اتنا قریبی اور منطقی رشتہ ہے کہ دونوں کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ جدید مفکرین کا تصور الہام یہ ہے کہ وہ اسی قسم کی ایک چیز ہے جیسے کسی آرٹسٹ کے ذہن میں کسی عمدہ تصویر کا خیال آ جائے، یا شاعر کو کوئی عمدہ شعر سوجھ جائے۔ خدا ان کے نزدیک کوئی شعوری وجود نہیں جو بالا رادہ ایک خاص مقصد کے تحت کسی کو اپنی مرضی کے اظہار کے لیے چنتا ہو۔ بلکہ وہ کسی قسم کی مجہول خارجی حقیقت ہے جو ہماری کائنات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس کی پرچھائیاں ہم پر پڑتی ہیں، اور بعض لوگوں کے نزدیک یہ بھی نہیں ہے۔ بلکہ یہ صرف ہمارا تحتِ شعور ہے، جو وحی و الہام کی صورت میں بولتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مذہبی نقطہ نظر سے صورت حال اس سے قطعی مختلف ہے۔ اس لیے مذہب کا تصور الہام جدید مفکرین کی سمجھ میں کیسے آ سکتا ہے۔
4۔ اس جدید تشریح میں مذہب صرف ایک دنیوی ضرورت بن کر رہ جاتا ہے، جب کہ مذہب در اصل ایک اخروی ضرورت ہے۔ یعنی خالص مذہبی نقطہ نظر سے مذہب کا اصل کام انسان کو دوسری زندگی کی نجات کا راستہ بتانا ہے۔ مگر اس تشریح میں مذہب کا مقصد صرف یہ ہو جاتا ہے کہ دنیا میں سماجی تنظیم کے لیے ایک موزوں بنیاد فراہم کرے۔ وہ ایک مفروضہ عقیدہ ہے نہ کہ کوئی واقعی حقیقت:
‘‘Indeed a dogma is only workable thought arrangement on which could be built a unity of purpose and practice among the believers of a particular religion.’’ (Hindustan Times, Oct. 1961)
یعنی مذہبی عقیدہ صرف ایک قابل عمل تنظیم فکر ہے جس کی بنیاد پر ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کے درمیان مقصد اور جدوجہد کا اشتراک قائم رکھا جا سکتا ہے۔
5۔ اس جدید تصور کے پیدا ہونے میں کسی قدر دخل مروجہ یہودیت کا بھی ہے، جس کا تعلق حضرت موسیٰ کی تعلیمات سے نہیں، بلکہ وہ ان کے بگڑے ہوئے پیروئوں کا اپنا عقیدہ ہے۔ ٹائن بی لکھتا ہے:
’’درحقیقت یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ خدا جس کا ذہن اور جس کا ارادہ پوری کائنات کے نظام پر حکومت کرتا ہے وہ اس قسم کی وہمی حرکت کرے گا۔ یہ نہایت بعید از قیاس بات ہے کہ وہ تمام لوگوں میں سے ’’مجھ‘‘ کو اور میرے گروہ کو چن لے اور مجھ کو اپنا پیغمبر اور میرے قبیلہ کو اپنا محبوب گروہ (choosen people) قرار دے۔ اس قسم کا کوئی بھی تصور حقیقت سے زیادہ ایک فریب ہے، جو آدمی نے خود ہی اپنے ذہن میں پیدا کر لیا ہے۔‘‘
An Historian's Approach to Religion, p. 135
جہاں تک ’’محبوب گروہ‘‘ کا تعلق ہے اگر اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ کوئی گروہ محض ایک خاص نسل یا ایک خاص شخص سے منسوب ہونے کی وجہ سے محبوب ہے تو یہ ایک لغو بات ہے۔ اور غالباً یہود کے عقیدہ کی بنا پر یہی مورخ کے ذہن میں ہے مگر یہ اصل مذہبی تصور کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ خدا کے الہام کی جو لوگ پیروی کریں گے وہ خدا کی نظر میں محبوب لوگ قرار پائیں گے، اس سے قطع نظر کہ وہ نسلی اعتبار سے کس خاندان میں پیدا ہوئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مذہب کی اس تشریح کا مطلب مذہب کے نقطہ نظر سے اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ مذہب کو مانتے ہوئے مذہب کا انکار کر دیا جائے۔ ایک ایسا مذہب جس پر عذاب و ثواب مترتب نہ ہوتا ہو، جو بس ایک قسم کی شخصی مہم ہو، اور دوسرے انسانوں سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو، جو کسی زندہ اور باشعور خدا کی طرف سے نہ ہو۔ بلکہ خود انسان کے اپنے ذہن اور نفسیات کا کرشمہ ہو۔ ایسا مذہب لا الٰہ الا الانسان کے کلمہ کے تحت بن سکتا ہے لا الہٰ الا اللہ کے کلمہ کے تحت نہیں بن سکتا۔ ایسے کسی فکر کو ’’مذہب‘‘ کہنا اگر مصلحت اندیشی کی بناء پر ہے تو وہ سادہ لوحی ہے اور اگر علمی مغالطہ ہے تو فریب۔