بسم اللہ الرحمن الرحیم
دیباچہ
زیر نظر کتاب،مذہب اور سائنس، تیس سال پہلے دہلی کے ہفت روزہ الجمعیۃ19 مارچ 1971ء میں خصوصی نمبر کے طور پر شائع ہوئی۔ اس کے بعد1984ء میں اس کو ایک علیحدہ کتاب کی صورت میں شائع کیا گیا۔ پھر اس کے عربی اور انگریزی ترجمے شائع ہوئے۔ اس طرح پچھلے تیس سال میں اس کتاب کے کئی ایڈیشن مختلف زبانوں میں چھپ چکے ہیں۔ اب اس کتاب کو کسی قدر نظرثانی کے ساتھ نئی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے۔
مذہب اور سائنس کی نسبت سے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہیں اور بہت سے پہلوئوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ فکری بھی اور عملی بھی۔ اس کتاب میں صرف فکری نوعیت کے بعض مسائل پر کلام کیا گیا ہے۔ وہ زیادہ تر ان مسائل کے بارے میں ہیں جو اسلام کے اعتقادی نظام سے تعلق رکھتے ہیں۔
تاہم یہ کتاب اس معاملہ کے صرف کچھ اصولی امور سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ تفصیلی یا غیر اساسی پہلوئوں پر کوئی بحث نہیں کرتی۔ میں نے اپنی دوسری کتابوں کے مضامین میں مذہب اور سائنس کے موضوع پر تفصیلی کلام کیا ہے۔
مذہب کی تعلیمات مجرد تعلیمات نہیں ہیں، بلکہ وہ کائنات کی ابدی صداقتیں ہیں۔ ہماری نجات کی واحد صورت یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو ان صداقتوں سے ہم آہنگ کریں، ٹھیک ویسے ہی جیسے سورج کی روشنی سے اپنے کو ہم آہنگ کرتے ہیں۔ ان صداقتوں کے معاملہ میں نہ ہم انکار کا رویہ اختیار کر سکتے ہیں، اور نہ ان کے معاملہ میں غیر جانب دار ہو سکتے۔ اپنے کو ان سے ہم آہنگ بنانے کے سوا کوئی بھی دوسرا رویہ ہم کو صرف ایک انجام تک پہنچانے والا ہے،اور وہ ہے ابدی تباہی۔
مذہب کی تعلیمات کو ان کی قطعی اور یقینی صورت میں جاننے کا ذریعہ وحی ہے۔ خدا کے پیغمبروں نے ان تعلیمات کو براہ راست خالق کائنات سے لے کر انسانوں تک پہنچایا۔ پیغمبروں کی دعوت پر جب ان کے مخاطبین نے شک و شبہ کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا: قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ (14:10)۔ یعنی کیا تم اس خدا کے بارے میں شک کرتے ہو جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبروں نے اپنے پیغام کی صداقت پر جو دلیل پیش کی وہ فطرت کی دلیل تھی۔ زمین و آسمان کی صورت میں جو مظاہر ہمارے سامنے پھیلے ہوئے ہیں، وہ مشاہداتی طور پراس تعلیم کے حق میں گواہی دے رہے ہیں جو پیغمبروں نے نظری طور پر پیش کی۔ یہ دلیل آج بھی پوری طرح مذہب کی تائید میں موجود ہے۔ پیغمبروں کا زمانہ سائنسی دور سے پہلے کا زمانہ ہے۔ اس زمانے میں آدمی زمین و آسمان کے مظاہر کے بارے میں بہت کم باتیں جانتا تھا۔ مگر موجودہ زمانہ میں جب کہ زمین و آسمان کے بارے میں انسان کی معلومات میں کروڑوں گنا اضافہ ہوگیا ہے، اب بھی اس استدلال کی اہمیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ جدید تحقیقات نے پیغمبروں کی تعلیم کی صداقت کو اور زیادہ مضبوطی کے ساتھ ثابت کیا ہے۔
جدید علم نے کائنات کی جو تصویر بنائی ہے وہ ایک حد درجہ محکم اور منظم کائنات ہے۔ اس سے اولاً یہ قیاس کیاگیا کہ یہ ایک قسم کا مشینی نظام ہے جو اسباب و علل کے زور پر اپنے آپ چل رہا ہے لیکن گہرے مطالعہ نے اس مفروضہ کو بے بنیاد ثابت کر دیا۔ معلوم ہوا کہ کائنات کا نظام محکم ہونے کے ساتھ مکمل طور پر غیر مشینی ہے۔
وہ ہر لمحہ ایک چلانے والے اور انتظام کرنے والے کا محتاج ہے۔ اسی طرح معلومات کے اضافہ سے یہ فرض کر لیا گیا کہ انسان کا اپنا علم ہی ساری حقیقتوں کو جاننے کے لیے کافی ہو جائے گا، وحی و الہام کا سہارا لینے کی ضرورت نہ ہوگی۔ مگر تحقیق نے اس کو بھی بے بنیاد ثابت کر دیا۔ معلوم ہوا کہ کائنات کے کلی علم تک پہنچنے کے لیے انسان کی صلاحیتیں فیصلہ کن طور پر ناکافی ہیں۔ ہمارے لیے خارجی معلم کا سہارا لینے کے سوا دوسری کوئی صورت نہیں۔ اس طرح جدید علم ہر لحاظ سے مذہب کی بنیاد کو مضبوط کرتا جا رہا ہے، اس نے کسی بھی اعتبار سے اس کو کمزور نہیں کیا ہے۔
جدید مطالعہ سے یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ مذہب کا جذبہ انسان کا فطری جذبہ ہے، کسی طرح اس کو انسان سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ جدید دور میں آخری کوشش یہ کی گئی کہ وحی سے آزاد ہو کر انسانی ساخت کا ایک’’مذہب‘‘ بنایا جائے اور اس کو انسان کی مذہبی تلاش کے جواب کے طور پر پیش کیا جائے، مگر اب تک کی کوششوں نے صرف یہ بتایا ہے کہ جس کائنات میں انسان کلی علم تک پہنچنے سے عاجز ہے، اس کائنات میں بسنے والی مخلوق کے لیے وہ ایسا دین بھی وضع نہیں کر سکتاجو حقائق کائنات سے کلی مطابقت رکھنے والا ہو۔
جہاں تک خالص سائنس کا تعلق ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ بڑے بڑے سائنس دانوں نے کبھی بھی خدا کے وجود کا انکار نہیں کیا۔ آئزک نیوٹن(وفات1727) نے واضح طور پر خدا کے وجود کا اقرار کیا تھا۔ البرٹ آئن سٹائن(وفات1955) خدا کے وجود پر گہرا عقیدہ رکھتا تھا، اپنی ذاتی زندگی میں وہ ایک روحانیت پسند انسان تھا۔
اسی طرح چارلس ڈارون نے اپنی مشہور کتاب اصل الانواع (Origin of Species) میں ایک سے زیادہ مقام پر خدا کے وجود کا اقرار کیا ہے۔ مثلاً اس نے اپنی اس کتاب کے آخری پیراگراف میں لکھا ہے کہ زندگی کے اس تصور میں کتنی عظمت ہے کہ خالق (Creator) نے آغاز میں زندگی کی ایک یا اس سے زیادہ ابتدائی شکلیں پیدا کیں اور پھر اس آغاز سے ہماری زمین کے اوپر زندگی کی بے شمار قسمیں ظہور میں آئیں:
There is grandeur in this view of life, with its several powers, having been originally breathed by the Creator into a few forms or into one.
حقیقت یہ ہے کہ سائنس خدا کا انکار نہیں کرتی۔ البتہ کچھ ملحد فلسفیوں نے سائنس کو انکار خدا کی دلیل کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی تھی، جو اپنے ابتدائی مرحلہ ہی میں ناکام ہوگئی۔
زیر نظر کتاب نہ مذہب کا تفصیلی مطالعہ ہے، اور نہ سائنس کا تفصیلی مطالعہ۔ وہ صرف ایک بنیادی پہلو سے دونوں کے درمیان تعلق کو بتانے کی ایک کوشش ہے۔ یہ کتاب انہی لوگوں کے لیے زیادہ مفید ہوگی، جو مذہب اور سائنس دونوں کے بارے میں ضروری واقفیت رکھتے ہوں۔ اس کتاب کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ لوگ جو جدید افکار سے متاثر ہونے کی بنا پر مذہب کی صداقت کے بارے میں شک اور تذبذب میں مبتلا ہیں، ان کے شک کو رفع کیا جائے اور مذہب کی اصولی صداقت کو ان کے لیے قابل فہم (understandable) بنایا جا سکے۔
یہ کتاب اگر ایسے لوگوں میں یہ جذبہ پیدا کر سکے کہ وہ مذہب کو ایک قابل غور چیز سمجھیں، اور اس کا سنجیدہ مطالعہ کرنے کے لیے تیار ہو جائیں تو مصنف کے نزدیک اتنی ہی بات اس کتاب کی کامیابی کے لیے کافی ہوگی۔
نئی دہلی،13 ستمبر1999ء وحیدالدین