جائزہ

اس فکر کا ہم جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر بنیادی خامیاں موجود ہیں۔

1۔ پہلی بات یہ کہ مادی علوم اور انسانی علوم میں بنیادی فرق ہے اور یہی فرق بتاتا ہے کہ انسان کبھی بھی اپنی ذات کو اس طرح نہیں سمجھ سکے گا جس طرح وہ مادہ کے ظاہری اوصاف کو سمجھ لیتا ہے۔ صورت حال یہ نہیں ہے کہ انسانی علوم پر کام نہیں ہوا۔ واقعہ یہ ہے کہ انسانی علوم پر تحقیق اور غور و فکر کی تاریخ مادی علوم سے کہیں زیادہ پرانی ہے۔ مگر اس کے باوجود اس شعبہ میں ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ہوئی اور مصنف کے الفاظ میں صورت حال یہ ہے کہ:

’’ایک مادہ پرست اور ایک روحانیت پسند دونوں سوڈیم کلورائڈ (نمک) کے ایک ٹکڑے کی تشریح پر متفق ہو جاتے ہیں۔ لیکن انسانی ہستی کے بارے میں ان کی رائے ایک دوسرے سے نہیں ملتی۔‘‘ (ص 17)

ابھی تک کسی بھی تحقیق نے یہ امکان پیدا نہیں کیا ہے کہ مستقبل میں یہ صورتحال باقی نہ رہے۔ پھر کس بنا پر امید کر لی جائے کہ مستقبل میں آدمی اپنی زندگی کے راز کو معلوم کر لے گا۔ مصنف نے ان لوگوں پر تنقید کی ہے جو مادی دنیا سے متعلق معلومات کو انسانی ہستی پر چسپاں کرنا چاہتے ہیں، وہ لکھتا ہے:

’’حرکیات حرارت کا دوسرا قانون یعنی آزاد شدہ قوت کے پھیلائو کا اصول سالمات کی سطح پر کام آسکتا ہے۔ مگر اس کو نفسیات میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ یہاں کم کوشش اور زیادہ آرام کا اصول منطبق ہوتا ہے۔ شعری جذب و دفع کی قوت اور نفوذی دبائو کے تصورات سے ان مسائل پر کوئی روشنی نہیں پڑتی جو شعور سے تعلق رکھتے ہیں۔ نفسیاتی مظاہر کو خلیوں کی فعلیات یا کوانٹم میکانکس کی اصطلاحات میں بیان کرنا محض الفاظ کے ساتھ کھیلنا ہے۔‘‘ (ص43)

مگر جب وہ کہتا ہے کہ مادی علوم کی طرح انسانی علوم بھی ہمارے لیے قابل دریافت ہیں، تو وہ دراصل انیسویں صدی کے میکانکی ماہرین فعلیات (mechanistic physiologists) کے نظریہ کو دوسری شکل میں دہرا دیتا ہے۔ کیونکہ انسان کے بارے میں جو حقیقی معلومات حاصل ہو سکتی ہیں وہ صرف وہی ہیں جو وصفی (descriptive) نوعیت کی ہیں، جو انسان کے مادی پہلو سے متعلق ہیں، اس لیے جو لوگ مذہب کو الگ کرکے انسان کو سمجھنا چاہتے ہیں، ان کے تمام انسانی نظریے اسی مادی عنصر کو پورے انسان پر چسپاں کرکے بنائے جائیں گے اس طرح عملاً ان میں اور انیسویں صدی کے مادیین میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔

2۔ جیسا کہ صاحب کتاب نے اعتراف کیا ہے، مختلف علوم کے الگ الگ ماہرین کے اجتماع سے انسانی علم کی دریافت نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے لیے ایک جامع شخص کا ہونا ضروری ہے:

’’اس طرح کی جامعیت مختلف شعبوں کے ماہرین خصوصی کی کانفرنس کرکے حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اس کو تو ایک جماعت کے بجائے ایک شخص ہی انجام دے سکتا ہے۔ کوئی عمدہ آرٹ کبھی آرٹسٹوں کی کمیٹی کے ذریعہ وجود میں نہیں آیا ہے۔ نہ مختلف محققوں نے اجتماعی کوشش سے کوئی زبردست انکشاف کیا ہے۔ علوم کا اجتماع جو انسانی واقفیت کو ترقی دینے کے لیے درکار ہے، وہ ایک ہی دماغ میں ہونا چاہیے۔ ‘‘ (ص 55)

مگر اس قسم کے کسی جامع العلوم شخص کا پایا جانا اب تک کی صورت حال کے مطابق بالکل ناممکن ہے۔ کیونکہ انسان محدود عمر اور بڑھاپے کے لازمی قانون کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ ابھی تک کسی درجہ میں بھی کوئی ایسا طریقہ دریافت نہ ہو سکا جس سے بڑھاپے کو روکا جا سکے یا موت کو ٹالا جا سکے۔ اس طرح ایک شخص کو کام کرنے کی جو عمر ملتی ہے وہ کسی ایک شعبہ کی کامل مہارت کے لیے ناکافی ہے۔ کجا کہ اسی محدود عمر میں سارے علوم کی مہارت حاصل کی جا سکے۔

مصنف نے پچیس سال کے مطالعہ کو سارے علوم میں دستگاہ پیدا کرنے کے لیے کافی قرار دیا ہے، یہ ایک حیرت انگیز جسارت ہے۔ مارکس صرف اقتصادیات کا مطالعہ کرنا چاہتا تھا، اور اس میں اس نے اپنی بہترین عمر کے 35 سال لگا دیئے، مگر اس کے باوجود اس کا مطالعہ مکمل نہیں ہوا۔ اس طویل مطالعہ کے باوجود وہ اپنی مجوزہ کتاب (سرمایہ) کی صرف ایک جلد لکھ سکا۔ پھر کس بنیاد پر یقین کر لیا گیا ہے کہ سارے علوم کی مہارت کے لیے 25 سال کا مطالعہ کافی ہو جائے گا۔

پھر بات صرف اتنی ہی نہیں ہے۔ انسان کی حقیقت اتنی پیچیدہ ہے اور وہ ایک مفکر کے الفاظ میں ایسا مجموعہ اضداد (mixture of opposites) ہے کہ اب تک کی معلومات کے مطابق ہم یہی قیاس کر سکتے ہیں کہ اس کے بارے میں کوئی غیر مشکوک اور ہم آہنگ رائے قائم کرنا کسی انسان کے لیے محال ہے۔ کمتر واقفیت کی صورت میں تو بیشک ایک شخص کے اندر وہ یقین پیدا ہو سکتا ہے جس کو مصنف نے دھندلا اعتماد (illusive confidence) کہا ہے۔ (ص 231) مگر معلومات میں اضافہ ہوتے ہی اتنے متضاد اور مختلف النوع سوالات سامنے آ جاتے ہیں کہ ان کے درمیان توافق قائم کرنا اور سب کو ملا کر کسی ایک حتمی رائے پر پہنچنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف شعبوں کے خصوصی علماء کی رائے اکثر ایک ہی چیز کے بارے میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتی ہیں مثلاً واٹسن (Watson) اور نظریہ کردار کے دوسرے قائلین (behaviourists) کا یہ دعویٰ ہے کہ موروثی صفات کوئی چیز نہیں ہیں۔ انسان کو تعلیم اور ماحول کے ذریعے کسی بھی شکل میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس نظریے توالد و تناسل کے قائلین (geneticists) کا مطالعہ انہیں یہ بتاتا ہے کہ موروثیت ہی ایک انسان کی قسمت کا فیصلہ کرتی ہے اور قوموں کی نجات تعلیم و تربیت میں نہیں بلکہ عمدہ انسانی نسل پیدا کرنے میں ہے۔ ایسی حالت میں یہ قیاس کرنا بہت غیرحقیقی مفروضہ ہوگا کہ کوئی یا چند انسان ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو علم انسانی کے بیشمار شعبوں کا خصوصی مطالعہ کریں اور اس کے باوجود ان کے ذہن میں وہ اختلافات رونما نہ ہوں جو الگ الگ خصوصی مطالعہ کرنے کی صورت میں، مختلف اشخاص کے درمیاں پیدا ہوتے ہیں۔

3۔ مصنف نے اس حقیقت کو نظرانداز کر دیا ہے کہ انسان ایک صاحب ارادہ مخلوق ہے اور یہ چیز اس کو تمام مادی اشیاء سے الگ کر دیتی ہے۔ کسی مادی چیز کے مطالعہ سے اگر ہمیں ایک بات معلوم ہو تو ہم اس کو صداقت سمجھ سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ یقین ہے کہ اسی نوعیت کے تمام مادے انہیں حالات میں ہوں تو وہ ٹھیک اسی واقعہ کو دہرائیں گے۔ مگر انسان کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ انسان ذی ارادہ ہونے کی وجہ سے اس پوزیشن میں ہے کہ ہر آن اپنے آپ کو بدل دے۔ مصنف کے الفاظ میں:

’’جامد مادے کے علم اور زندگی کے علم میں ایک عجیب فرق ہے۔ ہیئت، میکانکس اور طبیعیات کی بنیاد ایسے تصورات پر ہے جن کو نہایت اختصار اور خوش اسلوبی کے ساتھ ریاضیاتی زبان (mathematical language) میں بیان کیا جا سکتا ہے… حیاتیاتی علوم کی یہ صورت نہیں ہے جو لوگ زندگی کے مظاہر کی تحقیق کرتے ہیں وہ گویا ایک ایسے طلسمی جنگل میں داخل ہوتے ہیں جہاں رنگ برنگ کے بیشمار درخت مسلسل طور پر اپنی جگہ اور اپنی شکل بدلتے رہتے ہیں اور جہاں سے نکلنا بہت ہی دشوار ہوتا ہے، حقیقتوں کی کثرت کی وجہ سے ان کی عقل کچھ کام نہیں کرتی۔ ان کو وہ کچھ بیان تو کر سکتے ہیں مگر جبر و مقابلہ کی مساواتوں میں ان کی تعبیر نہیں کر سکتے۔‘‘ (ص 15)

یہی وجہ ہے کہ انسانی علم کی کوئی ایسی تشریح حاصل کرنا جو سب پر اپلائی ہو، ناممکن ہے۔ دراصل انسانیت کے سارے مسائل کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کے ارادے پر قابو پایا جائے۔ تاکہ وہ اپنے ارادہ سے وہی کرنے لگے جو ہم چاہتے ہیں۔ پارو ہائوس میں ایک بٹن دبانے سے شہر کے سارے قمقمے روشن ہو سکتے ہیں مگر انسان کے لیے کوئی ایسا قانون ناممکن ہے جو سب پر یکساں طور پر نافذ ہو جائے۔ انسان خود ہی اپنے آپ کو اپنے ارادہ سے بدلتا ہے، کوئی خارجی عمل اسے تبدیل نہیں کر سکتا۔

4۔ یہ نقطہ نظر یہ فرض کرتا ہے کہ بداخلاقی، بددیانتی اور جرائم ایک قسم کی دماغیاور عصبی ’’بیماری‘‘ ہے اور اس کا علاج شفاخانوں میں اسی طرح ہو سکتا ہے جیسے پھوڑے، پھنسی اور زکام و بخار کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ مصنف لکھتا ہے:

’’دماغی سرگرمی کی طرح اخلاقی حس بھی بظاہر جسم کی ساخت اور اس کے افعال کی حالت پر منحصر ہے۔ یہ حالات ہماری نسیجوں اور ہمارے دماغ کی طبعی ساخت کا نتیجہ ہوتے ہیں نیز یہ ان عوامل کی وجہ سے بھی پیدا ہوتے ہیں جو نشو و نما کے زمانہ میں ہمارے اوپر اثر انداز ہوتے ہیں۔ شوپنہار نے اپنے مضمون   ’’اخلاقیات کی بنیاد‘‘ میں جس کو اس نے کوپن ہیگن کی رائل سوسائٹی آف سائنس میں پیش کیا تھا، یہ رائے ظاہر کی تھی کہ اخلاقی اصول ہمارے فطرت کے اندر اپنی اساس رکھتے ہیں، دوسرے الفاظ میں انسانوں کی خود غرضی، کمینگی اور رحم کے جذبات پیدائشی ہوتے ہیں۔‘‘ (ص127)

یہ بنیاد بھی بالکل لغو ہے کیونکہ جرائم کی تحریک کے اگرچہ کچھ اور اسباب بھی ہوتے ہیں مگر یقینی طور پر وہ اسباب اضافی ہیں اور اصل سبب انسان کا اپنا فیصلہ ہے۔ فیصلہ پر کنٹرول حاصل کیے بغیر کسی طرح مجرمانہ ذہنیت ختم نہیں کی جا سکتی۔ یہ قطعاً ناممکن ہے کہ اخلاقی مجرمین کا علاج اسی طرح ہسپتالوں میں ہونے لگے جس طرح جسمانی مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ کیونکہ جرم ایک ارادی واقعہ ہے اور بیماری ایک مادی واقعہ۔ ہمارے سرجن مادہ کی چیر پھاڑ کر سکتے ہیں، وہ انسانی ارادہ کا آپریشن نہیں کر سکتے۔ اس لیے وہ انسانی ارادہ پر قابو بھی نہیں پا سکتے۔

5۔ زندگی کے موضوع کی پیچیدگی کی وجہ سے مصنف خود تسلیم کرتا ہے کہ اس کا علم ہمیشہ انسان کی دسترس سے باہر رہے گا۔ مگر اس کے باوجود کسی واقعی علمی بنیاد کے بغیر یہ امید موہوم قائم کر لیتا ہے کہ انسان اسے حاصل کر سکتا ہے۔ وہ لکھتا ہے:

’’طبیعیات، ہیئت، کیمیا اور میکانکس کے شاندار عروج کے مقابلہ میں علم انسانی کی سست رفتاری ہمارے آباء و اجداد کی کم فرصتی، موضوع کی پیچیدگی اور ہمارے دماغ کی خاص بناوٹ کا نتیجہ ہے۔ یہ رکاوٹیں بنیادی ہیں۔ ان کے ختم ہونے کی کوئی امید نہیں:

There is no hope of eliminating them.

جان توڑ کوشش کے بعد ہی ان پر قابو حاصل کیا جا سکتا ہے، ہمارے ذات کا علم، طبیعیات کی خوشنما سادگی، تجرید اور خوبصورتی حاصل نہیں کر سکتا۔ وہ اسباب جو اس کی ترقی میں حارج ہوتے رہے شاید دور نہیں کیے جا سکتے۔ ہم کو صاف طور پر ماننا چاہیے کہ انسان کا علم تمام علوم میں سب سے زیادہ مشکل ہے۔‘‘ (ص23)

انسانی علم کی یہ نزاکت تمام مفکرین تسلیم کرتے ہیں۔ جولین ہکسلے لکھتا ہے:

’’یہ ناگزیر ہے کہ خدا کے تصور کا خاتمہ مذہب کے خاتمہ کے ہم معنی نہیں ہے۔ خدا کا خاتمہ محض محدود الٰہیاتی عمل کے مفہوم میں ہے۔ اگرچہ الٰہیاتی ذہن ختم ہو رہا ہے مگر وہ مذہبی احساسات جنہوں نے خدا کو وجود دیا تھا وہ اب بھی باقی ہیں۔ خدا کا خاتمہ مذہب کی ایک نئی تشکیل کے ہم معنی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب انسان خود اپنے کندھوں پر اس بوجھ کو اٹھائے گا جس کو اس نے پہلے خدا کے کندھوں پر ڈال دیا تھا۔ اس ذمہ داری کا سب سے پہلا مطلب ایک پراسرار کائنات اور اپنی ناواقفیت کا مقابلہ کرنا ہے۔ پچھلے زمانوں میں یہ بوجھ ایک فہم و ادراک سے باہر خدائی کے اوپر ڈال دیا گیا تھا۔ اب ہم اس کو خود اپنی ناواقفیت (Ignorance) کے خانہ میں ڈالتے ہیں اور اس امکان کا مقابلہ کرتے ہیں کہ آخری حقائق سے بے خبری ہماری فطرت کی محدودیتوں کی وجہ سے ہمیشہ برقرار رہے گی۔‘‘

Man in the Modern World, p. 133

یہ تضاد بھی حیرت انگیز ہے کہ یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ انسانی علم انسان کے لیے ناقابل دریافت ہے، ہم یہ امید کرتے ہیں کہ ہم انسان کی زندگی کے مسائل کو حل کر لیں گے، ایسے مسائل جن کا حل اسی وقت ممکن ہے جب کہ انسانی علم پر عبور حاصل ہو جائے۔ کس قدر حیرت انگیز بات ہے کہ ایک ایسا موڑ جو خدا کی رہنمائی کی طرف اشارہ کرتا ہے، وہیں سے آدمی الٹی سمت میں مڑ جاتا ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom