برٹرینڈرسل کے خیالات
یہ 1966ء کی بات ہے۔ میں نے طے کیا کہ میں برٹرینڈرسل (1872-1970) کو پڑھ ڈالوں۔ خوش قسمتی سے قریب ہی ایک لائبریری میں مجھے رسل کی کتابوں کا پورا سیٹ مل گیا۔ مگر جب میں ان کتابوں کو لے کر گھر پہنچا تو میری بیوی ان کو دیکھ کر بہت متوحش ہوئی ’’اب آپ ضرور گمراہ ہو جائیں گے۔‘‘ اس نے کہا۔ یہ واقعہ ہے کہ رسل اس دور کا غلیظ ترین ملحد ہے۔ اس لحاظ سے اس کی تصنیفات کو پڑھنا عام ذوق کے مطابق خطرے سے خالی نہیں تھا۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ میں رسل کی دنیا میں داخل ہو کر اس طرح اس سے نکلا کہ میرا ایمان پہلے سے زیادہ پختہ ہو چکا تھا۔
موجودہ زمانہ کے فلسفیوں میں رسل کا مطالعہ سب سے زیادہ وسیع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے اگر کوئی استثناء ممکن ہے تو وہ صرف وہائٹ ہڈ کا۔ برٹرینڈرسل کی زندگی تقریباً ایک صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔ اپنے بیان کے مطابق وہ ساری عمر دو چیزوں کے تحقیق میں مصروف رہا… ’’ہم کتنی چیزوں کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں اور یہ کہ ہمارے علم کا کتنا حصہ یقینی ہے اور کتنا حصہ مشتبہ ہے۔‘‘
‘‘I have throughout been anxious to discover how much one can be said to know and with what degree of certainty or doubtfulness.’’ (My Philosophical Development, p. 11)
اس مقصد کے لیے رسل نے خاص طور پر چار سائنسی شعبوں کا مطالعہ کیا… فزکس، فزیالوجی، سائیکالوجی اور میتھ میٹکل لاجک۔
My Philosophical Development, p. 16
اس مطالعہ کے بعد سب سے پہلے وہ تشکیک کے نقطہ نظر کو رد کر دیتا ہے۔ اس کے الفاظ میں تشکیک نفسیاتی طور پر ناممکن ہے:
‘‘Scepticism is psychologically impossible.’’ (Human Knowledge, p. 9)
مگر یہاں انسان دو طرفہ مشکل میں مبتلا ہے۔ ایک طرف یہ کہ ’’ہم نہیں جانتے‘‘ کہہ کر ہم اس دنیا میں نہیں رہ سکتے۔ دوسری طرف جب ہم جاننا چاہتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس راہ میں بہت کم کامیابی کے امکانات ہیں۔ رسل کے الفاظ میں،’’فلسفہ قدیم ترین زمانہ سے بڑے بڑے دعوے کرتا رہا مگر اس کا حاصل دوسرے علوم کے مقابلہ میں بہت کم ہے۔‘‘
‘‘Philosophy from ancient times has made long claims, but what it has achieved is far less as compared to other sciences.’’ (Our Knowledge of the External World, 1952, p. 13)
چنانچہ رسل خود عمر بھر کی کوشش کے باوجود کوئی منظم فلسفہ نہ بنا سکا۔ پروفیسر الان وڈ (Alan Wood) کے الفاظ میں، برٹرینڈرسل ایک ایسا فلسفی ہے جس کا اپنا کوئی فلسفہ نہیں:
‘‘Bertrand Russell is a philosopher without a philosophy.’’ (My Philosophical Development, 1959, p. 260)
منطق اور ریاضی کو حقیقت کی دریافت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر رسل کے نزدیک، منطق اور ریاضی کتاب فطرت کی الف، ب، ہیں، خود کتابیں نہیں ہیں:
‘‘Logic and Mathematics...are the alphabet of the book of nature, not the book itself.’’ (My Philosophical Development, p. 277)
رسل کے نزدیک علم کی دو قسمیں ہیں۔ چیزوں کا علم (knoweledge of things) صداقتوں کا علم (knowledge of truths)۔
The Problems of Philosophy, p. 46
چیزوں کا علم دوسرے الفاظ میں حسی واقعات (sensible facts) کا علم ہے۔ مگر حسی واقعات ہی سب کچھ نہیں ہیں بلکہ ان کے پیچھے بھی کچھ صداقتیں چھپی ہوئی ہیں جو بذات خود ہمارے حواس میں نہیں آتیں۔ ان صداقتوں کو معلوم کرنے کا ذریعہ وہ استنباط (inference) ہے جو حسی واقعات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ رسل کے نزدیک استنباط صحیح (valid) ہو سکتا ہے۔ البتہ اس کو سائنسی استنباط (scientific inference) ہونا چاہیے۔
My Philosophical Development, p. 46
وہ تمام چیزیں (things) جن سے ہم استنباط کے بغیر براہ راست واقف ہوتے ہیں، ان کو رسل نے اعداد و شمار (data) کا نام دیا ہے۔ یہ اعداد و شمار ہمارے تجرباتی حواس (observed sensations) پر مشتمل ہوتے ہیں۔ بصری (visual) سمعی (auditory) لمسی (tactile) وغیرہ۔ رسل کہتا ہے کہ کائنات کے بارے میں ہمارا جو سائنسی تصور ہے، وہ تجرباتی حواس کے ذریعے معلوم شدہ چیز نہیں ہے۔ بلکہ وہ تمام تر ایک استنباطی دنیا (infered world) ہے۔ حتی کہ وہ کہتا ہے:
‘‘People's thoughts are in heads.’’ (My Philosophical Development, p. 25)
یعنی لوگوں کے تصورات صرف ان کے دماغوں میں ہیں۔ اس سے باہر ان کا کہیں وجود نہیں ہے۔
رسل اپنے تمام مطالعہ کے بعد جس نتیجہ پر پہنچا ہے، وہ یہ کہ تجربہ (experience) پر ضرورت سے زیادہ زور دیا گیا ہے اور اس لیے تجربیت (empiricism) کو بحیثیت فلسفہ کچھ اہم محدودیتوں (important limitations) کا پابند ہونا چاہیے۔ (صفحہ 191) ’’میں نے پایا کہ تقریباً تمام فلسفیوں نے یہ سمجھنے میں غلطی کی ہے کہ وہ کیا چیز ہے جو صرف تجربہ سے مستنبط کی جا سکتی ہے اور وہ کیا چیز ہے جو تجربہ سے مستنبط نہیں ہوتی۔‘‘ (صفحہ 194) وہ لکھتا ہے:
’’بدقسمتی سے نظری طبیعات اب اس شاندار یقین سے نہیں بولتی جس سے وہ سترہویں صدی میں کلام کر رہی تھی۔ نیوٹن کا کام چار بنیادی تصورات پر مشتمل تھا… مکان، زماں، مادہ اور طاقت۔ یہ چاروں کے چاروں جدید طبیعات میں طاق نسیاں کی نذر ہو گئے ہیں۔ مکاں اور زماں نیوٹن کے نزدیک ٹھوس اور مستقل چیزیں تھیں۔ اب وہ مکاں— زماں (space time) سے بدل گئی ہیں جو کہ (substantial) نہیں، بلکہ روابط کا ایک نظام ہے۔ مادہ نے واقعات کے ایک سلسلہ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ طاقت (force) اب انرجی (energy) بن چکی ہے، اور انرجی خود بھی ایک ایسی چیز ہے جس کو بقیہ مادہ سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ سبب (cause) جو کہ اس چیز کی فلسفیانہ شکل تھی، جس کو ماہرینِ طبیعیات فورس (force) کہتے ہیں وہ اب فرسودہ ہوچکا ہے۔ میں تسلیم نہیں کروں گا کہ یہ مر چکا ہے۔ مگر اس میں پہلے کی طرح اب قوت باقی نہیں رہی ہے۔‘‘
My Philosophical Development, p. 17
رسل اپنے بیان کے مطابق عمر بھر کی تحقیقات کے بعد آخری طور پر جس نتیجہ پر پہنچا ہے، وہ یہ ہے کہ ناقابل مظاہرہ استنباط (non-demonstratable inference) بھی معقول (valid) ہے۔ اس کے بغیر سائنس کا پورا نظام اور روزمرہ کی انسانی زندگی دونوں مفلوج ہو جائیں گے۔ (صفحہ 204)۔ اس کے نزدیک سائنس حقیقی دنیا (real world) اور اعتقادی دنیا (believed world) دونوں پر مشتمل ہے اور سائنس میں جتنی زیادہ ترقی ہوتی ہے، اس میں اعتقادیات کا جزء بڑھتا جاتا ہے۔ سائنس میں کچھ چیزیں تو مشہود حقائق (observed facts) ہیں اور اس سے اوپر کی تمام چیزیں سائنسی مجردات (scientific abstractions) ہیں جو مشاہدہ کی بنیاد پر مستنبط کیے گئے ہیں۔ کلی تشکیک (universal scepticism) کا انکار نہیں۔ مگر کلی تشکیک کو اختیار کرنا بھی مشکل ہے:
My Philosophical Development, p. 206
وہ لکھتا ہے:
’’میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ حسی حقائق (facts of sense) کو، اور اس کے ساتھ عمومی طور پر، سائنس کی سچائی کو ایک ایسی چیز کی حیثیت سے قبول کر لوں، جو فلسفی کے لیے ابتدائی مواد کا کام دے سکے۔ اگرچہ ان کا سچ ہونا قطعی یقینی (quite certain) نہیں ہے۔ یہ کسی اور چیز کے مقابلہ میں صرف ایک اونچا امکانی درجہ (higher degree of possibility) ہے جو فلسفیانہ قیاس کے لیے حاصل کی جا سکتی ہے۔‘‘
My Philosophical Development, p. 207
اب ہم رسل کا ایک اقتباس نقل کریں گے، جس سے رسل کے خیالات کی وہ تصویر مکمل ہو جاتی ہے، جو ہم یہاں بنانا چاہتے ہیں:
’’اس کو ہمیشہ سمجھا نہیں گیا ہے کہ نظری طبیعیات جو معلومات دیتی ہے، وہ کس قدر زیادہ مجرد (exceedingly abstract) ہیں۔ وہ چند خاص بنیادی مساوات (equations) مقرر کرتی ہے جو اس کو اس قابل بناتی ہیں کہ وہ واقعات کے منطقی ڈھانچہ کو بیان کر سکے، جب کہ واقعات کی باطنی حالت (intrinsic character) بالکل نامعلوم (completely unknown) ہو۔ نظری طبیعیات میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو ہمیں اس قابل بنائے کہ ہم واقعات کی باطنی حالت کے بارے میں بول سکیں۔ طبیعیات جو کچھ ہمیں دیتی ہے وہ تمام تر صرف کچھ مخصوص مساواتیں (equations) ہیں جو ان کی تبدیلیوں کی مجرد خاصیتیں (abstract properties) بتاتی ہیں۔مگر یہ کہ وہ کیا چیز ہے جو تبدیل ہوتی ہے اور کہاں سے تبدیل ہوتی ہے، اس کے بارے میں طبیعیات خاموش ہے۔‘‘
My Philosophical Development, p. 17-18
رسل اپنی کتاب ’’میرا فلسفیانہ ارتقا‘‘ (My Philosophical Development) کے باب:( non-demonstratable inference) کو حسب ذیل الفاظ پر ختم کرتا ہے:
‘‘---there is no such claim to certainty as has too often and too uselessly, been made by rash philosophers.’’ (p. 207)
یعنی اس قسم کا دعویٰ کرنے کی گنجائش نہیں ہے کہ ہم کو صداقت کا یقینی ذریعہ معلوم ہو گیا ہے جیسا کہ اکثر بے فائدہ طور پر جلد باز فلسفی کرتے ہیں۔
اس مطالعہ کے مطابق رسل کے لیے صرف دو راستے باقی رہ جاتے ہیں۔ یا تو وہ تشکیک کی پناہ گاہ میں چلا جائے، یا پھر مذہب کی صداقت کا اعتراف کر لے۔ کیونکہ جب صورت حال یہ ہے کہ ہم حقیقت کا صرف ظاہری ڈھانچہ سیکھ سکتے ہیں، اس کی اندرونی صداقت سے براہ راست طور پر واقف ہونا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے تو دو ہی صورتیں آدمی کے لیے باقی رہ جاتی ہیں۔ یا تو وہ اصرار کرے کہ وہ اسی وقت کسی بات کو مانے گا جب وہ آخری اور براہ راست طور پر اس کے ذاتی علم میں آ جائے۔ چونکہ اب تک کی تحقیقات کے مطابق اس قسم کا علم ناممکن ہے، اس لیے اسے یہ کہہ کر بیٹھ جانا چاہیے کہ ’’میں کچھ نہیں جانتا‘‘۔مگر رسل اس پوزیشن کو قبول نہیں کرتا۔ وہ کہتا ہے کہ ظاہری ڈھانچہ کی بنیاد پر اندرونی حقیقت کے بارے میں جو استنباط کیا جائے وہ بھی جائز علم کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ کہہ کر وہ مذہب کی عین سرحد کے قریب پہنچ جاتا ہے۔
کیونکہ مذہب کا کہنا بھی یہی ہے کہ انسان اپنے محدود حواس سے حقیقت کا آخری ادراک نہیں کر سکتا۔ البتہ ظاہر کائنات میں وہ جن چیزوں کا مشاہدہ کرتا ہے، ان سے یہ قیاس کر سکتا ہے کہ وہ کون سی حقیقت ہے جو اس کے پیچھے مستور ہے۔ مگر عجیب بات ہے رسل جیسا ذہین شخص تشکیک کا بھی انکار کرتا ہے اور مذہب کا بھی اور اسے یاد نہیں رہتا کہ اس طرح وہ خود اپنے مسلمات کے مطابق ایک کھلے ہوئے تضاد کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
رسل واضح طور پر تسلیم کرتا ہے کہ ایسے عقیدے (belief) بھی صحیح (valid) ہو سکتے ہیں جن کا تجربہ (experience) نہ کیا گیا ہو۔ رسل خود بھی ایسے ’’عقائد‘‘ کو مانتا ہے۔ مثال کے طور پر اس کے بیان کے مطابق، زمین کا قدیم ماضی، کائنات کے بعید ترین علاقے جن کا فلکیات میں مطالعہ کیا جاتا ہے، وغیرہ۔ یہاں میں اس کے چند فقرے اس کے اپنے الفاظ میں نقل کروں گا:
‘‘I commit myself to the view that there are valid processes of inference from events to other events ... more particularly, from events of which I am aware without inference to events of which I have no such awareness.’’ (p. 10)
یعنی میں اس نقطہ نظر کا حامی ہونے کا اعتراف کرتا ہوں کہ استنباط کے ایسے معقول طریقے ہیں جن میں بعض واقعات سے کچھ دوسرے واقعات پر استنباط کیا جاتا ہے۔ زیادہ متعین طور پر، ایسے واقعات سے جن میں کسی استنباط کے بغیر باخبر ہوں، ایسے واقعات پر جن کے بارے میں، میں اس قسم کی واقفیت نہیں رکھتا۔
رسل نے اسی بات کو دوسری جگہ ان الفاظ میں کہا ہے:
‘‘I do think that there are forms of probable inference which must be accepted although they cannot be proved by experience.’’ (p. 132)
میں خیال کرتا ہوں کہ ایسے قریب بہ صحت استنباط کے طریقے ہیں جن کو تسلیم کیا جانا چاہیے، اگرچہ وہ تجربہ سے ثابت نہیں کیے جا سکتے۔
اس صریح اعتراف کے مطابق، کم از کم رسل کے نزدیک، مذہب ایک ایسی چیز کی حیثیت نہیں رکھتا، جس کو دلیل سے ثابت نہ کیا جا سکتا ہو۔ کیونکہ یہاں وہ جس معیار استدلال کے درست (validity) ہونےکو تسلیم کر رہا ہے، یہ عین وہی معیار استدلال ہے جس کے مطابق مذہب کی صداقتوں کو ثابت کیا جاتا ہے۔
مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ رسل نے بالواسطہ طور پر یہاں تک تسلیم کیا ہے کہ مذہب کے حق میں اس نوعیت کے استنباطی دلائل بھی موجود ہیں جن کو وہ سائنٹفک استنباط کہتا ہے، مگر اس کے باوجود وہ نہایت سرسری وجوہ کا نام لے کر ان دلائل کو رد کر دیتا ہے۔
یہاں میں برٹرینڈرسل کا ایک اقتباس نقل کروں گا جو اس کی کتاب ’’میں عیسائی کیوں نہیں‘‘ سے لیا گیا ہے:
‘‘I think all the great religions of the world—Buddhism, Hinduism, Christianity, Islam, and Communism—both untrue and harmful. It is evident as a matter of logic that, since they disagree, not more than one of them can be true. With very few exceptions, the religion which a man accepts is that of the community in which he lives, which makes it obvious that the influence of environment is what has led him to accept the religion in question. It is true that Scholastics invented what professed to be logical arguments proving the existence of God, and that these arguments, or others of a similar tenor, have been accepted by many eminent philosophers, but the logic to which these traditional arguments appealed is of an antiquated Aristotelian sort which is now rejected by practically all logicians except such as are Catholics. There is one of these arguments, which is not purely logical; I mean the argument from design. This argument, however, was destroyed by Darwin; and, in any case could only be made logically respectable at the cost of abandoning God’s omnipotence.’’ (Why I am not a Christian, 1959, p. 9)
یعنی دنیا کے تمام بڑے مذاہب… بدھ ازم، ہندو مت، عیسائیت، اسلام اور کمیونزم… سب کو میں غلط (untrue) بھی سمجھتا ہوں اور مضر (harmful) بھی۔ یہ صحیح ہے کہ متکلمین نے کچھ ایسی دلیلیں ایجاد کی ہیں جن کے متعلق دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ منطقی دلائل (logical arguments) ہیں اور ان سے خدا کا وجود ثابت ہوتا ہے۔ اور یہ کہ یہ اور اسی قسم کے دوسرے دلائل کو بہت سے بڑے بڑے فلسفیوں نے قبول کیا ہے۔ مگر وہ منطق جس پر ان روایتی استدلالات کی بنیاد قائم ہے، وہ ارسطو کی قدیم منطق ہے جس کو عملاً اب تمام علمائے منطق رد کر چکے ہیں، سوائے مذہبی لوگوں کے۔‘‘
اس کے بعد رسل لکھتا ہے:
’’ان دلائل میں ایک دلیل ایسی ضرور ہے جو خالص منطقی (purely logical) نہیں ہے۔ میری مراد ہے نظم کائنات کی دلیل (argument from design) مگر ڈارون اس دلیل کو بالکل ختم کر چکا ہے۔
Why I am not a Christian, p. 9
اس اقتباس کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ نظم کائنات کی دلیل کو رسل نے منطقی طور پر ایک جائز دلیل (valid argument) تسلیم کیا ہے۔ مگر اصولی طور پر اس کی منطقی معقولیت تسلیم کرتے ہوئے رسل کا کہنا ہے کہ ڈارونزم نے اس کی استدلالی حیثیت کو برباد کر دیا ہے یا کم از کم اس کی اہمیت بہت گھٹا دی ہے۔
رسل کے اس بیان پر ہم کسی قدر وضاحت سے روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔
رسل کے اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ مذہب کا دعویٰ ہے کہ کائنات میں ایک نظم (design) پایا جاتا ہے، اور یہ نظم اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے پیچھے کوئی شعور ہو، جس نے اس کو ’’نظم‘‘ کی صورت دی ہو۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کائنات بے ترتیب ڈھیر (pile of garbage) کی شکل میں نظر آتی۔
رسل کے نزدیک یہ استدلال اصولی طور پر صحیح ہے۔ مگر پھر وہ کہتا ہے کہ ’’ڈارون نے حیاتیاتی مظاہر کے مطالعہ سے ثابت کیا ہے کہ زندگی کی مختلف اقسام جو منظم اور بامعنی شکل میں زمین پر نظر آتی ہیں وہ دراصل کروڑوں برس میں مادی حالات کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہیں۔ مثلاً زرافہ کو کسی نے پیدا نہیں کیا بلکہ بکری جیسے جانور نے طویل فطری عمل کے بعد خودبخود لمبی گردن والے زرافہ کی شکل اختیار کر لی ہے۔
یہاں مجھے ڈارونزم پر کوئی تفصیلی گفتگو نہیں کرنی ہے۔ البتہ میں یہ کہوں گا کہ رسل نے استدلال کی اصولی معقولیت تسلیم کرتے ہوئے جس بنیاد پر اس کو رد کیا ہے، وہ نہایت کمزور ہے۔
پہلی بات یہ کہ ڈارونزم ابھی تک ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے۔ اگر اس سے کچھ ثابت ہوا ہے تو صرف یہ کہ زندگی کی مختلف اقسام بیک وقت وجود میں نہیں آئیں بلکہ مختلف اقسام مختلف وقتوں میں پائی گئی ہیں۔ نیز یہ ایک خاص طرح کی زمانی ترتیب ہے۔ یعنی زندگی کی سادہ اقسام پہلے اور پیچیدہ اقسام اس کے بعد۔ مگر یہ بات آج بھی قطعی طور پر غیر ثابت شدہ ہے کہ زیادہ پیچیدہ اور بامعنی اقسام دراصل پچھلے زمانہ کی سادہ اقسام حیات ہی کی ترقی یافتہ صورتیں ہیں جو مادی عمل کے نتیجہ میں ان کے اندر سے خودبخود وجود میں آ گئیں۔ پہلی بات تو بلاشبہ مشاہدہ سے اخذ کی گئی ہے۔ مگر یہ دوسری بات قطعی طور پر علمائے ارتقا کا اپنا مفروضہ ہے جس کی بنیاد نہ حقیقۃً کسی مشاہدہ پر ہے اور نہ کسی بھی درجہ میں اس کو (demonstrate) کیا جا سکتا ہے۔ جب کہ رسل کے استدلال کا جواز اسی دوسرے پہلو کے ثبوت پر موقوف ہے۔
نظریہ ارتقا کی یہ کمزوری خود ارتقا پسند علما ء تسلیم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر سر آرتھر کیتھ نے کہا ہے:
‘‘Evolution is unproved and unprovable. We believe it only because the only alternative is special creatian, and that is unthinkable.’’ (Fred John Meldau: Why We Believe in Creation Not Evolution, 1959, p. 8)
اسی لیے ارتقا کے مسئلہ کو دو اجزا ء میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ نظریہ ارتقا، اور دوسرے سبب ارتقا۔ کہا جاتا ہے کہ نظریہ ارتقا تو یقینی ہے۔ البتہ سبب ارتقا ابھی تک لامعلوم ہے۔ اس تقسیم کو ہم زیادہ بہتر طور پر نظریہ ارتقا، دلیل ارتقا کے الفاظ میں بیان کر سکتے ہیں۔ کیونکہ جب تک اسباب معلوم نہ ہوں۔ یہ نظریہ یقینی کیسے ہو جائے گا۔ گویا نظریہ ارتقا ایک ایسا نظریہ ہے جس کی دلیل تو ابھی دریافت نہیں ہوئی مگر اس کے باوجود وہ ارتقا پسند علما کے نزدیک ثابت شدہ نظریہ کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔
ایسے کمزور نظریہ کے حوالہ سے یہ کہنا کہ اس نے مذہب کے استدلال کو برباد کر دیا ہے کس قدر بے بنیاد بات ہے۔
دوسرے یہ کہ بالفرض انواع حیات ارتقا کے عمل ہی کے تحت وجود میں آئی ہوں، جب بھی اس سے رسل کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ رسل کے دعویٰ کو صحیح ماننے کے لیے اس مفروضہ کو ماننا بھی ضروری ہے کہ خدا کوئی ایسا ہی وجود ہو سکتا ہے جو یکایک پھونک مار کر پیدا کر دیا کرے۔ اس کا طریقِ تخلیق یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ لمبی مدت کے اندر کسی چیز کو وجود بخشے۔ حالانکہ نہ صرف یہ کہ اس مفروضہ کے لیے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے، بلکہ اس سے خود خدا کی قدرت مطلقہ کی نفی بھی نہیں ہوتی۔
انسان ہمیشہ سے یہ مانتا رہا ہے کہ درخت اور انسان کو پیدا کرنے والا قادر مطلق خدا ہے۔ مگر یہ مشاہدہ اس کے اس عقیدہ کو متزلزل کرنے والا ثابت نہ ہوسکا کہ بچہ چالیس برس میں پورا انسان بنتا ہے اور درخت آدھی صدی اور ایک صدی میں مکمل ہوتا ہے۔ خدا کی قدرت کاملہ پر ایمان لانے کے لیے اس نے کبھی ضروری نہیں سمجھا کہ درخت اور انسان یکایک پورے درخت اور پورے انسان کی شکل میں ظاہر ہو جایا کریں۔ اسی طرح اگر آئندہ کوئی تحقیق یہ ثابت کرے کہ زندگی کے مظاہر اچانک دنیا میں موجود نہیں ہو گئے ہیں، بلکہ لمبے ارتقائی عمل سے گزرنے کے بعد وجود میں آئے ہیں تو اس میں مذہب پر نظرثانی یا اس کی تردید کا سوال آخر کس لیے پیدا ہو جائے گا۔