انسان جس کو سائنس دریافت نہ کر سکی

جدید سائنس داں طویل تجربے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ جس طرح ہم بے جان مادہ کے مطالعہ میں کامیاب ہوئے ہیں، اسی طرح ہم انسان کے متعلق حقائق کو دریافت نہیں کر سکتے۔ جامد مادے کے علوم اور حیاتیاتی علوم کے درمیان یہ فرق ہے کہ جامد مادہ ایک متعین قانون کا پابند ہے۔ جب کہ حیاتیاتی مظاہر گویا ’’طلسماتی جنگل ہیں جہاں رنگ برنگ کے بے شمار درخت مسلسل طور پر اپنی جگہ اور اپنی شکل بدلتے رہتے ہیں ‘‘ مادی مظاہر کے برعکس حیاتیاتی مظاہر کو جبر و مقابلہ کی مساواتوں میں تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ مادی دنیا کا علم بھی اب تک صرف وصفی علم (descriptive science) کے مقام تک پہنچا ہے جو درحقیقت سائنس کی ایک ادنی شکل ہے۔ کیونکہ یہ علم چیزوں کی اصل نوعیت کو ہمارے اوپر بے نقاب نہیں کرتا، بلکہ یہ اس کے چند ظاہری اوصاف مثلاً وزن اور مکانی ابعاد (Spatial Dimensions) وغیرہ کو بیان کرتا ہے تاہم اس علم کی بدولت یہ ہوا ہے کہ ہم میں اتنی طاقت پیدا ہو گئی ہے کہ آئندہ ہونے والے واقعات کے متعلق پیش گوئی کر سکیں بلکہ اکثر حالات میں ان کے ٹھیک ٹھیک واقع ہونے کی تاریخ کا تعین کر سکیں۔ مادہ کی ترکیب اور اس کی خصوصیات جان لینے کے بعد ہم کو اپنی ذات کے علاوہ تقریباً ہر اس چیز پر قابو حاصل ہو گیا ہے جو زمین کی سطح پر موجود ہے۔ جانداروں کے علم نے بالعموم اور انسان کے علم نے بالخصوص اتنی زیادہ ترقی نہیں کی ہے، یہ علم اب تک صرف وصفی حالت میں ہے جبکہ ذی حیات اشیاء کی اصل حقیقت ان کی غیر وصفی ہونا ہے۔

یہاں میں الکسس کیرل کا ایک اقتباس نقل کروں گا:

’’انسان ایک انتہائی پیچیدہ اور ناقابل تقسیم کُل ہے۔ کوئی چیز بھی آسانی کے ساتھ اس کی نمائندگی نہیں کر سکتی۔ کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے جس کے ذریعہ ہم بیک وقت اس کی پوری ذات کو اس کے اجزاء اور بیرونی دنیا کے ساتھ اس کے تعلقات کو بخوبی سمجھ سکیں۔ اپنی ذات کا تجزیہ کرنے کے لیے ہم کو مختلف فنی مہارتوں سے مدد لینی پڑتی ہے۔ اور اس طرح مختلف علوم سے کام لینا ہوتا ہے۔ فطری طور پر یہ تمام علوم اپنے کسی عام مقصد کے متعلق کسی ایک متحدہ تصور پر نہیں پہنچتے۔ وہ انسان سے صرف انہیں چیزوں کی تجرید کرتے ہیں جو ان کے خاص طریقوں سے حاصل ہو سکتی ہے اور ان مجردات کو ایک دوسرے سے ملا بھی دیا جائے تو وہ ایک ٹھوس حقیقت سے بھی کم قیمتی ہوتے ہیں۔ ان مجردات کے بعد بھی ایک ایسی ذات باقی رہتی ہے جو بہت ہی اہم ہوتی ہے اور اس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ علم تشریح، کیمیا، فعلیات، نفسیات، تعلیمات، تاریخ، سماجیات، سیاسی اقتصادیات اپنے موضوع کو پورے طور پر ختم نہیں کرتے۔ وہ انسان جس سے خصوصی ماہرین آشنا ہیں، حقیقی، انسان سے بہت دور ہوتا ہے۔ وہ ایک مفروضہ کے سوا اور کچھ نہیں جو مختلف مفروضات پر مشتمل ہے اور جن کو ہر ایک علم کی فنی مہارتوں نے پیدا کیا ہے۔

انسان بیک وقت ایک لاش ہے، جس کو تشریح کا عالم چیرتا پھاڑتا ہے، وہ ایک شعور ہے جس کا ماہرین نفسیات اور بڑے بڑے روحانی اساتذہ مشاہدہ کرتے ہیں۔ وہ ایک شخصیت ہے جس کے اندر دیکھنے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اس کی ذات کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہے، وہ کیمیائی مادہ بھی ہے جس سے جسم کی نسیجیں اور خلطیں بنتی ہیں۔ وہ خلیوں اور تغذیاتی رطوبتوں کا ایک حیرت انگیز گروہ ہے جن کے جسمانی قوانین کا مطالعہ ماہرین فعلیات کرتے ہیں، وہ نسیجوں اور شعور سے مرکب ہے جس کو حفظان صحت اور تعلیمات کے ماہرین، جب کہ وہ زمان کے اندر پھیل رہا ہو، امید افزا ترقی دینے کی کوشش کرتے ہیں، وہ ایک گھریلو اقتصادیات کا حامل ہے جس کا کام پیدا کی ہوئی چیزوں کو استعمال کرتے رہنا ہے تاکہ مشینیں جن کا وہ غلام بن گیا ہے، برابر کام کرتی رہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ وہ ایک شاعر، سورما اور ولی بھی ہے، وہ نہ صرف ایک انتہائی پیچیدہ ہستی ہے جس کا تجزیہ سائنس کی فنی مہارتوں کے ذریعہ کیا جا رہا ہے بلکہ وہ انسانیت کے رجحانات، قیاسات اور آرزوئوں کا مرکز ہے۔ بلاشبہ انسانیت نے اپنی حقیقت کو معلوم کرنے کی بڑی زبردست کوشش کی ہے۔ اگرچہ ہمارے پاس تمام زمانوں کے سائنس دانوں فلسفیوں، شاعروں اور بڑے بڑے صوفیوں کے مشاہدات کا ایک انبار موجود ہے مگر ہم اپنی ذات کے صرف چند پہلوئوں کو دریافت کر سکے ہیں، ہم انسان کو اس کی کلی حیثیت میں بخوبی سمجھ نہیں سکے ہیں۔ ہم اس کو الگ الگ حصوں سے مرکب جانتے ہیں اور یہ حصے بھی ہمارے اپنے طریقوں کے پیدا کردہ ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص ایک خیالی پیکر ہے جس کے اندر سے ایک نامعلوم حقیقت جھلک رہی ہے۔

حقیقت میں ہماری ناواقفیت بہت گہری ہے۔ وہ لوگ جو انسانی ہستیوں کا مطالعہ کرتے ہیں، اپنے آپ سے بہت سے ایسے سوالات کرتے ہیں جن کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ہماری اندرونی دنیا کے وسیع علاقے اب تک نامعلوم ہیں۔ خلیے کے پیچیدہ اور عارضی اعضاء کے بنانے کے لیے کس طرح کیمیائی مادوں کے سالمے (molecules) باہم مل جاتے ہیں، ترو تازہ بیضہ کی نواۃ (nucleus) کے اندر کے نسلی مادے کس طرح اس فرد کی خصوصیات کا فیصلہ کرتے ہیں جو اس بیضہ سے پیدا ہوتا ہے، کس طرح خلیے خود اپنی کوششوں سے نسیجوں اور اعضاء جیسے گروہوں میں منظم ہو جاتے ہیں۔ چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں کی طرح ان خلیوں کو پہلے ہی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اپنے گروہ کو زندہ رکھنے میں انہیں کیا کام کرنا ہے۔ اور چھپی ہوئی بناوٹوں کے ذریعہ وہ ایک ایسے نظام جسمانی کے بنانے کے قابل ہوتے ہیں جو سادہ اور پیچیدہ دونوں ہوتا ہے۔ ہماری مدت (Duration) فعلیاتی وقت (Physiological Time) اور نفسیاتی وقت (Psychological Time) کی نوعیت کیا ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم نسیجوں، اعضاء، رطوبتوں اور شعور سے مرکب ہیں۔ لیکن شعور اور دماغ کے درمیانی تعلقات اب تک ایک راز بنے ہوئے ہیں۔ ہم کو اعصابی خلیوں کے فعلیات کا پورا پورا علم حاصل نہیں۔ ارادی قوت کس حد تک نظام جسمانی میں تبدیلیاں پیدا کرتی ہے، کس طرح دماغ اعضاء کے حالات سے متاثر ہوتا ہے، طرز زندگی غذا کے کیمیائی مادوں، آب و ہوا اور فعلیاتی اور اخلاقی تربیتوں کے ذریعہ کس طرح جسمانی اور دماغی خصوصیات میں جو بطور وراثت ہر ایک فرد کو ملتی ہیں، تبدیلیاں پیدا کی جا سکتی ہیں۔

ہم یہ بھی نہیں جان سکتے کہ ڈھانچہ، عضلات اور اعضاء اور دماغی اور روحانی سرگرمیوں کے درمیان کس قسم کے تعلقات ہیں۔ ہم ان اسباب سے ناواقف ہیں جن کی بنا پر اعصابی توازن اور تکان اور بیماریوں کی مدافعت پیدا ہوتی ہے، ہم نہیں جانتے کہ اخلاقی احساس، قوت فیصلہ اور جرأت کو کس طرح ترقی دی جا سکتی ہے۔ ذہنی، اخلاقی اور صوفیانہ سرگرمیوں کی اضافی اہمیت کیا ہے، جمالیاتی اور مذہبی احساس کی ضرورت کیا ہے، کس قسم کی قوت سے اشراقی تعلقات کا ظہور ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض فعلیاتی اور دماغی اسباب خوشی یا تکلیف، کامیابی یا ناکامی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ وہ اسباب کیا ہے۔ ہم کسی فرد کے اندر مصنوعی طور پر خوشی کا چسکہ نہیں پیدا کر سکتے۔ اب تک ہم اس کو نہیں جان سکے کہ متمدن آدمی کی امید افزا ترقی کے لیے کس قسم کا ماحول زیادہ مناسب ہے، کیا ہماری فعلیاتی اور روحانی ساخت سے کش مکش، محنت اور تکلیف کو دور کرنا ممکن ہے، موجودہ تمدن میں ہم انسان کو زوال پذیر ہونے سے کس طرح روک سکتے ہیں۔ ان باتوں کے متعلق جو ہماری انتہائی دلچسپی کا باعث ہیں، بہت سے دوسرے سوالات کیے جا سکتے ہیں۔ ان کا کوئی جواب نہیں دیا جا سکتا۔ یہ صاف ظاہر ہے کہ انسان کے متعلق تمام علوم کی مہارت بھی ناکافی ہے اور یہ کہ اپنی ذات کے متعلق ہمارا علم اب تک ابتدائی حالت میں ہے۔

Man, the Unknown, pp. 16-19

یہ اقتباس یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ ’’انسان‘‘ کا علم ابھی تک انسان کو حاصل نہیں ہوا۔ انسانی وجود کے مادی حصہ کے بارے میں تو ہم بہت کچھ جانتے ہیں۔ مگر وہ انسان جو اس مادی وجود کو کنٹرول کرتا ہے اس سے ہم قطعاً لاعلم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ زندگی اب تک ہمارے لیے ایک راز بنی ہوئی ہے اور جب تک یہ راز نہ کھلے زندگی کی صحیح تعمیر و تشکیل ممکن نہیں۔ الکسس کیرل کی کتاب اسی ’’انسان نامعلوم‘‘ کو دریافت کرنے کی ایک سائنٹفک کوشش ہے۔ اس طرح کی کوششیں موجودہ زمانہ میں بہت بڑے پیمانہ پر جاری ہیں۔ مگر اب تک کا نتیجہ صفر کے سوا اور کچھ نہیں۔

آج کا انسان ایٹم توڑ سکتا ہے۔ برفیلے علاقوں میں آبادیاں قائم کر سکتا ہے۔ وہ خلاء کے دوسرے سیاروں تک سفر کے منصوبے بنا رہا ہے۔ اس طرح کے ہزاروں واقعات ہیں جن کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح انسان نے مادی دنیا سے واقفیت حاصل کر لی ہے اور اس کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر رہا ہے اسی طرح وہ اپنے آپ کو بھی جان سکتا ہے اور اپنے معاملات کو درست کر سکتا ہے مگر خود ہماری معلوم دنیا کے اندر اس بات کے اشارے موجود ہیں کہ ہم جس طرح مادے کے اوصاف کو معلوم کر لیتے ہیں، اسی طرح ہم انسان کو سمجھ نہیں سکتے۔

جس وجود کو ہم ’’انسان‘‘ کہتے ہیں، وہ پروٹو پلازم کے بنے ہوئے کروڑوں خلیوں پر مشتمل ایک جسم ہے۔ پروٹو پلازم کیا ہے؟وہ غیر ذی روح اشیاء کا ننھا سا مرکب ہے جس کے اندر روح پذیری کی غیر معمولی صلاحیت ہوتی ہے۔ سادہ لفظوں میں وہ زندگی کی اکائی ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح ہم مادی دنیا کو سمجھنے کے لیے اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح ہم پروٹو پلازم کا مطالعہ نہیں کر سکتے۔

وہ سب کچھ جس کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں وہ کچھ چیزوں کا مرکب ہی ہوتا ہے۔ اگر وسائل و ذرائع حاصل ہوں تو ہم اس طرح کے تمام مرکبات کو وجود میں لا سکتے ہیں اور اسے ختم بھی کر سکتے ہیں۔ اسی بنیاد پر جرمن فلسفی کانٹ نے 1755ء میں کہا تھا۔ ’’مجھے مادہ مہیا کرو اور میں تم کو بتا دوں گا کہ دنیا اس مادہ سے کس طرح بنائی جاتی ہے۔‘‘ یاہیکل (Heackel) نے دعویٰ کیا کہ ’’پانی، کیمیائی اجزاء اور وقت ملے تو وہ ایک انسان کی تخلیق کر سکتا ہے۔‘‘مثلاً پانی کے متعلق معلوم ہو چکا ہے کہ اس کا ایک سالمہ (molecule) آکسیجن کے ایک ایٹم اور ہائیڈروجن کے دو ایٹم سے مرکب ہوتا ہے۔ یہ بالکل ہمارے بس میں ہے کہ ہم ان گیسوں کو اسی تناسب سے ملا کر پانی کی شکل دے دیں۔ یا پانی کے سالموں کو توڑ کر دوبارہ آکسیجن اور ہائیڈروجن میں تبدیل کر دیں۔ مگر انسان کا معاملہ اس سے مختلف ہے، سائنس نے وہ اجزاء معلوم کر لیے ہیں جو پروٹو پلازم میں پائے جاتے ہیں اور ان کے مخصوص تناسب بھی دریافت ہو چکے ہیں۔ مگر انسان یہ نہیں کر سکتا کہ ان اجزاء کو اسی مخصوص ترتیب سے ملا کر زندگی پیدا کر دے۔ پروٹو پلازم کے اجزائے ترکیبی کے درمیان جو تناسب ہے، ٹھیک اسی تناسب سے ان اجزاء کو ملایا جاتا ہے۔ لیکن وہ پروٹو پلازم نہیں بنتا جو ذی روح ہو۔ حالانکہ دوسرے کیمیاوی مرکبات ان کے اجزائے ترکیبی کو اسی نسبت سے ملانے پر بن جاتے ہیں۔ گویا ہم جس طرح مادی اشیاء میں تصرف کرکے مادی واقعات کو وجود میں لاتے ہیں، ٹھیک اسی طرح ہم انسان کے اوپر تصرف کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔

یہ انسان کے سلسلہ میں ہماری پہلی عاجزی ہے جس کا اعتراف کرنے پر ہم مجبور ہیں۔ دوسری اس سے بڑی چیز یہ ہے کہ انسان کے سلسلہ میں ہمارا تمام طبیعیاتی مطالعہ انسان مردہ کا مطالعہ ہے، انسان زندہ کا مطالعہ کرنے کی صلاحیت ہم اپنے اندر نہیں رکھتے۔ سائنس نے وہ اجزاء معلوم کر لیے ہیں جو پروٹو پلازم میں پائے جاتے ہیں اور ان کا مخصوص تناسب بھی معلوم ہو چکا ہے لیکن یہ دریافت نہ ہو سکا کہ ان کے درمیان وہ کون سی مخصوص ترتیب ہے جس کے قائم رہنے سے پروٹو پلازم ذی روح بنا رہتا ہے اور جہاں یہ ترتیب بگڑی، ذی روح پروٹو پلازم غیر ذی روح ہو جاتا ہے۔ گویا اصل میں وہ مخصوص ترتیب ہی ہے جو پروٹو پلازم میں روح کی موجودگی کی ذمہ دار ہے مگر مشکل یہ ہے کہ اس مخصوص ترتیب کو باقی رکھتے ہوئے پروٹو پلازم کا تجزیہ کرنے کے لیے لازمی طور پر اس کی کیمیاوی ترتیب کو توڑنا پڑتا ہے اور جوں ہی ہم ایسا کرتے ہیں اس کے اندر سے زندگی رخصت ہو جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جب بھی پروٹو پلازم کا کیمیاوی تجزیہ کیا جاتا ہے تو یہ وہی وقت ہوتا ہے جب کہ پروٹو پلازم سے اس کی روح نکل جاتی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کیمیائی تجزیہ کیا جا رہا ہو اور پروٹو پلازم میں روح موجود ہو۔ اور ظاہر ہے کہ جب تک ایسا نہ ہوگا، یعنی روح کی موجودگی میں تجزیہ نہ کیا جائے گا زندگی کی حقیقت معلوم کرنے کے بارے میں سائنس ہمیشہ اندھیرے میں رہے گی۔

مگر ہماری مشکل یہیں ختم نہیں ہوتی۔ وہ اس سے بہت آگے جاتی ہے۔ فرض کیجیے ایک شخص اپنے ذمہ یہ کام لیتا ہے کہ وہ انسانیت کی حقیقت کو معلوم کرے گا، اور انسان کو بتائے گا کہ زندگی کا قانون کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ انسانی آبادیوں سے اپنے مطالعہ کا آغاز کرتا ہے۔ لمبے عرصے تک مختلف سماجوں کی چھان بین کرنے کے بعد اس کو محسوس ہوتا ہے کہ سماج تو انسانوں کے مجموعہ کا نام ہے۔ اس لیے جب تک ہم فرد کو سمجھ نہ لیں، جماعت کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں۔ اب وہ معاشرہ کو چھوڑ کر انسان کا مطالعہ شروع کرتا ہے۔ اس سلسلہ میں وہ سب سے پہلے نفسیات کی طرف رخ کرتا ہے، یہاں وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کا کوئی ایک فکر نہیں بلکہ اس کی بہت سی شاخیں ہیں اور سب کے نتائج تحقیق الگ الگ ہیں۔ نفسیات کی ایک شاخ کا دعویٰ ہے کہ انسان کے تمام اعمال کا مرکز اس کا احساس ہے۔ کسی کا کہنا ہے کہ انسان خارجی دنیا سے شعوری یا غیر شعوری طور پر جو تاثر قبول کرتا ہے، اس کا ہر کام اسی کا ردعمل ہے، کوئی جنسی خواہشات کو اس کے تمام اعمال کا محرک بتاتا ہے، کسی کا مطالعہ یہ ہے کہ اپنے آئیڈیل کو پا لینے کا نامعلوم جذبہ انسان کو متحرک کیے ہوئے ہے۔ کوئی مکتب فکر شعور کو اصل قرار دیتا ہے۔ اور اسی کی روشنی میں انسان کی پوری ہستی کی تشریح کرتا ہے۔ اور کوئی اس بات کا قائل ہے کہ عقل اور ذہن کوئی چیز نہیں۔ انسان کے مختلف اعضاء کی عنان کسی ایک مرکزی قوت کے ہاتھوں میں نہیں ہے بلکہ انسان جس حصہ جسم پر زیادہ توجہ دیتا ہے اس کی نشو و نما بہتر طریقہ سے ہو جاتی ہے۔ اس کے نتیجہ میں کوئی اچھا رقاص بن جاتا ہے، کوئی اچھا مفکر۔ نفسیات کا یہ اختلاف اس حد تک بڑھا ہوا ہے کہ بعض سرے سے اس واقعہ کا انکار کرتے ہیں کہ اس نام کا کوئی علم (science) فی الواقع موجود ہے۔

خیالات کے اس جنگل کو دیکھ کر وہ سوچتا ہے کہ انسانی وجود کے دوسرے حصے، حیاتیات، کا مطالعہ کرے تاکہ دونوں کے نتائج کو ملا کر کوئی رائے قائم کی جا سکے۔ جب انسان کو وہ اس حیثیت سے دیکھتا ہے تو اسے نظر آتا ہے کہ انسان، نظام ہضم، نظام تنفس، نظام دوران خون وغیرہ کا ایک مجموعہ ہے۔ ان نظاموں کی بنیاد چند کیمیاوی تبدیلیوں پر ہے جو کچھ کیمیاوی اشیاء اور ان کے آپس کے عمل اور ردعمل سے پیدا ہوتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جسم کا سارا نظام کیمیائی تحلیل (metabolism) کا ہی ایک پیکر ہے۔

اب وہ غور کرتا ہے تو اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ جب جسم انسانی کا وجود اور اس کا نشو و نما کیمیاوی ردوبدل کا مرہون منت ہے تو پہلے کیمیاوی تبدیلیوں کے اصولوں کو ہی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ اس کے بغیر انسان کے بارے میں حقیقی اور قابل اطمینان معلومات نہ مل سکیں گی۔ اس لیے اب وہ کیمیا اور طبیعیات کا مطالعہ کرنے لگتا ہے اور اس میں ایک عمر کھپا دیتا ہے۔

کیمیا اور طبیعیات کا مطالعہ اسے مالے کیول اور ایٹم کے مطالعہ تک لے جاتا ہے اور پھر وہ ایٹم کے اجزائے ترکیبی الیکٹران اور پروٹان وغیرہ کا مطالعہ شروع کر دیتا ہے جس کے بعد اس کو معلوم ہوتا ہے کہ ساری کائنات برقی لہروں کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس طرح مطالعہ کرتے کرتے بالآخر وہ جدید سائنس کے آخری شعبے، نیوکلیئر سائنس میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس طرح معلومات کا عظیم دفتر جمع کرنے کے باوجود وہ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچتا۔ اور جو شخص انسان کی حقیقت معلوم کرنے اور اس کے قانون وضع کرنے چلا تھا، وہ ایک ایسی دنیا میں گم ہو جاتا ہے جو نظر آنے کے باوجود نظر نہیں آتی۔ ڈاکٹر جوڈ (Joad) کے الفاظ میں:

’’جدید مادہ ایک ایسی بے حقیقت چیز ہے جو ہاتھ نہیں آ سکتی۔ یہ فاصلہ اور وقت کے مرکب کا ایک ابھار، برقی رو کا ایک جال ہے۔ یا امکان کی ایک لہر ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے فنا کے اندر کھو جاتی ہے۔ اکثر اوقات اسے مادے کی بجائے دیکھنے والے کے شعور کا ایک پھیلائو سمجھا جاتا ہے۔‘‘

زندگی کے راز کو مادی علوم میں تلاش کرنے کا یہ عبرت ناک انجام بتاتا ہے کہ زندگی کا راز انسان کے لیے ناقابل دریافت ہے۔ اب جس طرح ایک بیمار شخص کی یہ معذوری کہ وہ خود اپنا علاج نہیں کر سکتا، اس کو یہ ماننے پر مجبور کرتی ہے کہ اس کو ایک ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔ اسی طرح نظام فطرت میں انسان کا ایک چیز کے لیے ضرورت مند ہونا اور پھر اس ضرورت کی تکمیل کے لیے کافی صلاحیت نہ رکھنا اس بات کا اشارہ ہے کہ اس کے لیے وہ اپنے اس خدا کا محتاج ہے جس نے اسے موجودہ شکل میں بنایا ہے۔ جس طرح خدا نے اسے آکسیجن کا محتاج بنایا ہے اور پھر آکسیجن بے حساب مقدار میں سارے کرہ ارض کے گرد پھیلا دی۔ اسی طرح اس نے انسان کو زندگی کی حقیقت جاننے کا محتاج بنایا اور پھر اپنے نبیوں کے ذریعہ زندگی کی حقیقت واضح فرمائی۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom