قدرت کا سبق

جانوروں کے دو سب سے بڑے مسئلے ہیں۔ غذا اور دفاع ۔ جانوروں میں ایک دوسرے کے دشمن ہوتے ہیں اور ہر جانور کو مستقل طور پر اپنے بچاؤ کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ جانوروں میں اپنے بچاؤ کے جو طریقے رائج ہیں وہ انسان کے لیے بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ حیوانات کا طریقہ در اصل قدرت کا طریقہ ہے۔ حیوانات جو کچھ کرتے ہیں اپنی جبلت کے تحت کرتے ہیں۔ بالفاظ دیگر، وہ براہ راست قدرت کے سکھائے ہوئے ہیں۔ جانور گویا قدرت کے مدرسہ میں تربیت پائے ہوئے طالب علم ہیں۔ ان کا عمل قدرت کا بتایا ہوا سبق ہے۔ ان کے طریق کار کو پیدا کرنے والے کی تصدیق حاصل ہے۔ اس سلسلہ میں چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں ۔

1۔ ہاتھی اور شیر جنگل کے دو سب سے بڑے جانور ہیں۔ اگر دونوں میں ٹکراؤ ہو جائے تو یہ ٹکراؤ  دونوں کے لیے مہلک ہوتا ہے، ہاتھی اور شیر دونوں اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔ اس لیے وہ ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ ایک دوسرے سے کترا کر نکل جائیں۔ بہت ہی کم ایسا ہوتا ہے کہ دونوں یہ نوبت آنے دیں کہ ان کے در میان براہ راست جنگ شروع ہو جائے۔ دو ایسے حریفوں کی جنگ جن میں دونوں میں سے کوئی دوسرے کو فنا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو ہمیشہ دو طرفہ تباہی پر ختم ہوتی ہے۔ اور شیر اور ہاتھی اپنی زندگی میں اس کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہیں۔

2 ۔ یہی معاملہ سانڈ کا ہے۔ دو سانڈ (بھینسے یا بیل ) اگر ایک دوسرے سے لڑ جائیں تو اس کا بہت کم امکان ہے کہ ایک دوسرے کو ختم کر دے۔ سانڈ ایسے بے فائدہ ٹکراؤ سے بچنے کے لیے یہ تدبیر کرتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے حدود بانٹ لیتے ہیں۔ دو سانڈ ایک علاقہ میں پہنچ جائیں تو چلتے چلتے جب کسی مقام پر دونوں کی مڈ بھیڑ ہوتی ہے تو دونوں ایک دوسرے کو سینگ مار کر علامتی طور پر اظہار کرتے ہیں کہ یہاں سے ایک طرف تمھارا علاقہ ہے اور یہاں سے دوسری طرف میرا علاقہ ۔ اس علامتی تکرار کے بعد دونوں اپنے پیچھے کی طرف لوٹ جاتے ہیں اور اس کے بعد دونوں مکمل طور پر اس سرحدی تقسیم کی پابندی کرتے ہیں۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ دو سانڈ آپس میں لڑ جائیں۔

3۔ آپ نیلی گھوڑی یا بیر بہوٹی کو چھوئیں تو وہ پاؤں سمیٹ کر بے حس و حرکت زمین پر پڑ جائے گی۔ بہت سے جانوروں کے لیے اپنے دشمن سے بچنے کا یہ آسان طریقہ ہے۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ دشمن سر پر آ گیا ہے اور اس سے بھاگنا ممکن نہیں ہے تو وہ اپنے کو بے حس و حرکت بنا لیتے ہیں۔ ان کا دشمن ان کو دیکھتا ہے مگر وہ مردہ سمجھ کر ان کو چھوڑ دیتا ہے۔ وہ اپنے کو غیر موجود ظاہر کر کے اپنے کو دشمن سے بچالیتے ہیں اور جب دشمن ہٹ جاتا ہے تو بھاگ جاتے ہیں۔

4۔ جو جانور بلوں کے اندر رہتے ہیں ان کے لیے ہمیشہ یہ خطرہ ہوتا ہے کہ ان کا دشمن ان کی بل کے اندر گھس جائے اور دشمن سے وہ اس طرح گھر جائیں کہ بل کے محدود رقبہ کی وجہ سے وہ بھاگ نہ سکیں ۔ چنانچہ بل والے جانور ہمیشہ اپنی بل میں ایک عقبی گزرگاہ رکھتے ہیں جو ہنگامی حالات میں کام آسکے ۔ جب بھی کوئی جانور دیکھتا ہے کہ سامنے کے سوراخ سے اس کا دشمن اس کے گھر میں گھس آیا ہے، وہ پیچھے کے سوراخ سے نکل کر باہر بھاگ جاتا ہے اور دشمن کی زد سے اپنے کو بچالیتا ہے۔

5۔ ایک بہت چھوٹا کیڑا ہے۔ وہ اپنے حریف کیڑے کو ختم کرنے کے لیے بہت دلچسپ طریقہ اختیار کرتا ہے۔ وہ اپنے حریف کیڑے کے جسم میں اپنا ڈنک چبھاتا ہے جو انجکشن کی سوئی کی مانند ہوتا ہے یعنی نکیلا اور اندر سے سوراخ دار وہ نہایت پھرتی سے اپنے بے حد چھوٹے انڈے کو اس کے جسم میں داخل کر دیتا ہے۔ یہ انڈا جو در اصل زندہ بچے کی ابتدائی صورت ہوتی ہے، اپنے میزبان جانور کے جسم کا اندرونی حصہ کھاتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ لا روا (چھوٹے بچہ) کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اب یہ لاروا باہر نکلنے کے لیے زور کرتا ہے۔ میزبان جانور کے لیے یہ سخت ترین لمحہ ہوتا ہے مگر وہ ایک ایسے دشمن کے مقابلہ میں اپنے کو بے بس  پاتا ہے جو خود اس کے پیٹ میں گھسا ہوا ہو۔ اس طرح لار و از ور کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے میزبان جانور کے جسم کو پھاڑ کر باہر آ جاتا ہے۔ یہ عمل اتنا شدید ہوتا ہے کہ اس کے بعد میزبان جانور کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

 قدرت کے تربیت یافتہ حیوانات میں بچاؤ کے جو طریقے رائج ہیں وہی انسان کے لیے بھی پوری طرح کا رآمد ہیں۔ انسان کے لیے بھی اپنے حریف کے مقابلہ میں بہترین تدبیر یہ ہے کہ وہ براہ راست تصادم سے بچے اور کترا کر نکلنے کی کوشش کرے۔ حریف کو کبھی یہ محسوس کرنے کا موقع نہ دیا جائے کہ آپ اس کے دائرہ میں مداخلت کر رہے ہیں۔ اگر حریف کا سامنا ہو جائے تو اس کے مقابلہ میں اپنے کو غیر فعال ظاہر کر کے اپنے کو اس کی زد سے ہٹا لیا جائے یا اپنے دائرہ میں سمٹ کر اس کو یہ احساس دلایا جائے کہ میری وجہ سے تمھارا کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ۔ اسی کے ساتھ ایسی تدبیروں کا اہتمام کیا جائے جن کے ذریعہ ہنگامی حالات میں دشمن کا وار خالی دیا جا سکے۔ اور اگر حریف کے خلاف کا رروائی کرنا ضروری ہو تو بہترین طریقہ یہ ہے کہ حریف کے اپنے جسم میں اس کا ایک ’’عدو‘‘ داخل کر دیا جائے جس کی غذا حریف کا جسم ہو۔ وہ اس کو خاموشی کے ساتھ کھاتا رہے ، یہاں تک کہ اندر ہی اندر دشمن کا خاتمہ کر دے ۔

 جانوروں نے اپنے بچاؤ کے یہ اصول خود نہیں بنائے ، وہ ان کو خدا نے سکھائے ہیں۔ ان طریقوں کو خدا وندی تصدیق حاصل ہے۔ پھر یہ کہ جانوروں کی دنیا میں اس قسم کی دفاعی تدبیریں کسی بزدلی کی بنا پر نہیں ہیں بلکہ خالص حقیقت پسندی کی بنا پر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ غیر ضروری ٹکراؤ سے بچ کر اپنی خود تعمیری کے عمل کو جاری رکھا جائے۔ کوئی جانور چارہ کی تلاش میں جا رہا ہے۔ کوئی اپنے جوڑے سے ملنے کے لیے سفر کو رہا ہے۔ کوئی اپنا گھر بنانے کی جد و جہد میں مصروف ہے۔ کسی کو اپنے بچوں کی پر ورش کرنے کے لیے موقع درکار ہے۔ ایسی حالت میں اس کی اپنے دشمن سے مڈ بھیڑ ہو جاتی ہے۔ اب اگر جانور اپنے حریف سے لڑائی شروع کر دے تو اس کا اپنی تعمیر کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جانور حریف کے براہ راست تصادم سے گریز کرتا ہے، الّا یہ کہ وہ مجبوراً اس میں گرفتارہو جائے۔ وہ اپنے تعمیری کام کو جاری رکھنے کی خاطر تصادم سے بچ کر یہ طریقہ جو حیوانات جبلت کے تحت اختیار کرتے ہیں وہی انسان کو شعوری طور پر انجام دینا ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom