چھوٹے شر کو نظر انداز کرو

عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْخَطْمِيِّ، أَنَّ جَدَّهُ عُمَيْرَ بْنَ حَبِيبِ بْنِ خُمَاشَةَ، وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم عِنْدَ احْتِلَامِهِ، أَوْصَى وَلَدَهُ، فَقَالَ يَا بَنِيَّ، إِيَّاكُمْ وَمُجَالَسَةَ السُّفَهَاءِ، فَإِنَّ مُجَالَسَتَهُمْ دَاءٌ، مَنْ يَحْلُمُ عَنِ السَّفِيهِ يُسَرُّ، وَمَنْ يُجِبْهِ يَنْدَمُ، وَمَنْ لَا يَرْضَى بِالْقَلِيلِ مِمَّا يَأْتِي بِهِ ‌السَّفِيهُ ‌يَرْضَى بِالْكَثِيرِ، وَإِذَا أَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْمُرَ بِمَعْرُوفٍ أَوْ يَنْهَى عَنْ مُنْكَرٍ فَلْيُوَطِّنْ نَفْسَهُ عَلَى الصَّبْرِ عَلَى الْأَذَى، وَلْيَثِقْ بِالثَّوَابِ مِنَ اللهِ عز وجل، فَإِنَّهُ مَنْ وَثَقَ بِالثَّوَابِ مِنَ اللهِ لَمْ يَضُرُّهُ مَسُّ الْأَذَى (المعجم الاوسط للطبراني، اثر نمبر  2258)۔یعنی، حضرت عمر بن حبیب بن خماشہ جنھوں نے اپنی بلوغت کے زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پالیا تھا ، اپنے لڑکے کو وصیت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ اے میرے بیٹے ، نادانوں کی صحبت سے بچو کیونکہ ان کی صحبت میں بیٹھنا بیماری ہے۔ اس کو خوشی ملی جس نے نادان آدمی سے درگزر کیا۔ اور وہ شخص پچھتایا جس نے اس سے دوستی کی ۔ اور جو شخص نادان کے چھوٹے شر پر راضی نہ ہو، اس کو نادان کے بڑے شرپر راضی ہونا پڑے گا اور جب تم میں سے کوئی شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام کرنا چاہے تو اپنے آپ کو تکلیف برداشت کرنے کے لیے تیار کرلے اور اللہ سے ثواب ملنے پر بھروسہ کرے کیونکہ جو شخص اللہ سے ثواب ملنے پر بھروسہ کرے گا اس کو تکلیف کا پہنچنا نقصان نہ دے گا ۔

 ایک نادان شخص اگر کسی کی طرف کنکری پھینکے تو اس کا فوری تاثر یہ ہوتا ہے کہ اس کا بھر پوپر جواب دیا جائے۔ حالانکہ نادان کی کنکری کا زیادہ بہتر جواب اس کو برداشت کر لینا ہے۔ ’’کنکر ‘‘کو برداشت کر کے آپ معاملہ کو ’’پتھر‘‘ تک پہنچنے سے روک دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی نادان کے شر کو برداشت نہ کرنا ہمیشہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ بالاخر اس سے زیادہ بڑے شرکو برداشت کرنے پر اپنے کو راضی کیا جائے۔

 ایک فرقہ کا پہلوان دوسرے فرقہ کے زیر انتظام اکھاڑے میں اس فرقہ کے پہلوان سے کشتی لڑتا ہے۔ کشتی کے خاتمہ پر پہلے فرقہ کے پہلوان کو شکایت ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ دھاندلی کی گئی ہے۔ ایسی حالت میں زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ وہ اس دھاندلی کو برداشت کرلے اور اگلے سال اتنی زیادہ تیاری کے ساتھ مقابلہ کے میدان میں اترے کہ وہ دھاندلی کی حد کو پار کر چکا ہو۔ اس کے برعکس، اگر اس نے دھاندلی کو برداشت نہ کیا اور دھاندلی کا بدلہ لینے کے لیے دوسرے فرقہ کے پہلوان کو قتل کرنے کی کوشش کی تو اس کے نتیجہ میں ایسا فساد رو نما ہو گا جو اس فرقہ کی پوری بستی کو ویران کردے گا ۔ اکھاڑے کی دھاندلی نہ برداشت کرنے کی قیمت معاشی بربادی ، سماجی ذلت اور جانوں کی ہلاکت کی صورت میں دینی پڑے گی۔ اسی طرح مثلاً ایک فرقہ کے لوگ اپنی عبادت گاہ میں سالانہ عبادت ادا کر رہے ہیں۔ اس موقع پر دوسرے فرقہ کا گندا جانور چھوٹ کر عبادت گزاروں کی صف میں داخل ہو جاتا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک تکلیف دہ بات ہے لیکن اگر اس تکلیف کو برداشت کر لیا جائے تو صرف ایک وقتی اور معمولی واقعہ پر اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس کے برعکس اگر اس کا جواب پتھر سے دینے کی کوشش کی جائے تو اس کے بعد ایسا فساد برپا ہو گا جو کتنی ہی بستیوں کو خاکستر بنادے گا اور اتنے زیادہ نقصانات سامنے آئیں گے جن کی تلافی برسہا برس تک بھی نہ ہو سکے۔ ایک عبادت گاہ ہے۔ اس کے پاس سے دوسرے فرقہ کے لوگ باجا بجاتے ہوئے گزرے اور اس سے عبادت کرنے والوں کو تکلیف پہنچی۔ اگر اس کو برداشت کر لیا جائے تو وقتی تکلیف کے بعد صورت حال معمول پر آجائے گی۔ لیکن اگر عبادت کرنے والے اس پر بگڑ جائیں اور جلوس پر پابندی لگانے کی کوشش کریں تو اس کے جواب میں ضدا ور عناد ابھرے گا جو بالآخر لڑائی اور فساد کی صورت اختیار کرلے گا۔ جن لوگوں نے چند منٹ کے باجے کا سننا برداشت نہیں کیا تھا انھیں آگ اور خون کا منظر دیکھنے کو برداشت کرنا پڑے گا۔

آدمی بہت جلد اس کے لیے تیار ہو جاتا ہے کہ وہ دوسروں کو بھلائی کا حکم دے اور اس کو برائی سے روکے۔ کیوں کہ دوسروں کے ساتھ ایسا کرنے میں اس کی انا کے لیے تسکین ہے۔ اس سے نفس کو یہ لذت ملتی ہے کہ میں حق پر ہوں اور دوسرا میرے مقابلہ میں ناحق پر ہے۔ مگر بھلائی کا وعظ کہنا اور برائی سے روکنا صرف اس شخص کے لیے جائز ہے۔ جو اس کے تقاضے کو اپنانے کے لیے تیار ہو۔ اور اس کا تقاضا تکلیفوں پر صبر کرتا ہے ۔ جب بھی ایک آدمی دوسرے کو ٹوکے گا اور اس کے اوپر تنقید کرے گا تو لازماً ایسا ہوگا کہ وہ شخص برہم ہوگا۔ ایسے موقع پر ٹوکنے والے کو برف کی طرح نرم ہو جانا چاہیے۔ اگر وہ خود بھی اس کے جواب میں برہم ہو جائے تو وہ برائی سے ٹوکنے والا نہیں ہے بلکہ وہ ایک برائی کو دو برائی کرنے کا مجرم ہے جو خدا کے یہاں کسی حال میں قابل معافی نہیں۔

وعظ و نصیحت کے جواب میں پیش آنے والی تکلیفوں پر برہم ہونے سے وہی شخص بچ سکتا ہے جس نے وعظ و نصیحت کا کام تمام تر اللہ کی خاطر شروع کیا ہو۔ جس اللہ سے وہ دوسرے کو ڈرا رہا ہے جب وہ خود اس سے ڈرنے والا بن چکا ہے تو وہ ایسا کام کیوں کر کر سکتا ہے جو صرف وہ لوگ کرتے ہیں جو اللہ سے بے خوف ہو چکے ہوں۔ جو شخص انسانوں کی طرف سے آنے والی تکلیفوں پر بگڑتا ہے وہ اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ اپنے عمل کا بدلہ انسانوں سے چاہتا تھا اور جب انسانوں کی طرف سے بدلہ نہیں ملا تو وہ بگڑ گیا۔مگر جو آدمی اپنے عمل کا بدلہ اللہ سے لینے کا امیدوار ہو وہ اس کی بالکل پروا نہیں کر سکتا کہ لوگ اس کے کام کی تعریف کر رہے ہیں یا تنقید۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom