کرنے کا کام
آج مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ فساد یا اغیار کی سازش نہیں ہے ۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ فساد اور سازش کو ناکام بنانے کے لیے واقعی طور پر جو کچھ کرنا چاہیےوہ کسی طرح ان کے ذہن کے خانہ میں نہیں بیٹھتا۔ زندگی کے مسائل کا حل خدا نے سنجیدہ غور و فکر اور حقیقت پسندانہ پروگرام میں رکھا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس سے آج کے مسلمان آخری حد تک دور ہیں۔ وہ ہر دوسرے طریقہ پر بے پناہ سرمایہ اور طاقت خرچ کرنے کے لیے تیار ہیں مگر حقیقت پسندانہ طریقہ کو زیرعمل لانے کے لیے نہ ان کے پاس پیسہ ہے اور نہ وقت ۔ آج ان کا حال وہی ہو رہا ہے جو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے
وَإِنْ يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لا يُؤْمِنُوا بِها وَإِنْ يَرَوْا سَبِيلَ الرُّشْدِ لا يَتَّخِذُوهُ سَبِيلاً وَإِنْ يَرَوْا سَبِيلَ الغَيِّ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلاً ذلِكَ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآياتِنا وَكانُوا عَنْها غافِلِينَ۔ وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآياتِنا وَلِقاءِ الْآخِرَةِ حَبِطَتْ أَعْمالُهُمْ هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَاّ مَا كانُوا يَعْمَلُونَ (7:146-147)۔ یعنی، اور اگر دیکھیں ساری نشانیاں یقین نہ کریں ان کو ۔ اور اگر دیکھیں راہ سنوار کی وہ نہ ٹھہرائیں اس کو راہ اور اگر دیکھیں راہ الٹی اس کو ٹھہرائیں راہ ۔ یہ اس واسطے کہ انھوں نے جھوٹ جانیں ہماری آیتیں اور ہو رہے ان سے بے خبر ۔ اور جنھوں نے جھوٹ جانیں ہماری آیتیں اور آخرت کی ملاقات ضائع ہوئیں ان کی محنتیں ، وہی بدلا پائیں گے جو کچھ عمل کرتےتھے ( ترجمہ شاہ عبد القادر) ۔
جب آدمی جھنجھلاہٹ اور جذباتیت کا شکار ہو جائے تو صرف سطحی باتیں اس کی سمجھ میں آتی ہیں، کوئی گہری بات اس کو اپیل نہیں کرتی۔ یہی آج مسلمانوں کا حال ہے۔ حقیقت پسندانہ طریق کار کے حق میں کتنے ہی کھلے کھلے دلائل دے دیے جائیں ۔ مگر وہ ان کے ذہن کا جزءنہیں بنتے۔ وہ ایسے راستوں کی طرف تو تیزی سے دوڑ پڑتے ہیں جن کا آخری نتیجہ مزید تباہی کے سوا اور کچھ نہ ہو۔ مگر ایسے راستے جو کامیابی کی طرف لے جانے والے ہوں ، ان کو فلسفیانہ اور دور از کار کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ایک بے خبر انسان کی طرح وہ کبھی اس دیوار سے سر ٹکراتے ہیں اور کبھی اُس دیوار سے ۔ ان کی کوششیں اپنے نتیجہ کے اعتبار سے مسلسل بے قیمت ہوتی جارہی ہیں۔ مگر ان کی آنکھ کسی طرح نہیں کھلتی ۔ نئے الفاظ بول کر وہ دوبارہ انھیں سطحی طریقوں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں جو بار بار تجربہ کے بعداپنی ناکامی ثابت کر چکے ہیں ۔
اسی مزاج کا یہ نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کا مسلمان یا تو فراریت کی باتوں کو قبول کرتا ہے یا تصادم کی باتوں کو۔ سارے مسلمان انھیں دو میں سے کسی طریقہ کی طرف دوڑ رہے ہیں تعمیر و استحکام کا طریقہ کسی طرح ان کے فکری سانچہ میں نہیں بیٹھتا لیکن اگر تم مزید اپنی قوتیں برباد کرنا نہیں چاہتے تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم اپنے اس انداز کو بدلیں اور حقائق کی روشنی میں کوئی نتیجہ خیز پروگرام اپنے لیے بنائیں۔
1۔ فسادات کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلا ضروری کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو باشعور اورتعلیم یافتہ بنایا جائے تاکہ ان کی جذباتیت ختم ہو، وہ جانیں کہ کس موقع پر انھیں کسی قسم کار د عمل ظاہر کرنا چاہیے۔ فسادات میں مسلمان کر ڑوں روپے چندے دیتے ہیں۔ اگر اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے کہ فساد کا آغاز ہمیشہ ان لوگوں کی کسی حرکت سے ہوتا ہے جو جاہل یا بیروزگا ہیں تو اس قسم کی رقم کا بہترن مصرف یہ ہو گا کہ قوم کے جاہل لوگوں کو تعلیم یافتہ بنایا جائے اور جو لوگ بے روز گار ہیں ان کو کسی نہ کسی معاشی کام میں مصروف کر دیا جائے۔ قوم کو مشغول اور باشعور بناکر زیادہ بہتر طور پر فسادات کا سد باب کیا جا سکتا ہے۔ یہ گویا فساد کو اس زمین سے محروم کرنا ہے جس پر اس کا خار دار درخت اگتا ہے ۔
2۔ ہمارے لکھنے اور بولنے والے آج سب سے زیادہ جس کام میں مصروف ہیں وہ یہ کہ قوم کو جذباتیت کی شراب پلائی جائے اور نتیجۃً عوام کے درمیان سستی مقبولیت حاصل کی جائے۔ یہ سلسلہ قطعاً بند ہو جانا چاہیے۔ اس کے بجائے ہمارے قلم اور زبان کی طاقت کو تمام تر اس مقصد پر لگ جانا چاہیےکہ قوم کے افراد میں صبر اور حقیقت پسندی اور باہمی اتحاد کا جذبہ پیدا ہو کسی قوم کی طاقت کا راز یہ ہے کہ اس کے افراد سنجیدہ انداز میں سوچنا جانتے ہوں، نہ یہ کہ ان کو پر شور الفاظ کا مظاہر کرنے میں کمال حاصل ہو۔
3 ۔ ہر جگہ کے مسلمان اس کو اپنی ذمہ داری سمجھیں کہ جب بھی کوئی شخص شرارت کرے، خواہ وہ مسلمان اور مسلمان کے درمیان ہو یا مسلمان اور غیر مسلمان کے درمیان، فوراً موقع پر پہنچ کر شریر کا ہاتھ پکڑا جائے۔ فساد کے اجتماعی سطح پر پھیلنے سے پہلے اس وقت اس کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے جب کہ وہ ابھی انفرادی سطح پر ہوتا ہے اور باآسانی اس کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فسادات ہونے کے بعد شور و غل کرنا جتنا بے معنی ہے اتنا ہی با معنی یہ ہے کہ فساد سے پہلے انفرادی جھگڑوں اور شکایتوں کو دور کرنے میں طاقت صرف کی جائے ۔
4۔ قوم کے عمل کے جذبہ کو دعوت وتبلیغ کے کام کی طرف موڑنے کی کوشش کی جائے۔ ہرمسلمان اپنے مزاج کے اعتبار سے مجاہدانہ مزاج کا حامل ہوتا ہے۔ یہ ایک مطلوب چیز ہے۔ مگر بدقسمتی سے اس مجاہدانہ مزاج کا استعمال سیاسی شور وغل اور باہمی اختلافات میں ہو رہا ہے۔ اس مجاہدانہ مزاج کے اظہار کا اصل میدان اللہ کے دین کو پھیلانا ہے اور اس کے لیے پر امن جد وجہد کرنا ہے۔ اگر مسلمانوں کے مجاہدانہ مزاج کو دعوت و تبلیغ کی طرف موڑ دیا جائے تو بیشتر لڑائیاں اور اختلافات اسی طرح ختم ہو جائیں گے جیسے ایک بے کار آدمی ادھر اُدھر جھگڑتا پھرتا ہو اور اس کے بعد اچانک اس کو ایک اچھا روزگار ہاتھ آجائے اور وہ ساری خرافات کو ختم کر کے اپنے روز گار میں لگ جائے (26ستمبر 1980)۔