بے برداشت نہ بنو

قرآن کی سورہ نمبر 30 کی آخری آیت میں ارشاد ہوا ہے: پس تم صبر کرو، بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے ۔ اور تم کو بے برداشت نہ کر دیں وہ لوگ جو یقین نہیں لاتے :  فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَلا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِينَ لا يُوقِنُونَ(30:60)۔

زمین سے ایک پھل دار درخت کا پودا اگتا ہے ۔ قانون قدرت کے مطابق اس میں دسویں سال پھل لگنے والا ہے۔ اب اگر کچھ لوگ جلد بازی کریں اور پودا نکلنے کے چند ماہ بعد ہی اس کا پھل لینا چاہیں تو وہ اپنی جلد باز کارروائیوں سے درخت کو برباد کر دیں گے اور اس کا قدرتی امکان بر روئے کار آنے سے رہ جائے گا ۔ ایسا ہی کچھ معاملہ سماجی زندگی میں ظاہر ہونے والے واقعات کا بھی ہے۔ اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اہل حق کو عزت اور غلبہ دے گا۔ مگر درخت کی طرح اس غلبہ کے ظہور کا بھی ایک قانون ہے۔ اگر اس قانون کی رعایت نہ کی جائے اور وقت سے پہلے اس کو پانے کی خواہش کی جائے تو یہ ایسی نادانی ہوگی جس سے غلبہ تو نہیں ملے گا البتہ اس کے امکانات برباد ہو کر رہ جائیں گے۔

خدا کی طرف سے جو غلبہ کا وعدہ ہے وہ اس بنیاد پر ہے کہ اہل حق اپنے حصہ کا کام کردیں۔ وہ اپنے آپ کو خدا کے دین پر قائم کریں، وہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ وہ ممکن دائروں میں اپنے آپ کو مستحکم بنائیں۔ اسی کے ساتھ وہ فریق ثانی کو حق کی دعوت دیں۔ وہ دعوت کے تمام حکیمانہ تقاضوں کا اہتمام کرتے ہوئے اس کو اتمام حجت کے مرحلہ تک پہنچائیں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو خدا کے یہاں کسی گروہ کا یہ استحقاق ثابت کرتی ہیں کہ وہ ان کو غالب کرے اور ان کے مقابلہ میں ان کے حریف کو مغلوب کر دے۔

 جب اہل حق کے درمیان یہ تمام کام جاری ہوتے ہیں تو فریق ثانی کی طرف سے بار بار اشتعال انگیزیاں کی جاتی ہیں۔ ذہنی اور عملی پہلوؤں سے ایسی باتیں پیش آتی ہیں جو اہل حق کو بھڑ کا دینے والی ہوں۔ یہ بڑا نازک وقت ہوتا ہے ۔ ایسے موقع پر اگر اہل حق کی شانتی بھنگ ہو جائے اور وہ فریق ثانی کے چھیڑے ہوئے فتنوں میں اپنے آپ کو الجھا دیں تو اصل کام رک جاتا ہے اور دونوں فریقوں کے درمیان دوسرے غیر متعلق امور پر لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ اس قسم کی لڑائی کا آخری فیصلہ ہمیشہ اہل حق کے خلاف ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کا غلبہ خدا کی مدد سے ہوتا اور انھوں نے اصل کام کو نا مکمل حالت میں چھوڑ کر غلبہ کا استحقاق کھو دیا۔ انھوں نے بے برداشت ہو کر خدا کی نافرمانی کی اور خدا کی نافرمانی کرنے والوں کو کبھی خدا کی نصرت نہیں پہنچتی ۔

بے برداشت ہونے کی بہت سی صورتیں ہیں ۔ مثلاً اعلیٰ مقصد کی خاطر چھوٹے نقصانات کو برداشت نہ کرنا اور ان کے لیے لڑ جانا۔ جذباتی ٹھیس پہنچنے والے معاملات کو نظرانداز نہ کرنا اور اپنے کوان میں الجھا لینا۔ سماجی اور معاشی مسائل میں خود تعمیری کے اصول پر عمل نہ کرنا اور مطالبہ اور احتجاج کی سیاست میں اپنے کو مشغول کر لینا۔ اپنے افراد میں کردار کی طاقت پیدا کرنے سے پہلے بڑے بڑے اقدامات کرنے لگنا۔ اجتماعی زندگی میں پیش آنے والی فطری زیادتیوں کو غیرضروری اہمیت دنیا اور ان کی خاطر تصادم چھیڑ دینا ۔ دوسروں سے غیر حقیقی تو قعات قائم کرنا اور جب وہ توقعات پوری نہ ہوں تو جھنجھلا کر ان سے مڈبھیڑ شروع کر دینا ۔ انسانی کمزوریوں کی رعایت نہ کرنا اورکسی کے اندر ایک بشری کمزوری پاکر اس کو اچھالنا اور اس کی بنیاد پر ہنگامہ آرائی کرنا۔ سیاسی حکمرانوں سے مفاہمت نہ کرنا اور قبل از وقت ان سے ٹکرا جانا ،وغیرہ۔

’’ بے برداشت نہ ہو جاؤ ‘‘کا اصول حد درجہ حکمت پر مبنی ہے۔ اس کی خلاف ورزی کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ نہ ملے ہوئے مواقع کی حرص میں ملے ہوئے مواقع بھی برباد ہو جاتے ہیں۔ ایک حکمراں جو غیر سیاسی دائرہ میں کام کرنے کا موقع دے رہا ہے ، اس کو سیاسی اقتدار سے بے دخل کرنے کی مہم چلائی جانے لگے تو وہ غیر ضروری طور پر اہل حق کو اپنا حریف سمجھ لیتا ہے اور حکومتی قوت سے کام لے کر انھیں کچل ڈالتا ہے۔ فریق ثانی اگر زور آور حیثیت رکھتا ہے اور اس کے افراد سے بعض زیادتیاں سرزد ہوتی ہیں اور ان کو برداشت نہیں کیا جاتا تو اس کے بعد عمومی سطح پر ایسے فسادات بر پا ہوتے ہیں کہ پوری زندگی تہس نہس ہو جاتی ہے اور کسی بھی قسم کا کوئی تعمیری کام کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ جب بھی آدمی کوئی کام شروع کرتا ہے تو فطری طور پر ایسا ہوتا ہے کہ اجتماعی زندگی میں مختلف لوگوں کی طرف سے شکایت اور نقصانات سامنے آتے ہیں۔ آدمی اگر ہر شکایت اور ہر نقصان کو اہمیت دے اور اس کی بنیاد پر لوگوں سے لڑنا شروع کر دے تو اصل کام رک جائے گا اور بس لڑائی جھگڑے باقی رہیں گے۔

دوسرے یہ کہ بالفرض ان تمام نادانیوں کے باوجود اہل حق کو غلبہ دے دیا جائے تو عدم تیاری کی بنا پر وہ اس کو سنبھال نہ سکیں گے ۔ اگر کسی گروہ میں اتحاد نہ ہو تو غلبہ پانے کے بعد وہ آپس میں لڑنا شروع کر دیں گے، جو ٹکراؤ پہلے حق پرستوں اور باطل پرستوں کے درمیان جاری تھا وہ خود حق پرستوں کے اپنے درمیان ہونے لگے گا۔ اگر ان کے افراد میں کردار پیدا نہ ہوا ہو اور انھیں اقتدار پر قبضہ مل جائے تو وہ اصلاح کے بجائے صرف فساد کا سبب بنیں گے اور نتیجہ حق کے بارے میں ایسی بدگمانیاں پیدا ہوں گی کہ لوگ اس کو ایک قابل نفرت چیز سمجھنے لگیں ۔ اگر انھوں نے اپنے اندر یہ مزاج پختہ نہیں کیا ہے کہ ان کے نز دیک ساری اہمیت حق کی ہے باقی تمام چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں تو وہ غلبہ پا کر غیر ضروری سرگرمیوں میں مشغول ہو جائیں گے اور سماج کو نئے نئے مسائل میں الجھا کر رکھ دیں گے ۔ اگر انھوں نے اپنے آپ کو انتقام کی نفسیات سے بلند نہیں کیا ہے تو اقتدار پانے کے بعد وہ اپنے سابق دشمنوں کو ہلاک کرنا شروع کر دیں گے۔ حتیٰ کہ فوج اور انتظامیہ کے اعلی تربیت یافتہ افراد کوختم کر کے ملک کو اتنا کمزور کر دیں گے کہ ملک کو سنبھالنا ہی نا ممکن ہو جائے۔ اگر انھوں نے اپنے اندر برداشت کی قوت پیدا نہیں کی ہے تو وہ ہر اس شخص یا گروہ سے لڑائی چھیڑ دیں گے جس سے ان کے نفس کو چوٹ لگے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلام کے غلبہ کے باوجود اسلام کا اصل کام (بندگان خدا کو خدا سے جوڑنا) بدستور اَن ہوا پڑا رہ جائے گا۔ جو شخص جذبات سے بےقابو ہو جائے وہ ایک خرابی کو مٹانے کے نام پر ایسا اقدام کرے گا جس سے کئی شدید تر خرابیاں پیدا ہو جائیں۔

جب بھی کسی کی طرف سے نا پسندیدہ بات سامنے آتی ہے تو آدمی صرف ایک بات سوچتا ہے یہ مخالف ہے ، اس کو کچل ڈالو۔ مگر یہ انسان کا بہت ناقص اندازہ ہے۔ خدا نے انسانی نفسیات میں بے حد لچک رکھی ہے۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ انسان ایک حالت پر قائم نہیں رہتا بلکہ بدلتا رہتاہے۔ اور برداشت کا مطلب اسی انسانی امکان کا انتظار کرنا ہے۔ شریعت میں صابرانہ طریق کار کی تلقین اسی لیے کی گئی ہے کہ اس آنے والے وقت کو آنے کا موقع دیا جائے جب کہ’’آج ‘‘ کے انسان کے اندر چھپا ہوا کل کا انسان بر آمد ہو جائے۔

بہت تھوڑے لوگ ہوتے ہیں جو فی الواقع سوچ سمجھ کر کسی چیز کے مخالف بنتے ہیں ۔ بیشتر لوگوں کی مخالفت محض اضافی اسباب کی بنا پر ہوتی ہے کبھی ایک آدمی محض غلط فہمی کی بنا پر کسی چیز کا مخالف بن جاتا ہے کبھی وقتی تقاضے کسی شخص کو آپ کے بالمقابل محاذ میں کھڑا کر دیتے ہیں۔ کبھی حیثیت اور منصب کے مصنوعی مسائل آدمی پر اتنا غالب آتے ہیں کہ وہ کسی بات کے اعتراف سے رک جاتا ہے۔ کبھی کسی کے اختلاف کا سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ معاملہ کو ایک رخ سے دیکھ رہا ہے اور آپ اس کو دوسرے رخ سے دیکھ رہے ہیں۔ اس قسم کے اختلافات حقیقی اختلافات نہیں ہوتے ۔ وہ محض حالات کے تابع ہوتے ہیں اور حالات کے بدلنے کے ساتھ ہمیشہ بدل جاتے ہیں۔

تاہم کچھ مخالفین ایسے ہوتے ہیں جو اپنی مخالفت میں جارحیت کی حد تک جاتے ہیں۔ وہ سازش کرتے ہیں ، وہ تخریب کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ اور امتحان کی اس دنیا میں بہر حال ان کو بھی اسی طرح عمل کی آزادی حاصل ہے جس طرح کسی دوسرے کو حاصل ہے ۔ ایسے لوگوں سے مقابلہ کی بہترین تدبیر یہ ہے کہ جھنجھلاہٹ کے بجائے صبر اور حکمت کے ساتھ اپنا راستہ نکالا جائے ۔ کسی گروہ کی بے صبری اور غیر دانش مندی اس کے دشمن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے ۔ سب سے زیادہ نادان وہ ہے جو خود اپنی طرف سے دشمن کو یہ ہتھیار فراہم کردے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom