توہّماتی دَور سے سائنسی دَور تک

حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک جلیل القدر پیغمبر تھے۔ وہ عراق میں پیدا ہوئے۔ پھر مصر اور فلسطین سے سفر کرتے ہوئے وہ عرب کے اس مقام پر پہنچے جہاں اب مکہ آباد ہے۔ اُس وقت یہ مقام ایک غیر آباد مقام تھا۔ رتیلے میدان اور خشک پہاڑوں کے سوا یہاں اور کوئی چیز موجود نہ تھی۔ یہاں انھوں نے اپنی اہلیہ ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو بسا دیا۔

یہ چار ہزار سال پہلے کی بات ہے۔ یہ کوئی سادہ واقعہ نہ تھا۔ یہ دراصل ایک نیا دورِ تاریخ شروع کرنے کا منصوبہ تھا۔ یہ منصوبہ اب مختلف مراحل سے گذرتے ہوئے اپنی آخری تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔

اصل یہ ہے کہ چار ہزار سال پہلے کی دنیا میں ہر طرف شرک کا غلبہ تھا۔ شرک دراصل فطرت پرستی کا نام ہے۔ انسان، سورج، چاند، ستارے، دریا، پہاڑ اور حیوانات، ہر چیز کو پوجتا تھا۔ وہ فطرت (nature)کو پرستش کی چیز بنائے ہوئے تھا۔

یہ صورت حال ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھی۔ خالق نے فطرت (nature) کے اندر ہر قسم کی طاقتیں چھپا دی تھیں۔ ضرورت تھی کہ انسان ان کو دریافت کرکے انھیں استعمال کرے۔ لیکن انسان نے فطرت کو پرستش کی چیز بنا لیا۔ حتی کہ فطرت کی پرستش(nature worship) یا شرک، انسانی کلچر کا غالب حصہ بن گیا۔ پرستشِ فطرت کے اِس مزاج نے انسان کے اندر سے تسخیرِ فطرت کا ذہن ختم کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فطرت کی طاقتوں کو دریافت کرکے، اس کو انسانی خدمت کے لیے استعمال کرنے کا ذہن عملاً ختم ہوگیا۔ اِس ماحول میں عابد ِفطرت پیدا ہونے لگے نہ کہ وہ لوگ جو کھُلے ذہن کے ساتھ تحقیق کرکے فطرت میں چھپے ہوئے رازوں کو دریافت کرسکیں۔

ان حالات میں ضرورت تھی کہ ایک ایسی نسل پیدا کی جائے جو فطرت پرستی کے ذہن یا مشرکانہ تہذیب کے اثر سے خالی ہو۔ یہ کام کسی متمدن شہر میں نہیں ہوسکتا تھا۔ کیوں کہ اس زمانے میں ہر متمدّن شہر، شرک (فطرت پرستی) کا مرکز بن چکا تھا۔ اِس بنا پر حضرت ابراہیم نے مکّہ کے غیر آباد علاقے کو منتخب کیا تاکہ یہاں کے کھُلے ماحول میں ایک نئی نسل پیدا کی جائے جو مشرکانہ تہذیب کے اثرات سے خالی ہو، اور اپنے بے آمیز ذہن کی بنا پر نئی تاریخ بنانے کا کام کرسکے۔

پیغمبر اسلام اسی علاقے میں ۵۷۰ عیسوی میں پیدا ہوئے۔ ۶۱۰ عیسوی میں آپ کو نبوت ملی۔ یہاں کی زندہ نسل جس کو بنو اسماعیل کہا جاتا ہے، اس میں کام کرکے آپ نے ایک طاقت ور ٹیم تیار کی۔ یہ ٹیم جس کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے اس نے غیر معمولی جدوجہد کے ذریعے قدیم دَور کے فطرت پرستانہ نظام (مشرکانہ نظام) کو توڑا، اور دوسرے دَورِ تاریخ کا آغاز کیا۔ یعنی وہ دَور جب کہ فطرت(nature) پرستش کے بجائے تسخیر کا موضوع بنے۔ یہ عمل ہزار سال تک جاری رہا۔ یہاں تک کہ موجودہ دور پیدا ہوا، جب کہ فطرت کا آزادانہ مطالعہ کرکے فطرت میں چھپے ہوئے رازوں کو دریافت کیا گیا۔ یہاں تک کہ وہ دَور آگیا جس کو سائنسی دَور یا جدید صنعتی دَور کہاجاتا ہے۔

اکیسویں صدی میں اب دنیا اپنی تاریخ کے تیسرے دَور میں پہنچ چکی ہے۔ اس دَور میں بیک وقت دو چیزیں پوری طرح ظاہر ہوچکی ہیں۔ ایک ہے، جدید مشینی سامانوں کے ذریعے نیے تمدنی اسباب کا پیدا ہونا۔ ان نیے تمدنی اسباب میں سب سے زیادہ اہم چیز جدید مواصلات (ماڈرن کمیونکیشن) ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ساری دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے۔ زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سفر اور پیغام رسانی اتنا ہی آسان بن چکا ہے جتنا کہ پہلے ایک محلے کے اندر ممکن ہوتا تھا۔

جدید انقلاب کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ خدائی سچائی آخری حد تک مُبرہن ہوچکی ہے۔ خدائی سچائی کے حق میں پہلے روایتی دلائل ہوا کرتے تھے۔ اب خدائی سچائی کو ثابت شدہ بنانے کے لیے سائنسی دلائل ظاہر ہوچکے ہیں۔ خدائی سچائی اب صرف ایک عقیدہ نہیں رہی بلکہ وہ سائنسی طورپر ایک ثابت شدہ واقعہ بن چکی ہے۔

یہ تیسرا دور لوگوں کو ایک نیے عمل کی دعوت دے رہا ہے۔ پہلے دور کا مطلوب کام نئی نسل بنانا تھا، وہ بنو اسماعیل کے ذریعے انجام پایا۔ دوسرے دور کا مطلوب کام ایک انقلاب لانا تھا، جس میں فطرت (نیچر) پرستش کے بجائے تسخیر کا موضوع بن جائے۔ یہ کام اصحاب رسول کے ذریعہ واقعہ بنا۔ تیسرے دور کا مطلوب کام یہ ہے کہ اب اکیسویں صدی میں عزم و یقین سے بھر پور ایک گروہ اٹھے۔ وہ جدید وسائل اور جدید دلائل کو استعمال کرکے خدائی سچائی کو عالمی سطح پر آشکارا کردے، تاکہ خدا کے بندے خدا کی رحمت کے سایے میں جینے کی سعادت حاصل کرسکیں۔

شاید انسانی تاریخ کا یہی وہ آخری دَور ہے جس میں دعوتِ نبوت کو انجام دینے والوں کے لیے حدیث میں اخوانِ رسول کا لفظ آیا ہے۔ اصحابِ رسول نے روایتی دَور میں اظہارِ دین کا کام انجام دیا تھا، اب اخوانِ رسول سائنسی دَور میں اظہارِ دین کے اسی کام کو انجام دیں گے۔ حدیث میں اخوانِ رسول کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہے۔

رویاتی دور میں اظہارِ دین، اور سائنسی دو رمیں اظہارِ دین کے درمیان کیا فرق ہے، اس کو راقم الحروف نے اپنی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قدیم روایتی دور میں انسان کا جو فریم ورک تھا اس کے مطابق، گرہن کے بارے میں قابل فہم طورپر صرف یہ کہا جاسکتا تھا کہ وہ خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ لیکن موجودہ زمانے میں سائنسی فریم ورک کی روشنی میں اِس واقعے کو اور بھی زیادہ ایمان افروز انداز میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً یہ کہ زمین اور سورج اور چاند تین مختلف سائز کے متحرک اَجرام ہیں۔ مگر وسیع خلا میں ان کو ایک ناقابلِ قیاس حساب کے ذریعے ایک سیدھ میں لایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں سورج گرہن اور چاند گرہن واقع ہوتا ہے:

It is a result of unimaginably well-calculated positioning of three different moving bodies in the vast space.

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom