عارضی دورِ حیات، ابدی دورِحیات
ایک طالب علم جب اپنی زندگی کے تعلیمی مرحلے میں ہو تو اُس کی سوچ اُس سے مختلف ہوتی ہے جب کہ وہ اپنی تعلیم کو مکمل کرکے اپنے لیے ایک اچھا جاب حاصل کرلے۔ پہلے مرحلے میں وہ اِس طرح رہتا ہے جیسے کہ وہ ایک مسافر ہے۔ جب کہ دوسرے مرحلے میں وہ اِس طرح رہتا ہے جیسے کہ وہ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ گیا ہو۔ پہلے مرحلے میں وہ ہر چیز کو ایک وقتی چیز سمجھتا ہے۔ جب کہ دوسرے مرحلے میں وہ ہر چیز کو اِس حیثیت سے لیتا ہے جیسے کہ وہ اس کی زندگی کا مستقل حصہ ہو۔
یہی معاملہ وسیع تر معنوں میں، انسانی زندگی کا ہے۔ انسان کو ہمیشہ کی عمر دی گئی ہے۔ اس عمر کے دو حصے ہیں، قبل ازموت، اور بعد از موت۔ قبل ازموت، آدمی اپنے عارضی دَورِ حیات میں رہتا ہے۔ بعد از موت وہ اپنے ابدی دَور حیات میں پہنچ جاتا ہے۔ اگر یہ حقیقت آدمی کے اندر زندہ شعور کے طورپر موجود ہو تو یہی اس کی مکمل اصلاح کے لیے کافی ہوجائے۔
موجودہ دنیا کو مذہبی اصطلاح میں فتنے کی دنیا کہاگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ دنیا ایک مغالطے کی دنیا (deceptive world) ہے۔ یہاں کی ہر چیز کسی نہ کسی اعتبار سے مغالطے کا رول (deceptive role) ادا کررہی ہے۔ یعنی موجودہ عارضی دنیا کو مستقل دنیا کے روپ میں دکھانا۔ موجودہ دنیا کی وقتی چیز کو مستقل چیز کی حیثیت سے متعارف کرنا۔فانی بدایونی ایک اردو شاعر تھے۔ انھیں اپنی زندگی میں کچھ ایسے تجربات پیش آئے جس نے انھیں بتایا کہ موجودہ دنیا ایک بے حقیقت دنیا ہے۔ یہاں کی ہر خوش نُمائی صرف ظاہری اور وقتی خوش نمائی ہے۔ اپنے اِس تجربے کو انھوں نے اِن الفاظ میں نظم کیا تھا:
فریبِ جلوہ اور کتنا مکمل، اے معاذ اللہ! بڑی مشکل سے دل کو بزمِ عالم سے اٹھا پایا
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا کی ہر چیز مغالطہ آمیز ہے۔ وہ وقتی چیز کو مصنوعی طورپر ابدی رنگ میں دکھاتی ہے۔ کامیاب وہ ہے جو موجودہ دنیا کو عارضی دورِ حیات سمجھے، اور ناکام وہ ہے جو اِس دنیا کو ابدی دورِ حیات سمجھ لے۔