دعوت اور داعی
قرآن اور حدیث میں دعوت کے لیے دوسرا لفظ جو استعمال ہوا ہے وہ شہادت ہے۔ اِسی طرح داعی اور مدعو کے لیے جو دوسرے الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ شاہد اور مشہود کے الفاظ ہیں۔ یہ بات بہت با معنیٰ ہے۔ اس پر غور کرنے سے ایک نہایت اہم حقیقت سامنے آتی ہے۔
شاہد کا مطلب گواہ (witness) ہے۔ گواہ کون ہے۔ گواہ سے مراد وہ شخص ہے جس نے زیرِ بحث واقعہ کو دیکھا ہو، یا کسی چیز کے بارے میں وہ ابتدائی معلومات دے سکے:
Witness: a person who saw, or can give a first-hand account of something.
دعوت سے مراد یہ ہے کہ غیر مسلموں میں حق کا پیغام پہنچا یا جائے۔ جب مسلمانوں کو ان کی یہ دعوتی ذمے داری یاد دلائی جائے تو کہا جاتا ہے کہ اِس سلسلے میں پہلا کام خود مسلمانوں کی اصطلاح ہے۔ یعنی مسلم سماج اور مسلم ریاست کو صحیح اسلامی اصول پر قائم کرنا۔ کیوں کہ اگر مسلمان خود ہی بگڑے ہوئے ہوں اور اُن کے درمیان صالح معاشرہ او ر صالح نظامِ حکومت قائم نہ ہو تو غیر مسلموں کو کس طرح اسلام کی طرف بلایا جاسکتا ہے۔
یہ ایک غیر متعلق (irrelevant) بات ہے۔ کیوں کہ اسلامی دعوت کا مقصد یہ نہیں ہے کہ لوگوں کو مسلم سماج کی طرف بلایا جائے۔ اسلامی دعوت کا مقصد لوگوں کو مسلمانوں کی طرف بلانانہیں بلکہ اسلام کی طرف بلانا ہے۔ لوگوں کو یہ بتانا کہ ان کا ایک خدا ہے۔ لوگوں کو خدا کے کریشن پلان سے آگاہ کرنا، لوگوں کو جنت اور جہنم کی خبر دینا، لوگوں کو یہ بتانا کہ خدا ایک دن تم کو جمع کرے گا اور تمھارا حساب لے گا، اور پھر لوگوں کے لیے ان کے ریکارڈ کے مطابق، جنت یا جہنم کا فیصلہ کرے گا۔
گویا کہ دعوت کا نشانہ یہ ہے کہ جو لوگ دکھائی دینے والی دنیا(seen world) میں جیتے ہیں، ان کو یہ بتانا کہ یہاں ایک نہ دکھائی دینے والی دنیا(unseen world) موجود ہے، اور تم کو آخر کار مرنے کے بعد اسی نہ دکھائی دینے والی ابدی دنیا کی طرف جانا ہے، اور اس کے تقاضوں کا سامنا کرنا ہے۔
اِس اعتبار سے دیکھیے تو دعوت کے عمل میں مسلمانوں کے معاشرے یا نظام کا صالح ہونا یا غیر صالح ہونا ایک غیر متعلق بات ہے۔ اِس معاملے میں اصل اہمیت صرف دوچیزوں کی ہے— استدلال اور یقین۔ ایک، یہ کہ داعی کے پاس ایسی دلیل کا سرمایہ موجود ہو جو مدعو کو مطمئن کرسکے۔ دوسری بات یہ کہ داعی کو خود سچائی کی اتنی گہری معرفت حاصل ہو کہ وہ پورے یقین کے ساتھ اس کی طرف دعوت دے سکے۔ اس کا یقین اتنا بڑھا ہوا ہو کہ جب وہ اس کے بارے میں بولے تو ایسا محسوس ہو کہ وہ لوگوں کو کسی ایسی چیز سے باخبر کررہا ہے جس کو اس نے خود دیکھا ہے۔
داعی جب دوسروں کے درمیان دعوت کا کام کرتا ہے تو اُس وقت نکتۂ دعوت کیا ہوتا ہے۔ اُس وقت اس کا نکتۂ دعوت یہ نہیں ہوتا کہ ہم نے اپنے یہاں ایک صالح نظامِ زندگی بنالیا ہے، تم اس کو دیکھو اور تم بھی ویسا ہی نظام اپنے یہاں بناؤ۔ داعی کا دعوتی نکتہ یہ نہیں ہوتا۔ داعی کا دعوتی نکتہ صرف یہ ہوتا ہے کہ خدا اور انسان کے درمیان کیا تعلق ہے، اور دعوت کے بعد کی زندگی میں انسان کے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے۔ اسی کو قرآن میں انذار اور تبشیر کہاگیا ہے۔ گویا کہ اسلام میں نکتۂ دعوت اس کا نظری پہلو ہے نہ کہ اس کا نظامی پہلو۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری سیرت اِسی دعوتی نقطۂ نظر کی تائید کرتی ہے۔