نماز، قرآن میں
قرآن کی سورہ نمبر ۲۹ میں بتایا گیا ہے کہ:إنّ الصلوٰۃ تنہیٰ عن الفحشاء والمنکر (العنکبوت: ۴۵) یعنی بے شک نماز فحش اور منکر باتوں سے روکتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی شخص نماز کے فارم کو دہرائے تو خود بخود اس کا یہ عملی نتیجہ ہوگا کہ وہ بُری باتوں اور بُرے کاموں سے رُک جائے گا۔ اگر ایسا ہوتا تو فارم والی نماز پڑھنے والے کروروں لوگ ہر بُری بات اور ہر بُرے کام سے رُکنے والے دکھائی دیتے۔ حالاں کہ ایسا نہیں۔
اصل یہ ہے کہ اِس آیت میں نماز سے مراد نماز کی اسپرٹ ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی انسان کے اندر نماز والی اسپرٹ پیدا ہوجاتی ہے تو اس کے اندر بُرائیوں سے بچنے کا مزاج پیدا ہوجاتا ہے۔ نفسیاتِ نماز اس کے لیے فحش اور منکر سے ناہی (restrict) کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ نماز دراصل ایک تربیت ہے نہ کہ صرف ایک رسم۔ آیت میں دراصل تربیت یافتگانِ نماز کا ذکر ہے نہ کہ صرف رسمی طورپر فارم کو ادا کرنے والوں کا ذکر۔
اِس کا مطلب یہ نہیں کہ فارم کوئی غیر اہم چیز ہے۔ اصل یہ ہے کہ فارم داخلی اسپرٹ کا ایک خارجی ظہور ہے۔ جہاں اسپرٹ ہوگی وہاں یہ خارجی ظہور بھی یقینا پایا جائے گا۔ اِس معاملے کو اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ نماز کا فارم، نماز کی اسپرٹ کا ظہور یا اسپرٹ اِن ایکشن(spirit in action)ہے۔
ہر عبادتی فارم کا معاملہ یہی ہے۔ اگر چہ عبادت میں اصل اہمیت اسپرٹ کی ہے، لیکن اسپرٹ جب زندہ ہو تو فطری طور پر وہ حرکت و عمل(activities)کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ نماز کے لیے آدمی جب وقت پر اٹھتا ہے، وہ وضو کرتا ہے، وہ مسجد جاتا ہے، وہ لوگوں کے ساتھ باجماعت نماز میں شریک ہوتا ہے اور پھر لوگوں سے مل کر وہ واپس آتا ہے، اور پھر یہی کام وہ روزانہ پانچ بار کرتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نماز کی عبادت، حرکت و عمل میں (activities) بدل جاتی ہے۔ اسپرٹ کے بغیر حرکت و عمل نہیں، اور حرکت و عمل کے بغیر اسپرٹ نہیں۔
اسپرٹ اِن ایکشن کے معاملے کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ مختلف ملکوں میں قومی دن منائے جاتے ہیں۔ مثلاً ہندستان میں ۱۵؍اگست کو یوم آزادی، ۲۶ جنوری کو یومِ جمہوریہ وغیرہ۔ بظاہر یہ کچھ رسمی تقریبات(celebration) منانے کا دن ہوتا ہے۔ مگر ان کی اہمیت صرف اِن ظاہری تقریبات کی بنا پر نہیں بلکہ اُس داخلی اسپرٹ کی بنا پر ہوتی ہے، جس کے تحت ان کو منایا جاتا ہے۔
یہ داخلی اسپرٹ کیا ہے۔ یہ داخلی اسپرٹ حبُّ الوطنی ہے۔ یعنی وطن سے اپنے تعلق کو یاد کرنے کے لیے کچھ تاریخی دنوں میں بعض تقریبات منانا۔ اِس اعتبار سے ہندستان کے یومِ آزادی یا یومِ جمہوریہ کو حبّ الوطنی کا عمل (patriotis in action) کہا جاسکتا ہے۔
یہ معاملہ زندگی کی ہر سرگرمی سے تعلق رکھتا ہے۔ مثال کے طورپر آپ کا ایک دوست لمبے عرصے کے بعد آپ کے پاس آتا ہے اور آپ سے ملاقات کرتا ہے۔ دوست کو دیکھ کر آپ کے اندر محبت کا جذبہ بھڑک اٹھے گا۔ آپ اٹھ کر اس سے ملیں گے۔ اس سے معانقہ کریں گے۔ اس کو لے جاکر عزت کے ساتھ بٹھائیں گے۔ ٹیلی فون کے ذریعے دوسروں کو بتائیں گے کہ آپ کا فلاں دوست آیا ہوا ہے۔ اس کے لیے کھانے پینے اور آرام کرنے کا اہتمام کریں گے، وغیرہ۔
محبوب د وست کے لیے آپ کی یہ تمام سرگرمیاں عملاً محبت(love in action) کا مصدا ق ہیں۔آپ کی ظاہری سرگرمیاں گویا کہ داخلی محبت کا خارجی ظہور ہیں۔ محبت اگرچہ اصلاًایک داخلی حالت کا نام ہے، لیکن مذکورہ سرگرمیاں بھی اس کا لازمی جُز ہیں۔ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا—اِن مثالوں سے عبادت کی روح اور اس کے فارم کے باہمی تعلق کو سمجھا جاسکتا ہے۔