روزے کی حکمت
اسلام میں دو عبادت کو بنیادی عبادت کا درجہ دیا گیا ہے— نماز، اور روزہ۔ نماز علامتی طورپر اسلام کے مثبت احکام کو بتاتی ہے۔ اور روزہ بتاتا ہے کہ اہلِ ایمان کو کچھ باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ نماز عمل کی زبان میں یہ بتاتی ہے کہ اہلِ ایمان کے اندر تواضع، اطاعت، شکر، امن پسندی اور باہمی الفت کا مزاج ہونا چاہیے۔ اس کے مقابلے میں روزہ یہ بتاتا ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زندگی پرہیزگاری کی زندگی ہو۔
حدیث میں آیا ہے کہ جب کوئی شخص روزہ رکھے تو وہ نہ گندی بات کرے اور نہ شور کرے۔ اگر کوئی شخص اس کو گالی دے تو وہ یہ کہہ دے کہ میں روزے دار ہوں۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ ر وزہ سیلف کنٹرول کی تربیت ہے۔ آدمی روزے کے زمانے میں جس طرح کھانے پینے کی چیزوں میں سیلف کنٹرول کا طریقہ اختیار کرتا ہے، اسی طرح اس کو اپنی پوری زندگی میں اخلاقی کنٹرول کا طریقہ اختیار کرناچاہیے۔ کوئی شخص اگر اپنے غلط رویّے سے اس کو بھڑکائے تب بھی اس کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو بھڑکنے سے بچائے۔
اِسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ جس شخص نے روزہ رکھا مگر ا س نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کو اس کی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور پینا چھوڑدے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان میں کھانا اور پانی چھوڑنا ایک علامتی ترک ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ آدمی ہر بُرائی کے معاملے میں ’’روزے دار‘‘ بن جائے۔ وہ غلط بات بولنا بھی چھوڑ دے، اور غلط کام کرنا بھی چھوڑ دے۔ یہی روزے کا اصل مقصد ہے۔
رمضان کا مہینہ ذاتی محاسبہ کا مہینہ ہے۔ یہ اپنے اوپر نظر ثانی کرنے کا مہینہ ہے۔ یہ اپنی اصلاح آپ کرنے کا مہینہ ہے۔ رمضان کے مہینے کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو خدا کی نظر سے دیکھے نہ کہ صرف اپنی نظر سے۔