نئی منصوبہ بندی کی ضرورت
انیسویں صدی عیسوی میں یہ واقعہ ہوا کہ مغربی قومیں نئی قوتوں سے مسلّح ہو کر ابھریں، اور ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے پر چھا گئیں۔ یہ علاقہ وہی تھا جہاں مسلمان سیکڑوں سال سے حالتِ اقتدار میں رہ رہے تھے۔ مسلم دنیا کے رہنماؤں کے اندر اس صورت حال کے خلاف ردّ عمل پیدا ہوا۔ تقریباً ہر جگہ کسی نہ کسی صورت میں اس ردّ عمل کا اظہار ہونے لگا۔
یہ بات بے حد اہم ہے کہ اسی زمانے میں اِس سوال کو لے کر دو تحریکیں اٹھیں۔ ایک تحریک ۱۸۵۷ میں اٹھی۔ اس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک تھے۔ یہ تحریک مسلّح انقلاب پر یقین رکھتی تھی۔ چنانچہ انھوں نے یہ کوشش کی کہ اسلحے کی مدد سے انگریزوں کو ہندستان سے نکال دیں۔اِس جنگ میں ہندو اور مسلمان، دونوں کا بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا۔لیکن یہ تحریک اپنے مقصد میں مکمل طورپر ناکام رہی۔
اِس مسلّح تحریک کے تقریباً ساٹھ سال بعد مہاتما گاندھی، سیاسی آزادی کی جدوجہد میں شریک ہوئے۔ ۱۹۱۹ء کے بعد وہ کانگریس کے سب سے بڑے لیڈر بن گیے۔
مہاتما گاندھی نے ۱۹۱۹ میں یہ اعلان کیا کہ وہ ہنسا (تشدد) میں یقین نہیں رکھتے۔ چنانچہ وہ آزادی کی تحریک کو مکمل طورپر اَہنسا (عدم تشدّد) کے اصول پر چلائیں گے۔ یعنی وائلنٹ متھڈ (violent method) کے بجائے پیس فُل متھڈ(peaceful method) کے ذریعے۔
جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے، انگریزی حکومت ۱۸۵۷سے لے کر ۱۹۱۹ تک تحریکِ آزادی سے وابستہ لوگوں کو تشدد کے ذریعے کچلنے کی کوشش کرتی رہی۔ تحریک آزادی کے کارکنوں کا تشدد، انگریزوں کو یہ موقع دیتا رہا کہ وہ جوابی تشدد کے ذریعے اِس تحریک کو کچلنے کی کوشش کرتے رہیں۔ لیکن جب مہاتما گاندھی نے تشدد کا طریقہ ترک کردیا تو گویا کہ انھوں نے انگریزی حکومت سے تشدد کا جواز چھین لیا۔
مہاتما گاندھی کی امن پالیسی کے نتیجے میں جو حالات پیدا ہوئے اس کا ایک اندازہ اِس واقعے سے ہوتا ہے کہ اُس زمانے کے ایک انگریز کلکٹر نے اپنے برٹش سکریٹریٹ کو یہ میسیج بھیجا کہ— براہِ کرم، بذریعہ ٹیلی گرام یہ بتائیے کہ ایک شیر کو تشدد کے بغیر کس طرح ہلاک کیا جائے:
Kindly, wire instructions how to kill a tiger non-violently.
جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے، متشددانہ طریقِ کار کے مقابلے میں پُر امن طریقِ کار اتنا زیادہ کامیاب رہا کہ صرف ۲۵ سال کے بعد ۱۹۴۷ میں انڈیا آزاد ہوگیا۔ ساٹھ سال کی پُر تشدد جدوجہد، آزادی کے حصول میں ناکام ثابت ہوئی۔ مگر بیس سال کی پُرامن جدوجہد، آزادی کے حصول میں پوری طرح کامیاب رہی۔
برِّ صغیر ہندمیں پیش آنے والے یہ دونوں واقعات، مسلم نقطۂ نظر سے بے حد اہم تھے۔ یہ واقعات بتارہے تھے کہ نوآبادیاتی دَور صرف سیاسی استیلاء کے ہم معنٰی نہیں ہے، اسی کے ساتھ وہ نیے عظیم تر امکانات بھی لے کر آیا ہے۔ اِن امکانات کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اب نیے وسائل نے قدیم پُر تشدد طریقِ کار کے مقابلے میں پُر امن طریقِ کار کو زیادہ مؤثر بنادیا ہے۔ یہاں تک کہ اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ جو جنگ ہتھیاروں کی مدد سے جیتی نہیں جاسکتی تھی، اس کو امن کے ذرائع کی مدد سے شان دار طور پر جیت لیا جائے۔
یہ واقعہ ساری دنیا کے مسلم رہنماؤں کے لیے ایک چشم کُشا واقعے کی حیثیت رکھتا تھا۔ مگر میرے علم کے مطابق، ساری مسلم دنیا میں کوئی ایک بھی قابلِ ذکر مسلم رہنما نہیں تھا جو اِس واقعے سے سبق لے اور اس کی روشنی میں اپنی ملّی جدوجہد کی نئی منصوبہ بندی کرے۔ ہر جگہ کی مسلم تحریکیں بدستور اُسی متشددانہ طریقِ کار پر چلتی رہیں جس پر وہ پہلے چلتی تھیں۔ اِس تاریخ پر اب ڈیڑھ سو سال گذر چکے ہیں، لیکن کسی بھی علاقے کے مسلمانوں میں کوئی حقیقی مثبت تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔
مزید اندوہ ناک بات یہ ہے کہ مسلمان اپنے ذاتی معاملات کو تو مصالحت اور ایڈجسٹ مینٹ کے اصول پر چلاتے ہیں۔ لیکن جہاں تک قومی پالیسی کی بات ہے، ہر جگہ وہ تشدد اور انتہا پسندی کا طریقہ استعمال کررہے ہیں— یہ دوعملی بلا شبہہ اُن کے لیے پہلے سے بھی زیادہ ہلاکت خیز ہے۔
اِس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ مسلمان ساری دنیا میں اپنی تحریکوں پر نظر ثانی کریں۔ وہ نظری اعتبار سے اپنی سوچ کو بدلیں، اور عملی اعتبار سے اپنی تحریکوں کو متشددانہ طریقِ کار کے بجائے پُر امن طریقِ کار کے اصول پر چلائیں۔ موجودہ حالت میں مسلمانوں کے لیے اِس کے سوا کوئی اور انتخاب نہیں۔ یہاں میں مختصر طور پر بتاؤں گا کہ موجودہ حالت میں مسلمانوں کو اپنی نئی پالیسی کن خطوط پر بنانا چاہیے۔
۱۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ واضح انداز میں اِس بات کا کھلا اعلان کیا جائے کہ انڈیا میں، اور دوسرے ملکوں میں مسلمانوں نے جو مسلّح تحریکیں شروع کیں، وہ ان کی بہت بڑی غلطی تھی۔ اِس اعتراف کے بعد یہ اعلان کیا جائے کہ تمام مسلّح تحریکوں کو بلا شرط یک طرفہ طورپر ختم کیا جاتا ہے۔ اِس قسم کا اعلان لازمی طورپر ضروری ہے۔ اس کے بغیر مسلمانوں کو کوئی نیانقطۂ آغاز ہی نہیں ملے گا۔
بد قسمتی سے اِس معاملے میں برعکس طریقہ اختیار کیا گیا۔ سلطان ٹیپو سے لے کر یاسر عرفات تک، پچھلے دو سو سال کے اندر جو ناکام لڑائیاں لڑی گئیں، اب تک ہمارے لکھنے اور بولنے والے ان کو گلوری فائی کرتے رہے ہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تباہی کے واقعات مسلمانوں کی نظر میں فخر کے واقعات بن گیے۔ اس کی ایک مثال ’’علماء ہند کا شان دار ماضی‘‘ نامی کتاب ہے۔ اِس طرح کی تحریریں ساری دنیا میں شائع کی گئیں۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ مسلمان اپنی معکوس نتیجہ پیدا کرنے والی لڑائیوں پر نظر ثانی نہ کرسکے۔ کیوں کہ فخر اور نظر ثانی، دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔
۲۔ ضرورت ہے کہ ہر جگہ تمام متشددانہ کارروائیوں کو یک لخت بند کرکے تعلیم کا کام شروع کیا جائے۔ خاص طور پر ماڈرن ایجوکیشن بہت ضروری ہے۔ مسلمانوں میں جب تک ماڈرن ایجوکیشن نہ آئے، وہ جدید مسائل کو سمجھ نہیں سکتے۔ اور جب مسائل کی نوعیت ہی معلوم نہ ہوتو ان کے حل کی کامیاب منصوبہ بندی کس طرح کی جاسکتی ہے۔
۳۔ مسلمان ساری دنیا میں جہاں جہاں زمین کے لیے لڑ رہے ہیں، اب وہ اِس معاملے میں اسٹیٹس کوازم(statusquoism) کی پالیسی اختیار کرلیں۔ یعنی حالتِ موجودہ کو علیٰ حالہ تسلیم کرنا، اور غیر نزاعی دائرے میں موجود مواقع کو پُر امن طورپر استعمال کرنے کی کوشش کرنا۔
۴۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ مسلمان اُس کام کو کریں جس کو اسلام میں دعوت الیٰ اللہ کہاگیا ہے۔ یعنی اسلام کے پیغام کو پُر امن طورپر غیر مسلم قوموں تک پہنچانا۔ دعوت کا کام کوئی محدود کام نہیں، دعوت کا کام پوری زندگی کے لیے ایک انقلابی عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں میں اگر دعوت کا کام زندہ ہو جائے تو اس کے بعد دوسرے بہت سے مثبت واقعات وجود میں آئیں گے۔ مثلاً مسلمانوں کے اندر عالمی نقطۂ نظر پیدا ہوگا۔ ان کے روابط دوسری قوموں سے بہت زیادہ بڑھ جائیں گے۔ ان کے اندر تعلیم کا گہرا جذبہ پیدا ہوگا۔ وہ ایک متحرک قوم بن جائیں گے۔ ان کے اندر مثبت سوچ، تعمیری ذہن، تحمّل، رواداری اور انسانی احترام جیسی اعلیٰ صفات پیدا ہوں گی۔