قیادت ناکام، مسلمان کامیاب
۱۹۴۷ میں ہندستان آزاد ہوا۔ اُس وقت یہاں کے مسلمان، غالباً بلااستثنا، یہ سمجھ رہے تھے کہ اِس ملک میں اب مسلمانوں کا کوئی مستقبل نہیں۔ اُس زمانے میں مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے جس قسم کی مایوس کُن باتیں کہہ رہے تھے اُس کی ایک علامتی مثال مسٹر خالد لطیف گابا (وفات ۱۹۸۱) کی انگریزی کتاب منفعل آوازیں (Passive Voices) ہے۔ اِس کتاب کے دیباچے میں انھوں نے لکھا تھا کہ— انڈیا کے مسلمانوں کی حالت کا خلاصہ بتانے کے لیے صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اِس ملک میں منفعل آوازیں بن چکے ہیں :
It would be difficult to sum up the status and conditions of Muslims in India better in two words "Passive Voices".
یہ آزادی کے بعد ہندستانی مسلمانوں کے بارے میں مسلم قیادت کا عمومی اندازہ تھا۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ نتیجہ عملاً اس کے بالکل برعکس نکلا۔ آج ہندستان کے مسلمان اس ملک میں ہمیشہ سے زیادہ بہتر حالت میں ہیں، حتی کہ مغل دَور سے بھی زیادہ بہتر حالت میں۔ آج کے شہروں میں مسلمانوں کو جو مادّی سہولیات حاصل ہیں وہ مغل دور کے مسلمانوں کو بھی حاصل نہ تھیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندستان کے مسلمان موجودہ ستّاون مسلم ملکوں سے بھی زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔ اس کی علامتی مثال یہ ہے کہ پاکستان کا مسلمان نیو کلیر سائنٹسٹ ڈاکٹر عبد القدیر خاں قید کی زندگی گذاررہا ہے۔ اس کے مقابلے میں انڈیا کا مسلمان نیوکلیر سائنٹسٹ ڈاکٹر عبد الکلام، ملک کی صدارت کے عہدے پر فائز ہے۔
اس طرح انڈیا کے حکیم عبد الحمید (وفات ۱۹۹۹) نے دہلی میں ہمدرد یونیورسٹی بنائی۔ اس کے بعد اپنی عمر طبعی کے مطابق، ان کی وفات ہوئی۔ اس کے برعکس، حکیم محمد سعید (وفات ۱۹۹۸) نے کراچی میں ہمدرد یونیورسٹی بنائی اور ان کے دفتر میں ان کو گولی مار کر ہلاک کر دیاگیا، وغیرہ۔
موجودہ ہندستان میں مسلمانوں کی جو ترقی یافتہ حالت ہے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ۱۹۶۷ میں جب میں دہلی آیا، اُس وقت دہلی میں یہ حالت تھی کہ جمعہ اور عیدین کے دن مسجد کے باہر کسی مسلمان کی کار دکھائی نہیں دیتی تھی۔ آج یہ حالت ہے کہ آپ جس مسجد میں جمعہ اور عیدین کی نمازادا کریں، وہاں آپ کو مسجد کے باہر مسلم کاروں کی لمبی قطاریں دکھائی دیں گی۔ میں ۱۹۸۳ میں نظام الدین ویسٹ (نئی دہلی) کی کالونی میں آیا۔ اُس وقت یہاں ہر طرف صرف ہندو دکھائی دیتے تھے۔ اب یہ حال ہے کہ کالونی کی بیش تر بلڈنگوں کو مسلمانوں نے بڑی بڑی قیمت دے کر خرید لیا ہے۔ یہاں کی سڑکوں پر رات، دن مسلمانوں کی کاریں دوڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
اس معاملے کو ایک اور مثال سے سمجھیے۔ پروفیسر خورشید احمد (مقیم برطانیہ) نے اپنے ایک مضمون میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ حیدرآبادی (وفات ۲۰۰۲) کے بارے میں ان کے حالات بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ:
“میرے استفسار پر ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے ایک بار بتایا کہ ‘‘میں دولتِ آصفیہ (حیدرآباد) کے پاسپورٹ پر یورپ آیا تھا۔ پھر (پولیس ایکشن کے بعد) میری غیرت نے قبول نہ کیا کہ بھارت کا پاسپورٹ حاصل کروں …‘‘ان کی دینی حس اتنی بیدار تھی کہ حیدر آباد دکن سے یورپ جانے کے بعد مقبوضہ حیدرآباد دکن کبھی واپس نہ آئے۔ جب میں نے اصرار کیا کہ اسلامک فاؤنڈیشن لسٹر کے پروگرام میں شریک ہوں، تو بڑے دُکھے دل سے کہا کہ میں اُس انگلستان کی سرزمین پر قدم رکھنا پسند نہیں کرتا جس نے میرے آزاد ملک کو بھارت کی غلامی میں دے دیا۔ وہ کبھی برطانیہ نہ آئے‘‘۔(ماہ نامہ میثاق، لاہور، مئی ۲۰۰۳)
ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے احساسات جو حیدر آباد کے بارے میں تھے وہی ۱۹۴۷ کے بعد تمام مسلم قائدین کے احساسات تھے۔ لیکن عملاً یہ ہوا کہ ۱۹۴۷ کے بعد حیدرآباد کے مسلمانوں نے غیر معمولی ترقی کی، ایسی ترقی جو انھیں سابق دولتِ آصفیہ کے زمانے میں بھی حاصل نہ تھی۔میں نے حیدرآباد کو ۱۹۴۷ سے پہلے بھی دیکھا تھا، اور آج کے حیدر آباد کو بھی میں نے کئی بار بار دیکھا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج حیدرآباد کے مسلمانوں نے اتنی زیادہ ترقی کی ہے جس کا تصور بھی ۱۹۴۷ سے پہلے کے مسلمان نہیں کرسکتے تھے۔
آج آپ حیدرآباد کے جس حصے میں جائیں وہاں آپ کو مسلمانوں کی شان دار دکانیں اور بڑے بڑے نو تعمیر رہائشی مکانات نظر آئیں گے۔ مسجدیں اور مدرسے اور مسلم ادارے اپنی شان دار بلڈنگوں کے ساتھ بتارہے ہوں گے کہ نیے حیدرآباد میں مسلمانوں کو غیر معمولی ترقیاں حاصل ہوئی ہیں۔
یہی حال پورے ملک کا ہے۔ اوپر میں نے ملک کے دو بڑے شہروں کا ذکر کیا ہے۔مشرقی یوپی میں میرا آبائی گاؤں ایک دور افتادہ گاؤں کی حیثیت رکھتا تھا۔ ۱۹۴۷ سے پہلے یہاں ترقی نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی۔ مگر آج اِس گاؤں میں بجلی، ٹیلی فون اور سڑک جیسی چیزوں کی موجودگی بتارہی ہے کہ اب یہ گاؤں بھی ملکی ترقی کے نقشے پر آچکا ہے۔گاؤں میں شان دار مدرسہ اور شان دار اسکول قائم ہے۔ گاؤں میں ہر طرف پختہ مکانات نظر آتے ہیں، وغیرہ۔
یہی حالت آج پورے ملک میں مسلمانوں کی ہے۔ گاؤں سے لے کر شہر تک ہر جگہ مسلمان تیزی سے ترقی کررہے ہیں۔ وہ تجارت اور تعلیم اور دوسرے تر قیاتی شعبوں میں نمایاں طورپر آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو انڈیا کے ہر شہر اور ہر علاقے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان اِس حقیقت کا انکار کرے تو اس سے آپ صرف ایک سوال کیجئے کہ— تمھارے اپنے خاندان کی معاشی حالت ۱۹۴۷ سے پہلے کیا تھی، اور اب کیا ہے۔ یقینی طور پر اس کا جواب یہ ہوگا کہ آج میرا خاندان ۱۹۴۷ کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر حالت میں ہے۔ پہلے اگر ہمارے گھر کے لوگ سائیکل نشیں تھے تو اب وہ کار نشیں ہوگیے ہیں، وغیرہ۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندستان کے مسلم قائدین کے تمام مایوسانہ اندازوں کے سراسر خلاف، ہندستانی مسلمانوں کی حالت اتنی زیادہ بہتر کیسے ہوگئی۔ یہ کوئی پُراسرار معاملہ نہیں۔ یہ تمام تر زمانی تبدیلی کا معاملہ ہے۔ ۱۹۴۷ سے پہلے کا انڈیا، بنیادی طورپر، زرعی دَور میں تھا۔ ۱۹۴۷ کے بعد کا انڈیا، بنیادی طورپر، صنعتی دور میں پہنچ چکا ہے۔ زرعی دور میں معاشی ذرائع صرف لینڈ لارڈ کے پاس ہوا کرتے تھے۔ صنعتی دور نے معاشی ذرائع کو ڈی سنٹرلائز(de-centralize) کردیا۔ اِسی زمانی فرق کا یہ نتیجہ ہے کہ آج معاشی اسباب تمام لوگوں کے لیے قابل حصول ہوگیے۔ اسبابِ معیشت کے اِس عمومی پھیلاؤ میں جس طرح دوسروں کو حصہ ملا، اُسی طرح مسلمانوں کو بھی اس میں حصہ ملا۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ یہ المیہ پیش آیا کہ ان کے اوپر ایسے لوگ قائدبن گیے جو زمانی بصیرت سے مکمل طورپر خالی تھے۔ اپنی بے بصیرتی کی بنا پر وہ صرف ماضی کو دیکھ سکے۔ انھیں زمانے کی اُن انقلابی تبدیلیوں کی خبر نہ ہوسکی جو دورِ جدید کو مکمل طورپر بدل دینے والی تھیں۔ مسلمانوں کے یہ بے بصیرت قائدین، مسلمانوں کو منفی خبریں بتاتے رہے۔ جب کہ عین اسی وقت زمانے کے اندر ہونے والا تاریخی عمل، پورے ملک اور پورے سماج کو ایک نیے ترقیاتی دور کی طرف لے جارہا تھا، جہاں معاشی مواقع ہر ایک کے لیے کھُل جائیں، جہاں کوئی بھی شخص عمومی اقتصادی برسات میں حصہ پانے سے محروم نہ رہے۔
مسلمانوں کے نام نہاد قائدین، اپنی بے بصیرتی کی بنا پر منفی بولی بولتے رہے۔ دوسری طرف زمانی اسباب مسلمانوں کے لیے ترقی کے دروازے کھولتے رہے۔ یہی وہ دو طرفہ واقعہ ہے جس کا نتیجہ ہم آج اِس صورت میں دیکھ رہے ہیں کہ— مسلم قائدین مکمل طورپر ناکام ہیں، اور مسلم کمیونٹی مکمل طور پر کامیاب۔