مراسلت نمبر— ۹

مولانا محمد رابع حسنی ندوی (ناظم ندوۃ العلما، لکھنؤ) کی ایک کتاب شائع ہوئی۔ اِس کتاب میں انھوں نے مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کتاب’’نبی رحمت‘‘ کا تعارف لکھتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کتاب جدید ذہن کو سامنے رکھتے ہوئے عصری اسلوب میں لکھی گئی ہے۔اِس سلسلے میں مولانا موصوف سے درج ذیل مراسلت ہوئی:

مکرمی و محترمی مولانا محمد رابع حسنی ندوی!

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ

عرض یہ کہ آپ نے اپنی کتاب ’’مولانا سید ابو الحسن علی ندوی: عہد ساز شخصیت‘‘ (مطبوعہ: مجلس تحقیقات و نشریات اسلام، لکھنؤ) میں مولانا ابو الحسن علی ندوی کی کتاب ’’نبی رحمت‘‘ کے بارے میں لکھا ہے کہ:

اِس میں سیرتِ نبوی کو اپنے ذوق اوررجحان اور رائج الوقت علمی نظریات کا تابع بنانے اور زندہ حقیقتوں اور منہ بولتی صداقتوں میں فلسفہ آرائی اور رنگ آمیزی سے کام لینے کے بجائے، اپنی حقیقی اور واقعی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔نئی نسل کے فہم اور نفسیات کی موجودہ سطح اور عصری اور علمی اسلوب کا پورا خیال رکھا گیا ہے‘‘۔ (صفحہ ۳۰۴)

میں نے مولانا ابوالحسن علی ندوی کی مذکورہ کتاب عربی اور اردو دونوں زبانوں میں پڑھی ہے، مگر مجھے اس میں آپ کے مذکورہ بیان کی کوئی تصدیقی مثال نہیں ملی۔ مولانا علی میاں کی اِس کتاب کے کس صفحے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نئی نسل کے فہم کی موجودہ سطح کو سمجھتے تھے، اور انھوں نے عصری اسلوب میں اس کا علمی تجزیہ کیا ہے۔ نیز ان کی کس تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ وقت کے فکری مستویٰ اور عصری اسلوب سے گہرائی کے ساتھ واقف تھے۔ براہِ کرم صفحہ نمبر کی تعیین کے ساتھ اس کے مکمل حوالے سے آگاہ فرمائیں۔

نئی دہلی، ۱۵ جون ۲۰۰۶ء             دعا گو    وحید الدین

میرے اِس خط کے بعد جب مولانا موصوف کی طرف سے میرے خط کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا تو میں نے دوبارہ یاددہانی کے لیے انھیں درج ذیل خط روانہ کیا:

مکرمی ومحترمی مولانا محمد رابع حسنی ندوی!

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ

عرض یہ کہ میں نے اپنے خط مؤرخہ ۱۵ جون ۲۰۰۶ میں، مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کتاب ’’نبی ٔرحمت‘‘ کے متعلق، آپ سے یہ دریافت کیا تھا کہ مولانا علی میاں کی اس کتاب کے کس صفحے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نئی نسل کے فہم کی موجودہ سطح کو سمجھتے تھے، اور انھوں نے عصری اسلوب میں اس کا علمی تجزیہ کیا ہے۔

مجھے ابھی تک آپ کی طرف سے اس کا کوئی جواب نہیں ملا۔ براہِ کرم متعین طور پر جلد اس کا جواب ارسال فرماکر شکریے کا موقع عنایت فرمائیں۔

نئی دہلی، ۱۵ جولائی ۲۰۰۶ء           جواب کا منتظر      وحید الدین

میرے ان دو خطوط کے بعد مولانا موصوف کا ایک خط مجھے ملا، جو یہاں نقل کیا جاتا ہے:

محترم المقام جناب مولانا وحید الدین خاں صاحب زیدت معالیہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے کہ مزاج بخیر ہوگا۔عنایت نامہ ملا، اس بات سے مسرت ہوئی کہ میری مرتب کردہ کتاب آپ کی نظر سے گذری، اس میں آپ نے ایک جگہ میری تحریر کردہ بات سے اختلاف کیا ہے، وہ بات حضرت علی میاں صاحب رحمۃ اللہ کی کتاب ’’نبی ٔ رحمت‘‘ کی افادیت اور خوبی کے سلسلہ میں ہے، اس میں آپ کی رائے میرے اظہار کردہ خیال کے خلاف ہے، آپ کے عنایت نامہ سے اس کا علم ہوا۔

اختلاف رائے ہونا کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ بہر حال میں نے جو سمجھا وہ لکھا، اور صحیح سمجھ کر لکھا۔ امید ہے کہ میری اختیار کردہ رائے کے اظہار کو آپ غلط معنی نہ دیں گے۔ میں نے کسی دوسرے سے تقابل نہیں کیا ہے، اور میں حتی الوسع شخصیتوں کے درمیان اختلاف کو اپنی تحریر یا تقریر کا موضوع بھی نہیں بناتا، ہر ایک شخصیت کی صرف خوبیوں تک اپنے اظہار رائے کو رکھنے کی کوشش کرتاہوں، اور اختلافی معاملات سے اجتناب کی بھی کوشش کرتا ہوں، الا یہ کہ اسلام اور کفر کے مابین کی بات ہو۔ میں اس میں کہاں تک کامیاب ہوتا ہوں، کہہ نہیں سکتا، لیکن ایسے معاملات میں کسی سے ردّوقدح کرنا پسند نہیں کرتا۔آپ سے مجھ کو عرصہ سے تعارف حاصل ہے، اور اچھے انداز کا ربط و تعلق رہا ہے، دعا ہے کہ وہ باقی رہے۔ دعا میں یاد رکھیں۔

۰۲؍۰۸؍۲۰۰۶ء         مخلص

محمد رابع حسنی ندوی
ندوۃ العلماء، لکھنؤ

مولانا موصوف کے اس خط کے بعد میں نے دوبارہ ان کی خدمت میں ایک خط روانہ کیا۔ میرے اس خط کا ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ مذکورہ خط کی نقل یہاں درج کی جاتی ہے:

مکرمی ومحترمی مولانا محمد رابع حسنی ندوی!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

آپ کا خط مؤرخہ ۲ ؍اگست ۲۰۰۶ ملا۔میرا پچھلا خط واضح طور پر ردّ و قدح کی نوعیت کا خط نہیں تھا۔مولانا ابو الحسن علی ندوی کی کتاب ’’نبی ٔ رحمت‘‘ کی افادیت اور خوبی سے بھی مجھے کوئی انکار نہیں، نیز یہ کہ میں نے اس کتاب کا تقابل کسی اور کتاب سے نہیں کیا تھا۔ میں نے آپ سے متعین طور پرصرف ایک بات دریافت کی تھی۔ وہ یہ کہ آپ نے لکھا ہے کہ—اس کتاب میں نئی نسل کے فہم اور نفسیات کی موجودہ سطح اور عصری اور علمی اسلوب کا پورا خیال رکھاگیا ہے۔ آپ کے اس بیان کے مطابق، میرا سوال صرف یہ ہے کہ آپ متعین طورپر اس کتاب کے کسی ایک صفحے کی نشان دہی فرمائیں جس میں عصری اسلوب کی واضح مثال ملتی ہے۔

نئی دہلی، ۸ ؍اگست ۲۰۰۶ء           دعا گو    وحید الدین

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom