مراسلت نمبر— ۵

ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی مدیر ماہ نامہ زندگی ٔ نَو (نئی دہلی) کا ایک مضمون زندگی ٔ نَو میں ’’اشارات‘‘ کے طور پر چھپا۔ اس کا تعلق ڈنمارک میں شائع ہونے والے حالیہ کارٹون سے تھا۔ اِس مضمون کو پڑھنے کے بعد میں نے انھیں ایک خط روانہ کیا جس کا متن یہ تھا:

برادر محترم ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی!

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ

ماہ نامہ زندگی ٔ نو کا شمارہ اپریل ۲۰۰۶ دیکھا۔ اس کے ’’اشارات‘‘ میں آپ نے ڈنمارک کے ایک اخبار میں شائع شدہ کارٹون پر تبصرہ فرمایا ہے۔ اِس تحریر کے آخر میں آپ نے ’’ایک معروف مفکّر‘‘ کے حوالے سے ان کی طرف کچھ باتیں منسوب کی ہیں، مگرآپ نے اِس معروف مفکر کا نام نہیں لکھا اور نہ یہ حوالہ دیا کہ انھوں نے اپنی کس تحریر یا کتاب میں وہ بات لکھی ہے جو آپ نے ان کی طرف منسوب فرمائی ہے۔

براہِ کرم مذکورہ معروف مسلم مفکر کا نام تحریرفرمائیں، نیز یہ کہ انھوں نے اپنی کس تحریر میں وہ بات لکھی ہے جو آپ نے ان کی طرف منسوب کی ہے، تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ آپ نے جوبات اُن کی طرف منسوب کی ہے وہ خود انھوں نے لکھی ہے یا آپ نے ان کی بات کو بطور خود بگڑی ہوئی صورت میں پیش کیا ہے۔ براہِ کرم نام اور حوالہ دونوں تحریر فرمائیں، تاکہ اِس معاملے کو متعین طورپر سمجھا جاسکے۔

نئی دہلی، ۳۱ مارچ ۲۰۰۶              دعا گو    وحید الدین

مذکورہ خط کا جواب موصول نہیں ہوا تواس کے بعد میں نے بطور یاد دہانی انھیں دوسرا خط روانہ کیا۔ تاہم ان کی طرف سے میرے خط کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ میرے مذکورہ خط کا متن درج ذیل ہے:

برادرِ محترم ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی!

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ

عرض یہ کہ ۳۱ مارچ ۲۰۰۶ کو میں نے آپ کی خدمت میں ایک جواب طلب خط روانہ کیا تھا مگر اس سلسلے میں آپ کی طرف سے ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ براہِ کرم اس سلسلے میں اپنا جواب ارسال فرمائیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے ماہ نامہ زندگی ٔ نو (اپریل ۲۰۰۶) میں ’’اشارات ‘‘کے تحت، ڈنمارک کے اخبار میں چھپنے والے حالیہ کارٹون کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ اس سلسلے میں آپ نے مزید لکھا تھا کہ : ’’شیطانی کارٹون کے خلاف امتِ مسلمہ کے عالم گیر اضطراب اور احتجاج کے دوران ملتِ اسلامیہ کے بعض مسلم ناصحین بھی میدانِ کار میں اتر آئے ہیں۔ یہ سب نصیحت فرمانے لگے ہیں کہ ’’مسلمانو! صبر کا رویّہ اختیار کرو، جیسا کہ دُشنام طرازی کہ مابَین خود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ قرآن کریم نے خود حریفوں کی الزام تراشی اور ہرزہ گوئی کے درمیان صبر کا رویّہ اختیار کرنے کی تعلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھی:فاصبر علیٰ ما یقولون، وسبّح بحمد ربّک۔ (یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں آپ اس پر صبر کیجئے اور اپنے رب کی تسبیح و پاکی بیان کیجئے اور حمد و ثنا کیجئے)۔اس لیے مسلمانوں کو بھی صبر کرنا چاہیے‘‘۔ یہ نصیحت ہندستان کے ایک معروف مفکر اکثر ہندی مسلمانوں کو ہدیہ کرتے رہتے ہیں اور اس طرح ارشاد فرماتے ہیں کہ گویاگناہ گار خود مسلمان ہیں ‘‘۔ (صفحہ ۱۵)

آپ نے اپنی اِس تحریر میں جن صاحب کا حوالہ دیا ہے ان کا نام آپ نے ذکر نہیں فرمایا۔ براہِ کرم نام کی تصریح کے ساتھ مطلع فرمائیں کہ یہ کون صاحب ہیں، اور انھوں نے اپنی کس کتاب یا مضمون میں وہ نقطۂ نظر تحریر کیا ہے جس کو آپ نے اپنے ’’اشارات‘‘ میں ان کی طرف منسوب فرمایا ہے۔

نئی دہلی، ۱۳؍ اپریل ۲۰۰۶ء          طالب جواب      وحید الدین

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom