خاتمۂ کلام
اِس قسم کا تجربہ مجھے بار بار ہوا ہے۔ بار بار ایسا ہوا ہے کہ ایک شخص اپنی تقریر یا تحریر میں ایک بہت بڑی بات بظاہر پورے یقین کے ساتھ کہتا ہے، لیکن جب اُس سے اس کا حوالہ دریافت کیا جائے تو وہ اس کا کوئی حوالہ نہیں دے پاتا، اور نہ وہ اس کا کھلا اعتراف کرتا ہے۔ اِس قسم کے بیانات نہایت غیر علمی ہیں۔ علمی اعتبار سے ان کا کوئی وزن نہیں۔
مگر یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ اس قسم کا مزاج بتاتا ہے کہ آدمی اپنے حق میں ایک بہت بڑے نقصان کو برداشت کررہا ہے۔ اس قسم کا مزاج ذہنی ترقی کے راستے میں مستقل رکاوٹ ہے۔ جو آدمی ذہنی ترقی کا حریص ہو، اس کو چاہیے کہ وہ کبھی بھی ایسی کوئی بات نہ کہے جس کے حق میں اس کے پاس ضروری دلیل موجود نہ ہو۔ اگر وہ کبھی بھول کر کوئی بے بنیاد بات کہہ دے تو وضاحت کے بعد اس کو چاہیے کہ وہ فوراً ہی اپنی غلطی کا کھلا اعتراف کرے۔ ان دو کے سوا کوئی تیسرا طریقہ انسان کے لیے درست نہیں۔ تیسرا طریقہ ہلاکت کا طریقہ ہے نہ کہ زندگی کا طریقہ۔
اہلِ علم کا طبقہ ذہن سازطبقہ(opinion-maker class) ہوتا ہے۔ اہلِ علم کی تقریروں اور تحریروں سے لوگ اپنا ذہن بناتے ہیں۔ یہ پہلو مزید تقاضا کرتا ہے کہ اہلِ علم مذکورہ معاملے میں بہت زیادہ محتاط ہوں۔ کیوں کہ اِس پہلو سے ان کی پکڑ دُگنا ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے ساتھ عوام کی بے راہ روی کے بھی ذمے دار قرار پاتے ہیں۔ کتنازیادہ سنگین ہے یہ معاملہ۔ حقیقت یہ ہے کہ غلطی کا اعتراف ایسے لوگوں کے لیے اَہون البلیّتین (lesser evil) کی حیثیت رکھتا ہے۔
غلطی کا اعتراف سادہ معنوں میں صرف غلطی کا اعتراف نہیں ہے، وہ اس سے زیادہ ہے۔ غلطی کے اعتراف کا معاملہ آدمی کی خود اپنی علمی اور دینی شخصیت کی تعمیر سے جُڑا ہوا ہے۔ غلطی کا اعتراف نہ کرنا آدمی کے اندر روحانی اور ذہنی ارتقاء کو روک دیتا ہے۔ اِس کے برعکس، غلطی کا اعتراف آدمی کے اندر روحانی اور ذہنی ارتقاء کے عمل کو بڑھاتا ہے۔غلطی کا اعتراف نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے ذہن میں صحیح اور غلط دونوں ملی جُلی حالت میں پڑے رہیں۔ اِسی کا نام کنفیوژن ہے۔ لیکن جب آدمی اپنی غلطی کو کھلے طورپرمان لے تو اس کے ذہن میں صحیح اور غلط دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں۔ اب آدمی اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ صحیح کو صحیح سمجھے، اور جو غلط ہے وہ اس کو غلط نظر آئے۔ یہ عمل آدمی کو کنفیوژن سے نکال کر فکرِ صحیح کے درجے میں پہنچا دیتا ہے۔
غلطی کا اعتراف در اصل فکری تطہیر کا عمل ہے۔ جس آدمی کے ذہن میں فکری تطہیر کا یہ عمل جاری نہ ہو وہ گویا ایک بہت بڑا خطرہ مول رہا ہے۔ یہ خطرہ کہ وہ فکری آلودگی کا شکار ہو کر رہ جائے، اس کو کبھی معرفت کا اعلیٰ درجہ حاصل نہ ہوسکے۔
مذکورہ خط و کتابت سے واضح ہوتا ہے کہ میرے حالیہ تجربے کے مطابق، اِس معاملے میں صرف دو حضرات کا استثنا ہے۔ ایک، مولانا عبد الکریم پاریکھ صاحب کا، اور دوسرے، مولانا غطریف شہباز ندوی کا۔ مولانا غطریف شہباز ندوی نے اِس معاملے میں صحیح اسلامی اسپرٹ کا ثبوت دیا ہے۔ اور مولانا عبد الکریم پاریکھ صاحب نے جس طرح کھلے دل کے ساتھ معاملے کی وضاحت فرمائی ہے، وہ بلا شبہہ ان کی ایمانی عظمت کا ثبوت ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان حضرات کی ہر طرح مدد فرمائے اور ان کو دنیا اور آخرت کی ابدی سعادتوں سے نوازے۔
اس خط و کتابت کے دَوران ایک اور نہایت اہم حقیقت واضح ہوئی۔ وہ یہ کہ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ تقریباً بلا استثنا، شعوری یا غیر شعوری طور پر ایک بہت بڑی کمزوری میں مبتلا ہے، اور وہ ہے قصیدے کی زبان میں کلام کرنا۔ قدیم زمانے میں بادشاہوں کے لیے مدحیّہ قصیدے لکھے جاتے تھے۔ ان قصیدوں میں محض خیالی اور فرضی طورپر بہت بڑی بڑی باتیں اپنے ممدوح کے ساتھ منسوب کردی جاتی تھیں۔ یہ شعراء کبھی یہ نہیں سوچتے تھے کہ اُن کی باتیں حقائق سے تعلق رکھتی ہیں یا نہیں۔ یہی اندازِ کلام بعد کو ہمارے یہاں نثر میں بھی رائج ہوگیا۔ اور عربی اور فارسی تینوں زبانوں میں قصیدے کی زبان میں مدحیہ نثر لکھی جانے لگی۔ اپنی پسندیدہ شخصیتوں کے لیے لوگ ایسے الفاظ لکھنے اور بولنے لگے جن کا حقیقتِ واقعہ سے کوئی تعلق نہ تھا۔
زیر نظر خط وکتابت ایک چشم کُشا خط وکتابت ہے۔ یہ خط و کتابت لوگوں کو بتا رہی ہے کہ وہ کس طرح نثر میں مدحیہ قصائد لکھنے میں مشغول ہیں۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اسلوب پر نظر ثانی کریں، اور مدح نگاری کے بجائے حقیقت نگاری کو اپنا اسلوب بنائیں۔