مراسلت نمبر— ۱۰
مولانا بلال عبد الحی حسنی ندوی (ناظم مدرسہ ضیاء العلوم، رائے بریلی) کی ایک کتاب شائع ہوئی۔ یہ کتاب مولانا ابوالحسن علی ندوی کے بارے میں لکھی گئی تھی۔ میں نے اس کتاب کو پڑھ کر اس سلسلے میں مصنف کو ایک خط لکھا۔ اس خط کی نقل یہاں درج کی جاتی ہے:
برادرِ محترم مولانا بلال عبد الحی حسنی ندوی!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ آپ نے اپنی کتاب ’’سوانح مفکر اسلام‘‘ (مطبوعہ: سید احمد شہید اکیڈمی، رائے بریلی) میں برصغیر ہندوپاک میں مغربی تہذیب پر ’نکتہ چینی‘ کرنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
“بر صغیر میں اِس سلسلے کا سب سے نمایاں نام ڈاکٹر محمد اقبال کا ہے جن کو جدید مشرق کا سب سے زیادہ بالغ نظر مفکّر قرار دیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے مغربی تہذیب و افکار کا بھر پور مطالعہ کیا اور پوری جرأت وقوّت کے ساتھ اس پر تنقید کی۔ جدید تعلیم یافتہ نسل نے اس کا گہرا اثر قبول کیا‘‘۔ (صفحہ ۳۹)
میرے علم کے مطابق، ڈاکٹر محمد اقبال نے مغرب پر منفی انداز اور شاعرانہ زبان میں تو ضر ور طنز و تعریض کیا ہے، لیکن ان کی مطبوعہ تحریروں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انھوں نے مغربی تہذیب اور مغربی افکار کا’’ بھرپور مطالعہ‘‘ کیا تھا، اور نہ اِس کا کوئی ثبوت موجود ہے کہ انھوں نے جدید مغربی افکار کا علمی اسلوب میں گہرا تجزیہ کیا۔ اگر آپ کے نزدیک ان کی ایسی کوئی تحریر ہے تو صفحہ نمبر کے ساتھ اس کے مکمل حوالے سے مطلع فرمائیں۔
اسی طرح آپ نے مولانا ابوالحسن علی ندوی کے بارے میں لکھا ہے کہ:
“عالمی سطح پر حضرت نے جو اصلاحی و تجدیدی کارنامے انجام دیے اُن میں سب سے بڑا اور بنیادی کارنامہ، عالمِ اسلام کو مغربی تہذیب و فکر سے صحیح طریقے پر آزاد کرکے ان کے سامنے اسلام کی صحیح تعلیمات پیش کرنے کا تجدیدی کام ہے۔
حضرت نے خود مغربی تہذیب کا مطالعہ کیا اس کی خوبیوں او ر خامیوں کو سمجھا، اس کی شاطرانہ چالوں کا جائزہ لیا، پھر اس کی حقیقت واضح فرمائی۔ حضرت نے نہ دفاعی پوزیشن اختیار کی اور نہ محض تنقیدکا کام کیا۔ بلکہ اس کا پورا تجزیہ فرماکر اس کے نقصانات کی نشاندہی فرمائی، اس کا تقابلی مطالعہ فرمایا، پھر تہذیب وتمدن پر اسلام کے اثرات و احسانات کو اُجاگر کیا، اور عالمِ اسلام ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پر پڑنے والے مغربی تہذیب کے مہلک اثرات کو واضح فرمایا اور اس کے نتیجے میں جس طرح اخلاقی قدریں پامال ہورہی تھیں اور دنیا اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہورہی تھی اس کو پیش کیا۔
حضرت کے اِس اصلاحی وتجدیدی فکر و عمل کا گہرا اثر پڑا۔ خاص طور پر عالمِ عربی جس طرح مغرب کے شکنجے میں جکڑتا چلا جارہا تھا اور یہ ڈر پیدا ہوچلا تھا کہ یہ عملی ارتداد کہیں ذہنی و فکری ارتداد کا پیش خیمہ نہ بن جائے، اِس خطرے کے بادل چھٹنے لگے اور امید کی کرن پھوٹی‘‘۔ (صفحہ۵۵۷۔۵۵۸)
میرے علم کے مطابق، مولانا ابوالحسن علی ندوی نے اپنے ادبی اسلوب اور خطیبانہ انداز میں مغرب کے خلاف کچھ منفی ریمارک ضرور دیے ہیں، لیکن ان کی کسی تحریر سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انھوں نے مغربی تہذیب اور افکار کو گہرائی کے ساتھ سمجھا تھااور وقت کی موجودہ علمی سطح کے مطابق، اس کا عمیق تجزیہ کیا تھا۔ اگر آپ کے علم میں ان کی ایسی کوئی تحریر ہے تو براہِ کرم متعین طورپر صفحہ نمبر کے ساتھ اس کا حوالہ روانہ فرمائیں۔
نئی دہلی، ۱۵ جون ۲۰۰۶ دعا گو وحید الدین
میرے اس خط کا موصوف کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا تو میں نے دوبارہ ان کودرج ذیل خط روانہ کیا، مگر موصوف کی طرف سے میرے خط کا کوئی جواب نہیں آیاا:
برادرِ محترم مولانا بلال عبد الحی حسنی ندوی!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ میں نے اپنے خط مؤرخہ ۱۵ جون ۲۰۰۶ میں آپ سے دوبات دریافت کی تھی:
۱۔ ڈاکٹر محمد اقبال کی کس تحریر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے مغربی تہذیب اور مغربی افکار کا بھرپور مطالعہ کیا تھا، اور انھوں نے جدید افکار کا علمی اسلوب میں تجزیہ کیا ہے۔
۲۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کس کتاب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انھوں نے مغربی تہذیب اور افکار کو گہرائی کے ساتھ سمجھا تھا، اور وقت کی موجودہ علمی سطح کے مطابق، انھوں نے اس کا عمیق تجزیہ کیاہے۔
آپ نے ابھی تک میرے خط کا کوئی جواب روانہ نہیں فرمایا۔ براہِ کرم متعین طورپر صفحہ نمبر کے ساتھ مذکورہ دونوں باتوں کا حوالہ روانہ فرمائیں۔
نئی دہلی، ۱۵ جولائی ۲۰۰۶ء جواب کا منتظر وحید الدین