مراسلت نمبر— ۱
سہ ماہی مجلّہ تحقیقاتِ اسلامی (علی گڈھ) کے معاون مدیر اور ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی کے رُکن ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے ۱۶ صفحات کی ایک کتاب لکھی، جو مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی سے ۲۰۰۵ میں چھپی۔ مصنف محترم نے اپنی اس کتاب کا ایک نسخہ میرے پاس بھیجا۔ اس سلسلے میں اُن سے درج ذیل مراسلت ہوئی:
برادرِ محترم ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کی بھیجی ہوئی کتاب ’’اقامتِ دین اور نفاذِ شریعت‘‘ بذریعے ڈاک ملی۔ یہ کتاب آپ نے۲۲ رمضان ۱۴۲۶کو روانہ کی تھی۔ میں نے اس کتاب کو پڑھا۔ آپ نے اپنی اِس کتاب میں ’’بعض حضرات‘‘ کے ایک نقطۂ نظر پر تنقید فرمائی ہے۔ میں اپنے مطالعے کے مطابق، اِن بعض حضرات کو نہیں جانتا۔ براہِ کرام اِن بعض حضرات کے نام اور ان کی کتابوں کے نام تحریر فرمائیں۔ جن کی طرف آپ نے اپنے اِس نقطۂ نظر کو منسوب فرمایا ہے۔ امیدہے کہ آپ اِس سلسلے میں واضح جواب سے ممنون فرمائیں گے۔
نئی دہلی، ۶ نومبر ۲۰۰۵ء جواب کا منتظر وحید الدین
جواب میں تاخیر ہوئی تو میں نے انھیں یاد دہانی کے لیے دوبارہ ایک خط لکھا۔ میرا یہ دوسرا خط یہاں نقل کیا جاتا ہے:
برادرِ محترم ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ ہے کہ اس سے پہلے ایک خط مؤرخہ ۵ نومبر ۲۰۰۵ ء میں نے آپ کی خدمت میں روانہ کیا تھا۔ یہ خط آپ کی اس کتاب کے بارے میں تھا جو آپ نے مجھے اپنے دستخط کے ساتھ ۲۲ رمضان ۱۴۲۶ کو روانہ فرمائی تھی۔ آپ نے اپنی اِس کتاب میں ’’بعض حضرات‘‘ کے نقطۂ نظر پر تنقید فرمائی ہے، لیکن آپ نے اپنی کتاب میں نہ ان بعض حضرات کا نام لکھاہے اور نہ ان کی کسی کتاب کا حوالہ دیا ہے۔ میں نے اپنے خط میں آپ سے پوچھا تھا کہ یہ بعض حضرات کون ہیں اور ان کا نام کیا ہے۔ ابھی تک مجھے آپ کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔ براہِ کرم اپنا جواب بھیج کر شکریے کا موقع دیں۔
نئی دہلی، ۳۰ نومبر۲۰۰۵ء دعا گو وحید الدین
میرے ان دو خطوں کے بعد موصوف کا ایک خط ملا، جو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
محترمی ومکرمی جناب مولانا وحید الدین خاں صاحب مد ظلہ العالی!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ جملہ متعلقین کے ساتھ بعافیت ہوں۔ آں جناب سے معذرت ہے کہ میری طرف سے جواب میں تاخیر کے سبب دوسرا خط لکھنے کی زحمت کرنی پڑی، والعفو عند کرام الناس مقبول۔
ماہ نامہ زندگی ٔ نَو میں قارئین کی طرف سے جو سوالات اور استفسارات آتے ہیں ان میں سے کچھ، محترم مدیر زندگی میرے پاس بھیج دیتے ہیں۔ تقریباً چار سال قبل ’’اقامتِ دین‘‘ کے موضوع پر ایک صاحب کے سوالات کے جواب میں مذکورہ تحریر لکھی تھی۔ مگر مدیر محترم کے مشورے پر سوالات اور سائل کا نام حذف کردیاگیا اور تحریر کا جوابی انداز بھی بدل دیاگیا اور ایک معروضی تحریر کے طورپر یہ اگست ۲۰۰۱ ء کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔
آں جناب کی خدمت میں یہ تحریر بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ اِس موضوع پر الرسالہ میں آپ مستقل لکھتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل الرسالہ کا ایک خصوصی شمارہ’’دین وشریعت‘‘ کے عنوان سے نکلا تھا۔ اس میں بھی یہی بحثیں اٹھائی گئی تھیں۔ پاکستان میں ماہ نامہ ’اشراق‘ میں بھی وقتاً فوقتاً اس موضوع پر تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔آں جناب سے گذارش ہے کہ میری تحریر میں استدلال کی کوئی غلطی ہو تو مطلع فرمائیں۔ والسلام
۱ دسمبر ۲۰۰۵ء دعاؤں کا طالب محمدرضی الاسلام ندوی
مصنف محترم کا یہ خط میرے سوال کا جواب نہ تھا بلکہ وہ وہی چیز تھی جس کو ٹالنے والا جواب(evasive reply)کہا جاتا ہے۔یہ جواب علمی اعتبار سے غیر تشفی بخش تھا۔ اس لیے میں نے انھیں دوبارہ درج ذیل خط روانہ کیا:
برادر محترم ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط مؤرخہ ۱۴دسمبر ۲۰۰۵ ملا۔ عرض یہ ہے کہ آپ کا یہ خط میرے استفسار کا جواب نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ آپ کے بیان کے مطابق، ’’بعض حضرات‘‘ کے نقطۂ نظر کے جواب میں ہے۔ چوں کہ مجھے ایسے بعض حضرات کا علم نہیں ہے، اس لیے میں بالتصریح ان کا نام یا ان کی کسی کتاب کا نام جاننا چاہتا ہوں، تاکہ یہ متعین کیا جاسکے کہ جن مفروضہ بعض حضر ات کے نقطۂ نظر کی تردید میں آپ نے یہ تحریر لکھی ہے وہ ان کے نقطۂ نظر کی واقعی تردید ہے، یا ایسا ہے کہ آپ نے بعض حضرا ت کے نقطۂ نظر کو بطور خود غلط صورت میں پیش کیا ہے۔ اگر یہ دوسری صورت ہو توآپ کی تنقید خود آپ کی اپنی مفروضہ صورت پر ہوگی نہ کہ بعض حضرات کے واقعی نقطۂ نظرپر۔
میں دوبارہ آپ سے گذارش کروں گا کہ آپ مذکورہ بعض حضرات کا نام اور ان کی کتاب کا نام بصراحت تحریر فرمائیں تاکہ دونوں نقطۂ نظر کا تقابل کرکے معاملے کو سمجھا جاسکے۔ آپ نے اپنی کتاب اپنے دستخط سے میرے پاس روانہ فرمائی تھی، اس لیے یہ خط لکھنے کی ضرورت پیش آئی، ورنہ اِس قسم کی خط وکتابت کی کوئی ضرورت نہ تھی۔
نئی دہلی، ۱۹ دسمبر ۲۰۰۵ دعا گو وحید الدین
کافی انتظار کے بعد جب ان کا جواب موصول نہیں ہوا تو میں نے حسب ذیل خط ان کو روانہ کیا:
برادرِ محترم ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ آپ کی کتاب ’’اقامتِ دین اور نفاذ شریعت‘‘ کے سلسلے میں آپ کو میں نے کئی خطوط لکھے، مگر آپ کی طرف سے اس کا کوئی واضح جواب مجھے نہیں مل سکا۔ میں نے یہ جاننا چاہا تھا کہ آپ نے اپنی اِس کتاب میں جن ’’بعض حضرات‘‘ کا حوالہ دیا ہے وہ کون لوگ ہیں۔میں متعین طورپر ان کا نام یاان کی کتاب کا نام جاننا چاہتا تھا۔ مگر آپ نے اِس سلسلے میں واضح اور متعین جواب دینے سے اعراض فرمایا۔ آپ کی اِس روش کے بعد میں یہ سمجھنے پر مجبور ہوں کہ آپ نے جن بعض حضرات کا تذکرہ اپنی کتاب میں فرمایا تھا وہ محض ایک فرضی حوالہ تھا۔ ایسے حضرت کا یا تو حقیقت میں کوئی وجود نہیں، یا آپ نے مفروضہ بعض حضرات کی طرف ایک ایسی بات منسوب کردی ہے جو خود انھوں نے نہیں کہی تھی۔
میں عرض کروں گا کہ یہ طریقہ سراسر غیر علمی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ آدمی کو چاہیے کہ وہ ایسا غیر علمی طریقہ اختیار نہ کرے۔ اور اگر کسی وجہ سے اُس نے ایسا کیا تھا تو اب توجہ دلانے کے بعد کھُلے طور پر وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلے۔ اس طرح کی روش آدمی کے اندر غیر علمی مزاج پیدا کرتی ہے، اور آپ یقینا اِس اصولِ عام سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتے۔
نئی دہلی، ۷مارچ ۲۰۰۶ء دعاگو وحید الدین
اس کے بعد ان کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ انھوں نے اپنے مذکورہ خط میں لکھا تھا کہ ’’میری تحریر میں استدلال کی کوئی غلطی ہو تو مطلع فرمائیں‘‘۔ میرے نزدیک یہ بات مغالطہ آمیز بھی ہے اور سخت غیر علمی بھی۔ اس لیے کہ جب صاحبِ کتاب ’’بعض حضرات‘‘ کا تعین نہ کریں تو کس بنیاد پر ان کے استدلال کا تجزیہ کیا جائے گا۔ بنائِ دعویٰ کے تعیّن کے بعد ہی ان کے خلاف، تردیدی بیان کا علمی تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔
میرے اِس خط کے بعد دوبارہ موصوف کی طرف سے کوئی جواب مجھے وصول نہیں ہوا۔ میرے نزدیک یہ ایک غیر علمی طریقہ ہے کہ آدمی ’’بعض حضرات‘‘ کا متعین حوالہ تو نہ دے سکے مگر ان کے نام پر ایسی تنقید چھاپے جو علمی اعتبار سے سراسر بے وزن ہو۔ تنقید کے لیے علمی جرأت ضروری ہے۔ جو لوگ اپنے اندر علمی جرأت نہ رکھتے ہوں انھیں ہر گز تنقید کاکام نہیں کرنا چاہیے۔