مراسلت نمبر— ۶

ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلّی، مدیر مجلّہ علوم القرآن (علی گڈھ) کا مولانا حمید الدین فراہی کے بارے میں ایک مضمون چھپا تھا۔ اس مضمون کو پڑھ کر میں نے انھیں درج ذیل خط روانہ کیا:

برادرِ محترم ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلی!

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ

عرض یہ کہ علی گڈھ سے شائع ہونے والے ششماہی مجلّہ علو م القرآن (جنوری۔دسمبر ۱۹۹۱) میں آپ کا ایک مضمون دیکھا، اس کا عنوان یہ تھا:

ترجمان القرآن، مولانا حمید الدین فراہی کی فکری اور اصلاحی تحریک‘‘۔

اپنے اس مضمون میں آپ نے یہ لکھا تھا کہ مولانا حمید الدین فراہی علی گڈھ کے زمانۂ قیام میں ’’نہ صرف عصری علوم سے آشنا ہوئے بلکہ عصری اسلوب ومزاج اور عصری اندازِ تحقیق وترسیل سے پوری واقفیت بہم پہنچائی۔ یہیں انگریزی زبان پر عبور حاصل کیا اور فلسفۂ جدید کے ذوق آشنا ہوئے…یہ امر واقعہ ہے کہ قدیم و جدید کا جیسا مجمع البحرین اُن کی ذات والا صفات میں نظر آتا ہے اس کی مثال ملنی مشکل ہے‘‘۔ (صفحہ ۸۷)

اس کے بعد مجھے سرائے میر (اعظم گڑھ) سے شائع ہونے والے سہ ماہی مجلّہ نظام القرآن کا شمارہ ستمبر، اکتوبر، نومبر ۲۰۰۵ ملا۔ اس میں آپ کا ایک مضمون اِس عنوان کے ساتھ چھپا ہے: فکرِفراہی، مرض اور علاج۔

اپنے اِس مضمون میں آپ نے دوبارہ لکھا ہے کہ مولانا حمید الدین فراہی نے علی گڑھ میں ’’جدید نظریات اور فلسفے سے واقفیت ہی حاصل نہیں کی بلکہ اُن کا گہرا مطالعہ کیا اور علمی اور ذہنی سطح پر اپنے آپ کو اس کام کے لیے تیار کیا جو اُن کے پیش نظر تھا... وہ جدید تعلیم سے بر اہِ راست واقف تھے‘‘۔ (صفحہ ۶۹)

آپ کے اِن دونوں مضامین میں آپ کے دعوے کے حق میں مولانا فراہی کی کسی تحریر کا کوئی متعلق حوالہ موجود نہیں۔میں نے خود مولانا حمید الدین فراہی کی تحریریں دیکھی ہیں، مگر ان کی کسی بھی تحریر یا کتاب میں ان کی وہ تصویر مجھے نہیں ملی جس کاذکرآپ نے اپنے مذکورہ دونوں اقتباس میں فرمایا ہے۔ ان کی تحریروں سے قدیم میں ان کی دست گاہ کا ثبوت تو ملتا ہے لیکن عصری افکار اور جدید علوم میں ان کی مہارت کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔

براہِ کرم متعین طور پر بتائیں کہ مولانا حمید الدین فراہی کی کس کتاب یا کتاب کے کس صفحے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ عصری افکار اور جدید علوم میں تبحر کا درجہ رکھتے تھے، جیسا کہ آپ نے اپنے مضامین میں تحریر فرمایا ہے۔

نئی دہلی، ۳۰؍اپریل ۲۰۰۶           دعا گو    و حید الدین

ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا تو میں نے انھیں یاددہانی کے طور پر درج ذیل خط لکھا:

برادرِ محترم ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلّی!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

عرض یہ کہ ۳۰ ؍اپریل ۲۰۰۶ کو میں نے آپ کی خدمت میں ایک خط روانہ کیا تھا۔ یہ خط آپ کے ایک مطبوعہ مضمون سے متعلق تھا۔ میں نے آپ سے آپ کی لکھی ہوئی ایک بات کی وضاحت طلب کی تھی، مگر ابھی تک آپ کی طرف سے اس کا کوئی جواب مجھے نہیں ملا۔براہِ کرم جلدجواب روانہ فرماکر شکریے کا موقع دیں۔

نئی دہلی، ۲۶ مئی ۲۰۰۶              دعا گو    وحید الدین

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom