مراسلت نمبر— ۱۱
ماہ نامہ ’’جامِ نور‘‘ میں مولانا منظر الاسلام ازہری (اسلامک سنٹر آف ہائی پوائنٹ، امریکا)کا ایک مضمون شائع ہوا۔ اِس کو پڑھ کر میں نے مضمون نگار کو ایک خط لکھا۔ اس سلسلے کی مراسلت یہاں درج کی جاتی ہے:
برادرِ محترم مولانا منظر الاسلام ازہری!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ماہ نامہ جامِ نور (دہلی) کے شمارہ جولائی ۲۰۰۶ء میں آپ کا ایک مضمون چھپا ہے۔ اِس کا عنوان یہ ہے: ’’یورپ و امریکا کے ممالک دار الدعوہ ہیں ‘‘۔ اپنے اس مضمون میں آپ نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ مختلف ممالک کی فقہی حیثیت کیا ہے۔ اِس سلسلے میں آپ نے فقہا کی معروف اصطلاحوں، دار الاسلام، دار الحرب، دارالکفر، نیز دارالامان اور دار العہد کا ذکر کیا ہے۔ آپ نے لمبی بحث کے بعد یہ بتایا ہے کہ امریکا اور یورپ کے ممالک پر یہ فقہی اصطلاحات منطبق نہیں ہوتیں۔ اس کے بعد آپ نے ایک اور اصطلاح ’’دار الدعوہ‘‘ کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ— ’’امریکا اور یورپ کے ممالک کو دارالدعوہ کہا جائے تو بہترہوگا‘‘۔ (صفحہ ۱۳)
دریافت طلب امر یہ ہے کہ دوسری فقہی اصطلاحوں کے ضمن میں تو آپ نے متعلقہ فقہی کتابوں اور علماء کے حوالے دیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہ دوسری اصطلاحیں کہاں سے نقل کی ہیں، لیکن دار الدعوہ کی اصطلاح کے بارے میں آپ نے کوئی حوالہ نہیں دیا۔ براہِ کرم مطّلع فرمائیں کہ آپ نے دار الدعوہ کی اصطلاح کہاں سے اخذ کی ہے۔ صفحہ نمبر کی تعیین کے ساتھ کتاب کے مکمل حوالے سے آگاہ فرمائیں۔
نئی دہلی، ۱۷ جون ۲۰۰۶ء دعاگو وحیدالدین
کافی انتظار کے بعد جب مضمون نگار کا کوئی جواب مجھے نہیں ملا تو میں نے دوبارہ انھیں یاددہانی کا ایک خط لکھا۔ وہ خط یہاں نقل کیا جاتا ہے:
برادرِ محترم مولانا منظر الاسلام ازہری!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ میں نے اپنے خط مؤرخہ ۱۷ جون ۲۰۰۶ میں، آپ کے مضمون میں مذکور اصطلاح ’’دارالدعوہ‘‘ کے متعلق، آپ سے دریافت کیا تھا کہ اس اصطلاح کا ماخذ کیا ہے، مگر ابھی تک آپ نے اس کا کوئی حوالہ مجھے ارسال نہیں فرمایا۔براہِ کرم مذکورہ اصطلاح کے اصل ماخذ کا متعین حوالہ روانہ فرماکر شکریے کا موقع دیں۔
نئی دہلی، ۱۷ جولائی ۲۰۰۶ جواب کا منتظر وحید الدین
میرے ان دو خطوں کے بعد صاحب مضمون کا درج ذیل ایک خط مجھے بذریعے ای میل موصول ہوا:
مکرمی مولانا وحید الدین خاں صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اٹھارہ جولائی اور پھر چودہ کا بھیجا ہوا آپ کا مراسلہ ملا، مصروفیت کے سبب میں فی الفور جواب نہیں لکھ سکا۔ آپ نے ’’دار الدعوۃ‘‘ سے متعلق ماخذ کے بارے میں لکھا ہے، اس سلسلہ میں آپ سے یہ کہنا ہے کہ بشمول مذاہب اربعہ کسی قدیم فقہی کتاب میں میری نگاہ سے یہ اصطلاح نہیں گذری، میں اس موضوع پر بار بار سوچا کرتا تھا، یہاں امریکا پہنچنے کے بعد کئی دانشوروں کے ساتھ لمی نشست ہوئی جہاں یہ مسئلہ بھی زیر بحث رہا، میں نے ان کے سامنے اپنی رائے پیش کی تو انھوں نے اس سے اتفاق کیا، اسی دوران مجھے ہندستان کے ایک ادارہ کی جانب سے منعقد سیمینار میں اس موضوع پر لکھنے کے لیے کہاگیا، میں نے اپنی فکر کو عملی شکل دے کر یہ مقالہ ترتیب دے دیا، جو بعد میں ’’جام نور‘‘ میں بھی شائع ہوا۔
اس ضمن میں ایک خاص نکتہ میری نگاہ میں نبی اکرم ﷺ کی مکی زندگی کاہے جہاں میری سمجھ کے مطابق نہ تو ’’دارالحرب‘‘ کی اصطلاح فٹ ہوسکتی ہے نہ ہی ’’دار الاسلام‘‘ اور ’’دار العہد‘‘ کی کیوں کہ یہ زمانہ آپ کی دعوت رسانی کا ہے، اس کے ساتھ ساتھ زمانہ کے بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں فقہاء کی مشہور اصطلاح ’’عُرف‘‘ کا بھی سہارا لیا ہے۔ انھیں دو چیزوں کو اپنی فکر کی بنیاد بنا کر میں نے مقالہ تحریر کیا، اس کے علاوہ اور کوئی ماخذ میری نگاہ میں نہیں۔
۲۶جولائی ۲۰۰۶
والسلام
منظر الاسلام، نارتھ کیرولینا، امریکا
مضمون نگار کا یہ خط میرے سوال کا واضح جواب نہیں تھا، اس لیے میں نے دوبارہ انھیں درج ذیل خط لکھا:
برادرِ محترم مولانا منظر الاسلام ازہری!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط مؤرخہ ۲۶جولائی ۲۰۰۶ء ملا۔ مگر آپ نے اپنے خط میں میری اصل بات کا جواب نہیں دیا۔ یہ با ت میں خود اپنے مطالعے کے تحت، پہلے سے جانتا ہوں کہ عبّاسی دور سے لے کر اب تک کے پورے مسلم لٹریچر میں دارالدعوہ کی اصطلاح استعمال نہیں ہوئی ہے۔ میرا اصل سوال یہ تھا کہ آپ پر استثنائی طورپر دار الدعوہ کی اصطلاح کیسے منکشف ہوگئی۔اگر یہ آپ کی اپنی دریافت ہے تو میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کو یہ ذاتی دریافت کیسے ہوگئی۔ جو چیز ہزار سال تک کسی عالمِ نے نہیں جانا تھا، اس کو آپ نے استثنائی طورپر کیسے جان لیا۔ اگر یہ آپ کی اپنی ذاتی دریافت ہے تو آپ سے میں نے یہ معلوم کرنا چاہا تھا کہ یہ ذاتی دریافت آپ کو استثنائی طورپر کیسے ہوگئی۔ میں اسی خاص نکتے کی بابت آپ کا جواب معلوم کرنا چاہتا تھا۔
اِس معاملے میں میرے اشکال کی بنیاد یہ ہے کہ میں اس کو اجتہادِ مطلق کی نوعیت کا ایک واقعہ سمجھتا ہوں۔ جیسا کہ معلوم ہے، اب تک کی پوری مسلم تاریخ میں کسی نے دار الدعوہ کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔ پچھلے ہزار سالہ عمل کے نتیجے میں مسلم کمیونٹی تقلید کے اصول پر قائم ہوگئی ہے۔ متفقہ طورپر یہ مان لیا گیا ہے کہ اب اجتہادِ مطلق کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔ ایسی حالت میں کسی کا دار الدعوہ کی اصطلاح استعمال کرنا کوئی سادہ بات نہیں۔ اجتہادِ مطلق کا یہ واقعہ اُسی استثنائی شخص کی زندگی میں پیش آسکتا ہے جو لمبی مدت تک اُس علمی اور فکری پراسس سے گذرا ہو جو کسی کو اجتہادِ مطلق کے مقام پر پہنچاتا ہے۔ دار الدعوہ جیسا مجتہدانہ قول اتفاقاً کسی کی زبان پر جاری نہیں ہوسکتا۔ یہ ماضی کے معلوم فکری پس منظر اور معلوم مجتہدانہ سفر کا کلمنیشن ہے۔ وہ کسی شعر کا کوئی مصرعہ یا اچانک پیش آجانے والا کوئی واقعہ نہیں۔
آپ نے اپنے خط میں دارالدعوہ کے متعلق، اپنے فکری ماخذ کو بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں، فقہاء کی مشہور اصطلاح’’عرف‘‘ کا بھی سہارا لیا ہے‘‘۔ آپ کی یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ کیوں کہ اصطلاح فقہ میں عُرف کسی قوم کے معمولاتِ عام کو کہا جاتا ہے (عادۃ جمہور قومٍ فی قولٍ أو عملٍ)۔ اس اعتبار سے عرف کے تصور کا کوئی تعلق، دار الدعوہ سے نظرنہیں آتا۔ براہِ کرم اِس معاملے کی وضاحت فرمائیں۔
نئی دہلی، ۲۹ جولائی ۲۰۰۶ء دعاگو وحید الدین
میرے اِس خط کے بعد صاحبِ مضمون کا ایک طویل خط مجھے ملا، جو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
مکرمی مولانا وحید الدین خاں صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا مکتوب ۲ ؍اگست کو ملا، میں نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۴ جولائی میں اس امر کی وضاحت کردی تھی کہ ’’دارالدعوہ‘‘ کے سلسلہ میں میرا اصل ماخذ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی اور فقہاء امت کی وضع کردہ اصطلاح’’ضرورت‘‘ ہے مگر آپ کو میرے جواب سے تشفی نہیں ہوسکی اور آپ نے اسے اجتہاد مطلق کی نوعیت سمجھ کر مجھ جیسے باحثین کے لیے اس فکر تک رسائی تقریباً محال قرار دیا۔ بحمدہ تعالیٰ میں نے ہندستان کے مدارس میں درس نظامیہ پر کامل عبور حاصل کرنے کے بعد جامعہ ازہر شریف میں بھی ساڑھے پانچ سال گذارا ہے، جہاں مجھے ایسے عظیم اساطین ملت سے استفادہ کا موقع ملا جو اپنی فقہی بصیرت، اجتہادی افکار اور دانشورانہ نظریات کے اعتبار سے موجودہ عالم اسلام کی ناک سمجھے جاتے ہیں اور آج کسی بھی زبان بالخصوص اردو میں علمی وفکری مضامین پر قلم اٹھانے والے اکثر مفکرین بھی میرے انہیں اساتذہ کے افکار کے مرہون منت ہیں، پھر قدرت نے کچھ اور ہی نظارہ دکھایا کہ عالمی منظر نامہ پر اسلام کے خلاف جن نظریات کی طرف میرے اساتذہ نے اشارہ کیا تھا اس کو عملی شکل میں ملاحظہ کرنے کے لیے امریکا کا سفر کرنا پڑا، جہاں ہر آن ٹریڈیشنل اور نیو مسلم کے مابین ’’تجدید فی الفقہ الاسلامی‘‘ اور ’’تجدید فی المصطلحات الفقہیہ’’ ہی کی بحث چھڑی رہتی ہے، اسی طرح کی ایک مجلس ’’معائیر التجدید فی الفقہ الاسلامی‘‘ کا راقم نائب صدر بھی ہے، ایسے ماحول میں رہنے والا انسان پہلے سے موجود کسی لفظ کو حسن ترتیب کے ساتھ اگر پیش کرے تو مجھے نہیں معلوم کہ اس میں اشکال کیوں کر ہوسکتا ہے، کیا حالات اور زمانہ کے شکست و ریخت کی وجہ سے الفاظ و اصطلاحات میں تبدیلی نہیں آتی؟ جہاں سیکڑوں افکار و نظریات ہر آئے دن جنم لے رہے ہوں ایسے ماحول میں بسنے والا انسان خواہ کسی بھی عمر کا ہو اسلام میں موجود مفرد الفاظ کو ترکیب کا جامہ پہنا کر بیان کردے تو اس میں کون سا تعجب ہے؟ کیا اگر کسی نے ایسا کردیا تو وہ مجتہد مطلق ہوجاتا ہے؟ کیا اجتہاد مطلق کی یہی تعریف ہے کہ دو لفظوں کو ایک کردیا جائے؟
میری یہ فکر بھی آپ کے اشکال کا باعث بن سکتی ہے کہ حادثہ سنامی کے وقت عالم اسلام کے تمام فقہاء، مجتہدین، دانشوران اور مفکرین نے بیک زبان کہا کہ یہ عذاب الٰہی ہے، جب کہ راقم کا موقف یہ تھا کہ اس طرح کے حادثات کو عذاب الٰہی سے جوڑنا دانشمندی نہیں، سورۂ طور اور سورۂ تکویر کی آیتوں کی تفسیر میں قدیم تمام مفسرین کی آراء سے اختلاف کرتے ہوئے ان آیتوں کو میں نے قرب قیامت کی ہولناکیوں پر محمول کرنے کے بجائے حقیقت پر محمول کیا، جس کی یہاں پورے امریکا میں زبردست پذیرائی ہوئی، تو کیا اسے بھی اجتہاد مطلق کی نوعیت کا واقعہ سمجھ لیا جائے؟ الازہر میں تعلیم کے دوران اپنے ایک استاذ ڈاکٹر عبد المعطی بیومی جو فلسفہ کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ فقیہ اعظم سمجھے جاتے ہیں اور مصری پارلیمنٹ کے ممبر بھی ہیں،سے شہادت کے مسئلہ پر سیکڑوں عربی و عجمی طلبہ کی موجودگی میں مسلسل تین دن گفتگو کرتا رہا جہاں تمام فقہاء سے میرا نظریہ بالکل الگ تھا اور بعد میں جس کی میرے استاذ نے مجھے مبارک باد بھی دی تو کیا اسے بھی اجتہاد مطلق سمجھ لیا جائے؟ آپ کی رائے میں اگر اس طرح کے واقعات کا تعلق اجتہاد مطلق سے ہے تو الحمد للہ راقم مجتہد مطلق ہے۔
علم وتحقیق کے میدان میں میرا نہیں خیال کہ عمر سے بحث کی جاتی ہے، اگر عمر کا دخل مان لیا جائے تو سیکڑوں وہ علماء جو بارہ، اٹھارہ اور بیس سال کی عمر میں ہی قوم مسلم کے امام بن چکے تھے، کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ امام غزالی کی ’’المنقذ من الضلال‘‘ آپ کے مطالعہ میں یقینا آئی ہوگی، کیا انہوں نے اپنے فکری سفر کا آغاز بیس سال سے قبل کی عمر میں نہیں کیا تھا؟ اگر عمر ہی مقیاس ہے تو آج سیکڑوں مسلم فلاسفہ اور مستشرقین بیس سال سے پہلے فکری سفر شروع کرنے والے غزالی کے ’’منہج شک‘‘ پر کیوں پی، ایچ، ڈی کررہے ہیں ؟ پھر عجیب تضاد بیانی بھی ہے جب ’’متفقہ طورپر یہ مان لیا گیا ہے کہ اب اجتہاد مطلق کا دروازہ بند ہوچکا ہے‘‘ تو پھر استثنائی طورپر بڑی عمر کے تجربہ کار لوگوں کو ان کی علمی کاوش کے نتیجہ میں کیوں مجتہد مطلق مانا جارہا ہے؟
ویسے میں اس نظریے سے خود بھی اتفاق نہیں کرتا کہ اس بات پر اتفاق ہوچکا ہے کہ اب کوئی مجتہد مطلق پیدا نہیں ہوگا، اس سلسلہ میں درجنوں علماء کے مواقف موجو ہیں، خاص طور پر علامہ سیوطی کلا رسالہ ’’الرد علی من اخلد الی الأرض وجہل أن الاجتہاد فی کل عصر فرض‘‘ شاہدعدل ہے۔
میں نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۶ جولائی میں یہ لکھا تھا کہ یہاں مجھے ’’ضرورت‘‘ لکھنا تھا جو ’’عرف‘‘ لکھ گیا ہے، مگر آپ نے اس جانب کوئی توجہ ہی نہیں دی۔ یہ چند الفاظ ذہن میں آئے تھے جو آپ کے جواب میں تحریر کردیا ہوں، اگر میری بات میں کہیں سختی آگئی ہو تو در گذر کیجئے گا۔ والسلام
۶؍اگست ۲۰۰۶ء منظر الاسلام ازہری
مضمون نگار کے اِس طویل خط کو پڑھنے کے بعد میں نے دوبارہ ان کو اپنا درج ذیل خط روانہ کیا:
برادرِ محترم مولانا منظر الاسلام ازہری۱
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط مؤرخہ ۶؍اگست ۲۰۰۶ء ملا۔ اس کو تین بار پڑھنے کے بعد میں اپنا یہ خط تحریر کررہا ہوں۔ عرض یہ ہے کہ آپ نے اپنے تفصیلی خط میں جو باتیں لکھی ہیں، وہ سب میرے سوال کی نسبت سے بالکل غیر متعلق (irrelevant) ہیں۔ ان باتوں سے میرے سوال پر کوئی روشنی نہیں پڑتی۔
میرا سوال سادہ طور پر صرف یہ ہے کہ دار الدعوہ کی اصطلاح، آپ کی خود اپنی ذاتی دریافت ہے، یا آپ نے اس کو کسی کتاب میں پڑھا ہے، یا اس کو کسی عالم سے سُنا ہے۔ دونوں میں سے جو بات بھی ہو، اس کو آپ پوری صراحت کے ساتھ تحریر فرمائیں۔
ایسی حالت میں آپ کے لیے صرف دو میں سے ایک کا انتخاب ہے۔ یا تو آپ واضح الفاظ میں یہ کہیں کہ— دار الدعوہ کی اصطلاح مجھے کہیں اور سے نہیں ملی، بلکہ میں نے اس کو خود اپنے طور پر بطور ذاتی دریافت کے پایا ہے۔ یا پھر متعیّن طور پر صفحہ نمبر کے ساتھ آپ یہ بتائیں کہ— میں نے فلاں مصنّف کی فلاں کتاب میں اس کو پڑھا، یا اس کو فلاں عالمِ یا فلاں مصنف سے سُنا ہے اور پھر میں نے اس کو اختیار کرلیا۔
میں نے آپ سے صرف یہی بات دریافت کی تھی، اور اِسی کا واضح جواب میں آپ سے معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ آپ میرے اصل سوال کو سمجھ کر متعین الفاظ میں اس کا جواب روانہ فرمائیں گے۔
نئی دہلی، ۱۰؍ اگست ۲۰۰۶ء دعا گو وحید الدین
میرے اس خط کے جواب میں موصوف نے جو کچھ لکھا، اس کی نقل یہاں درج کی جاتی ہے:
مکرمی مولانا وحیدالدین خاں صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا خط مورخہ ۱۲؍اگست کو ملا، فرمائش کے مطابق ایک لفظ میں اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے کسی کتاب یا کسی عالم کی زبان سے سن کر اسے نہیں لکھا ہے، بلکہ یہ میری اپنی ایجاد ہے۔ والسلام
۱۲؍ اگست ۲۰۰۶ء منظر الاسلام
مضمون نگار کی اِس غیر واضح تحریر کو پڑھ کر میں نے دوبارہ ان کو اپنا درج ذیل خط ارسال کیا:
برادرِ محترم مولانا منظر الاسلام ازہری!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط مؤرخہ ۱۲؍ اگست ۲۰۰۶ ملا۔ آپ نے میرے استفسا ر کے جواب میں صرف یہ مختصر جملہ تحریر فرمایا ہے—’’فرمائش کے مطابق، ایک لفظ میں اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے کسی کتاب یا کسی عالم کی زبان سے سُن کر اسے نہیں لکھا ہے۔ بلکہ یہ میری اپنی ایجاد ہے‘‘۔
میں عرض کروں گا کہ آپ کا مذکورہ جملہ ایک مبہم جملہ ہے۔ ایسا مبہم اور غیر واضح جملہ میرے متعین سوال کا جواب نہیں۔ آپ کا یہ جملہ صرف ایک ٹالنے والا جواب (evasive reply) ہے، وہ میرے سوال کا کوئی واضح اور متعین جواب نہیں۔ آپ کے اس جملے میں ’’یہ‘‘ کا لفظ ہے۔ اِس سے واضح طورپر معلوم نہیں ہوتا کہ یہاں لفظ ’’یہ‘‘ سے آپ کی کیا مراد ہے۔ اِسی طرح آپ نے اپنے جملے میں ’’ایجاد‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ایجاد کا لفظ بھی اِس موقع پر ایک غیرمتعلق اور مبہم لفظ ہے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، میں نے آپ سے یہ پوچھا تھا کہ دار الدعوہ کی اصطلاح آپ نے خود وضع کی ہے، یا اس کو آپ نے کہیں اور سے اخذ کیا ہے۔ مگر آپ کا مذکورہ مبہم جملہ میرے متعین سوا ل کا واضح جواب نہیں۔
اس لیے گذارش ہے کہ آپ دوبارہ زحمت فرمائیں، اور بالکل واضح اور غیر مبہم الفاظ میں یہ بتائیں کہ— دار الدعوہ کی اصطلاح آپ نے خود وضع کی ہے، یا آپ نے اس کو کہیں اور سے لیا ہے۔
نئی دہلی، ۱۵ ؍ اگست ۲۰۰۶ء دعا گو وحید الدین
میرے اس خط کے بعد موصوف کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ چنانچہ میرے درج ذیل خط پر ان سے خط و کتابت کا سلسلہ بند ہوگیا:
برادرِ محترم مولانا منظر الاسلام ازہری!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
یہ خط مَیں آپ کے ساتھ اپنی سابقہ مراسلت کے ضمن میں لکھ رہا ہوں۔ میں نے اپنے خط مؤرخہ ۱۵؍اگست ۲۰۰۶ میں لکھا تھا کہ آپ کے جواب کے الفاظ مبہم ہیں، آپ صریح الفاظ میں معاملے کی وضاحت فرمائیں۔ مثلاً آپ یہ تحریر فر مائیں کہ— دار الدعوہ کی اصطلاح میں نے خود اپنے ذہن سے وضع کی ہے، کسی اور کی تقریر یا تحریر سے اخذ کرکے میں نے دار الدعوہ کی اصطلاح وضع نہیں کی۔ امید ہے کہ آپ اِس سلسلے میں جلد اپنا واضح جواب ارسال فرمائیں گے۔
نئی دہلی، ۳۰ ؍اگست ۲۰۰۶ء دعا گو وحید الدین