تدبیر نہ کہ ٹکراؤ
مولانا جلال الدین رومی (۱۲۷۳- ۱۲۰۷) کا درجہ مسلمانوں میں بہت اونچا ہے۔ تقریباً ۲۶ ہزار اشعار پر مشتمل ان کی مثنوی معنوی مسلمانوں کے درمیان تقدس کی حد تک مقبول ہے۔ یہ مثنوی صدیوں تک ایک رہنما کتاب کی حیثیت سے علماء کے درمیان پڑھی جاتی رہی ہے۔
۱۲۵۸ میں تاتاریوں نے بغداد کو تباہ کیا اور عباسی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ انھوں نے مسلم دنیا پر اپنی ظالمانہ حکومت قائم کر دی۔ اس وقت مولانا روم کی عمر تقریبا ًپچاس سال تھی۔ انھوں نے اپنی مثنوی کے ذریعہ مسلمانوں کو روحانی اور اخلاقی سبق دیا اور انہیں اوپر اٹھانے کی کوشش کی۔
اسی کے ساتھ انھوں نے وقت کے مسائل میں بھی مسلمانوں کو رہنمائی دی۔ انھوں نے اپنی فارسی مثنوی میں حکایت اور تمثیل کی زبان میں مسلمانوں کو بتایا کہ ان حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ایک سبق آموز کہانی شیر اور خرگوش کی کہانی ہے جو مثنوی کے "دفتر اول" میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ اس کہانی کا خلاصہ یہ ہے:
جنگل میں ایک شیر تھا۔ وہ ہر روز اپنی بھوک مٹانے کے لیے جانوروں پر حملہ کرتا تھا۔ اور پکڑ کر انھیں اپنی خوراک بناتا تھا، اس کے نتیجے میں تمام جانور مستقل طور پر دہشت اور خوف میں پڑے رہتے تھے۔ آخر انھوں نے اس کا ایک حل نکالا۔ انھوں نے شیر سے بات کر کے اس کو اس پر راضی کیا کہ وہ ان پر حملہ نہ کرے۔ وہ خود اپنی طرف سے ہر روز ایک جانور اس کے پاس بھیج دیا کریں گے۔
اس تجویز پر عمل ہونے لگا۔ اس کی صورت یہ تھی کہ ہر روز قرعہ کے ذریعہ یہ طے کیا جاتا کہ آج کون سا جانور شیر کی خوراک بنے گا۔ جس جانور کے نام قرعہ نکلتا اس کو شیر کے پاس بھیج دیا جاتا۔ اس طرح تمام جانور امن کے ساتھ جنگل میں رہنے لگے۔ آخر کار قرعہ ایک خرگوش کے نام نکلا۔ یہ خرگوش پہلے سے سوچے ہوئے تھا کہ جب میرے نام قرعہ نکلے گا تو میں اپنے آپ کو شیر کی خوراک بننے نہیں دوں گا۔ بلکہ تدبیر کے ذریعہ خود شیر کو ہلاک کر دوں گا۔
سوچے سمجھے منصوبہ کے مطابق، خرگوش ایک گھنٹہ کی تاخیر کے ساتھ شیر کے پاس پہنچا۔ شیر بہت بھوکا تھا وہ تاخیر کی بنا پر اس کے اوپر بگڑ گیا۔ نیز صرف ایک چھوٹا خرگوش دیکھ کر اس کو اور بھی زیادہ غصہ آیا۔خرگوش نے نرمی اور لجاجت سے کہا کہ جناب، بات یہ ہے کہ آپ کی سلطنت میں ایک اور شیر آ گیا ہے۔ جانوروں نے آپ کی آج کی خوراک کے لیے دو خرگوش بھیجے تھے، مگر دوسرا شیر ہمارے اوپر جھپٹا۔ ایک کو تو اس نے پکڑ لیا۔ میں کسی طرح بھاگ کر آپ کے پاس آیا ہوں۔
اب شیر کا غصہ دوسرے شیر کی طرف مڑ گیا۔ اس نے چلا کر کہا کہ دوسرا شیر کون ہے جس نے اس جنگل میں آنے کی جرات کی ہے۔ مجھے اس کے پاس لے چلو۔ تاکہ میں اس کا قصہ تمام کر دوں۔ اب خرگوش کے ساتھ شیر روانہ ہوا۔ خرگوش نے شیر کو ادھر اُدھر گھمایا اور آخر میں اس کو ایک کنویں کے کنارے لا کر کھڑا کر دیا اور کہا کہ حضور، وہ شیر اس کے اندر موجود ہے، آپ خود اس کو دیکھ لیں۔
شیر نے کنویں کے اوپر سے جھانکا تو نیچے پانی میں اس کو اپنا عکس نظر آیا۔ اس نے سمجھا کہ خرگوش کا کہنا درست ہے اور واقعتاً اس کے اندر ایک اور شیر موجود ہے۔ شیر غرایا تو دوسرا شیر بھی غرا اٹھا۔ اپنی سلطنت میں اس طرح ایک اور شیر کا گھس آنا اس کو برداشت نہیں ہوا۔ وہ چھلانگ لگا کرمفروضہ شیر کےاوپر کو دپڑا۔ اور پھر کنویں میں پڑا پڑا مر گیا۔
اس طرح ایک خرگوش نے تدبیر کی طاقت سے شیر جیسے دشمن کا خاتمہ کر دیا۔ مولانا روم آخر میں کہتے ہیں کہ اس کی تدبیر کا جال گویا شیر کا پھندا تھا۔ کیسا عجیب تھا وہ خرگوش جو ایک شیر کو اچک لے گیا:
دام مکر او کمند شیر بود طرفہ خرگوشے کہ شیرے را ربود
یہ حکایت کی زبان میں ایک رہنمائی تھی جو مولانا روم نے اپنے زمانےکے مسلمانوں کو دی۔ مولانا روم نے مسلمانوں کو مجاہدانہ اقدام پر نہیں ابھارا۔ انھوں نے یہ نہیں کہا کہ جنگل کے تمام باسیوں کو چاہیے کہ وہ متحد ہو کر شیر کے اوپر حملہ کر دیں۔ اگر انھوں نے شیر کو مار ڈالا تو وہ غازی کا لقب پائیں گے۔ اور اگر شیران کو مارنے میں کامیاب ہو گیا تب بھی کوئی نقصان نہیں۔ کیوں کہ ایسی صورت میں وہ سب کے سب شہید قرار دیے جائیں گے۔ اور جس کو شہادت کا درجہ ملے اس کو بہت بڑا درجہ مل گیا۔
مولانا روم نے اس کے برعکس مسلمانوں کو حکیمانہ تدبیر کی طرف رہنمائی دی۔ انھوں نے موت کے بجائے زندگی کا طریقہ بتایا۔ ان کی بتائی ہوئی حکیمانہ تدبیر میں انسان کو ابتداءً چھوٹا بننا پڑتا ہے مگر آخری مرحلے میں پہنچ کر وہ بڑائی اور فتح کے بلند مقام کو پالیتا ہے۔
مولانا روم کی یہ نصیحت حال کے لیے بھی اتنی ہی کار آمد ہے جتنی وہ ماضی کے لیے کار آمد تھی۔