دماغی اضافہ
سرسی وی رمن (۱۸۸۸-۱۹۷۰) ہندستان کے مشہور سائنس داں تھے۔ وہ تر و چرا پلی میں پیدا ہوئے اور بنگلور میں ان کی وفات ہوئی۔ آخر وقت میں وہ رمن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر تھے۔ اس کے علاوہ وہ بہت سے علمی عہدوں پر فائز رہے۔ ۱۹۳۰ میں ان کو فزکس کا نوبیل پرائز دیا گیا۔ رمن کے بارے میں ایک معلوماتی مضمون سنڈے ریویو (۱۷ مارچ ۱۹۹۱) میں چھپا ہے۔ اس کا ایک اقتباس یہ ہے:
Raman believed that science came from the brain and not from equipment. When one of his pupils in spectroscopy complained that he had only a 1 KW lamp whereas his competitor abroad had a 10 KW lamp, Raman told him: "Don’t worry. Put a 10M KW brain to the problem."
رمن کا یقین تھا کہ سائنس دماغ سے آتی ہے نہ کہ ساز و سامان سے۔ ان کے ایک شاگرد نے ایک بار شکایت کی کہ اس کے پاس ریسرچ کا کام کرنے کے لیے صرف ایک کیلوواٹ کا لیمپ ہے، جب کہ بیرونی ملکوں میں اس کے برابر کے ایک طالب علم کے پاس ۱۰کیلوواٹ کا لیمپ ہوتا ہے۔ رمن نے اس طالب علم کو جواب دیا کہ تر دد نہ کرو تم اپنے مسئلہ کی تحقیق میں ۱۰ کیلوواٹ کا دماغ رکھ لو۔
یہ بات نہایت درست ہے۔ اس دنیا میں ہر کام کا تعلق دماغ سے ہے۔ سامان کی کمی کو دماغ سےپورا کیا جاسکتا ہے، مگر دماغ کی کمی کو سامان سے پورا نہیں کیا جاسکتا۔
دو سو سال اور تین سو سال پہلے مغرب میں جو سائنس داں پیدا ہوئے، ان میں سے کسی کے پاس وہ اعلیٰ سامان نہیں تھا جو آج کسی یونیورسٹی میں ایک ریسرچ طالب علم کے پاس ہوتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک نے کم سامان کے ساتھ کام کیا۔ مثلاً نیوٹن نے کروسین کے لیمپ کے ذریعہ کام کیا، کیوں کہ اس وقت بجلی کا استعمال ہی شروع نہ ہو ا تھا۔ وغیرہ۔ مگر یہی سائنس داں تھے جنھوں نے جدید مغربی سائنس کی بنیادیں قائم کیں۔
اس اصول کا تعلق ہر انسان سے ہے۔ جب بھی کسی شخص کو محسوس ہو کہ اس کے پاس سرمایہ یا وسائل یا ساز و سامان کی کمی ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنی دماغی محنت کو بڑھالے۔ اس کی دماغی محنت اس کے لیے ہر دوسری کمی کی تلافی بن جائے گی۔
فطرت نے دماغ کی صورت میں انسان کو حیرت انگیز طاقت دی ہے۔ دماغ کو استعمال کر کے آدمی اپنی ہر کمی کی تلافی کر سکتا ہے۔
مسٹر کمال علیگ (پیدائش ۱۹۵۸) نے یکم فروری ۱۹۸۹ کی ملاقات میں اپنا ایک واقعہ بتایا۔ وہ پہلے سگریٹ پیتے تھے۔ ۱۹۸۴ سے انھوں نے مکمل طور پر سگریٹ کو چھوڑ دیا ہے۔۱۹۷۶ سے ۱۹۸۱ تک وہ تعلیم کے سلسلے میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں تھے۔ اس زمانے میں وہ " چین اسموکر" تھے۔ ایک روز کا واقعہ ہے۔ امتحان کا زمانہ قریب تھا۔ وہ رات کو دیر تک پڑھنے میں لگے رہے۔ یہاں تک کہ رات کو ایک بجے کا وقت ہو گیا۔ اس وقت انھیں سگریٹ کی طلب ہوئی۔ دیکھا تو دیا سلائی ختم ہو چکی تھی۔ ہیٹر بھی بگڑا ہوا تھا۔ ایک طرف اندر سے سگریٹ کی سخت طلب اٹھ رہی تھی، دوسری طرف کوئی ایسی چیز موجود نہ تھی جس سے سگریٹ کو جلایا جاسکے۔
تقریباً آدھ گھنٹہ تک ان کے دماغ پر یہ سوال چھایا رہا۔ وہ اس سوچ میں پڑے رہے کہ سگریٹ کو کس طرح جلایا جائے۔ آخر ایک تدبیر ان کے ذہن میں آئی۔ ان کے کمرہ میں بجلی کا سو واٹ کا بلب لٹک رہا تھا۔ انھوں نے سوچا کہ اس جلتے ہوئے بلب میں اگر کوئی ہلکی چیز لپیٹ دی جائے تو کچھ دیر کے بعد گرم ہو کر وہ جل اٹھے گی۔ انھوں نے ایک پرانا کپڑا لیا اور اس کا ایک ٹکڑا پھاڑ کر جلتے ہوئے بلب کے اوپر لپیٹ دیا۔ تقریباً ۵ منٹ گزرے ہوں گے کہ کپڑا جل اٹھا۔ کمال صاحب نے فوراً اس سے اپنا سگریٹ سلگایا اور اس کے کش لینے لگے۔
اسی کا نام دماغی محنت ہے۔ عام لوگ محنت کے نام سے صرف جسمانی محنت کو جانتے ہیں۔مگر محنت کی زیادہ بڑی قسم وہ ہے جس کا نام دماغی محنت ہے۔ دنیا کی تمام بڑی بڑی ترقیاں وہی ہیں جو دماغی محنت کے ذریعہ حاصل کی گئی ہیں۔ جسمانی محنت پھاوڑا چلانے یا ہتھوڑا مارنے کا کام انجام دے سکتی ہے۔ مگر ایک سائنٹفک فارم یا جدید طرز کا ایک کارخانہ بنانے کا کام صرف دماغی محنت کےذریعہ ہوسکتا ہے۔ جسمانی محنت اگر آپ کو ایک روپیہ فائدہ دے سکتی ہو تو آپ دماغی محنت کے ذریعہ ایک کرور روپیہ کما سکتے ہیں۔ جسمانی محنت صرف یہ کر سکتی ہے کہ وہ دوڑ کر بازار جائے اور ایک دیا سلائی خرید کر لائے اور اس کے ذریعہ سے اپنی سگریٹ سلگائے۔ مگر دماغی محنت ایسی حیرت انگیز طاقت ہے جودیا سلائی کے بغیر آپ کے سگریٹ کو سلگا دے، جو ظاہری آگ کے بغیر آپ کے گھر کو روشن کر دے۔