ضمیر کی طاقت

ابوالبرکات علوی (۶۳ سال) نظام پور ضلع اعظم گڑھ (یوپی) کے رہنے والے ہیں۔ ۲۹ اگست ۱۹۸۹ کی ملاقات میں انھوں نے اپنے علاقے کا ایک واقعہ بتایا جس میں بہت بڑا سبق ہے۔

 اعظم گڑھ کے شمال مغرب میں ایک گاؤں ریدا ہے جو مجھوئی ندی کے کنارے فیض آباد کی سرحد پر واقع ہے۔ یہاں چار گھر مسلمانوں کے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہندؤوں کے دو سو گھر آباد ہیں۔ نومبر ۱۹۸۷ میں ایسا ہوا کہ باہر سے ایک نیل گائے آیا اور گنے کے کھیت میں داخل ہو گیا۔ ایک مقامی مسلمان جهنّو  درزی نے چاہا کہ اس کا شکار کیا جائے۔ انھوں نے پڑوس کے گاؤں مخدوم پور میں ایک مسلمان کو اس کی خبر کی جس کے پاس بندوق ہے۔ وہ اپنی بندوق لے کر آئے اور نیل گائے پر فائر کیا۔

 اگر نیل گائے موقع پر مرگیا ہوتا تو کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوتا۔ مگر نشانہ صحیح نہیں لگا۔ نیل گائے زخمی ہو گیا اور خون بہاتا ہوا بھا گا۔ ہندوؤں نے جب جابجا خون دیکھا تو وہ مشتعل ہو گئے۔ ان کو معلوم ہوا کہ جهنّو  درزی  نے مخبری کرکے نیل گائے پر گولی چلوائی ہے تو انھوں نے گاؤں میں پنچایت کی اور جهنّو  کو بلا کر اس کو یہ سزا سنائی کہ تم نے جو قصور کیا ہے اس کے بدلے تمہارے اوپر ایک ہزارروپیہ جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔

اس گاؤں میں کوئی سطحی لیڈر جهنّو درزی کو بہکانے کے لیے موجود نہ تھا اور نہ مسلمانوں کا وہاں کوئی زور تھا جو جهنّو درزی کو جھوٹے بھرم میں مبتلا کرے۔ چنانچہ فطرت نے جهنّو درزی کی رہنمائی کی۔ وہ لوگوں کے سامنے کھڑا ہو گیا اور کہا: پنچوں کا فیصلہ مجھ کو منظور ہے۔ میں غریب آدمی ہوں۔ میرے پاس نقد روپیہ موجود نہیں۔ مگر میں اپنے گھر کا سامان بیچ کر اس کو ادا کروں گا۔

 تین دن گزرے تھے کہ ہندووں کا ضمیر جاگ اٹھا۔ انھوں نے دوبارہ اپنے لوگوں کی پنچایت بلائی۔ انھوں نے آپس میں کہا کہ یہاں مسلمان بہت تھوڑے اور کمزور ہیں۔ باہر کے لوگ جب سنیں گے کہ ہم نے ان سے جرمانہ وصول کیا ہے تو وہ ہم لوگوں کو بہت گرا ہو سمجھیں گے اور ہماری بے عزتی ہوگی کہ ہم نے مسلمانوں کو کمزور پاکر انہیں دبا لیا۔ اتفاق رائے سے یہ طے ہوا کہ جهنّو درزی سے جرمانہ نہ لیا جائے۔ چنانچہ اس متفقہ فیصلہ کے مطابق جهنّو درزی کا جرمانہ معاف کر دیا گیا۔

ہر انسان کے اندر ضمیر ہے۔ یہ ضمیر فریق ِثانی کے اندر آپ کا نمائندہ ہے۔ اس فطری نمائندہ کو استعمال کیجیے اور پھر آپ کو کسی سے شکایت نہ ہوگی۔

 سی ایف ڈول (C.F. Dole) نے کہا ہے کہ–––––  مہربانی کا برتاؤ دنیا میں سب سے بڑی عملی طاقت ہے:

Goodwill is the mightiest force in the universe.

یہ محض ایک شخص کا قول نہیں، یہ ایک فطری حقیقت ہے۔ انسان کے پیدا کرنے والے نے انسان کو جن خصوصیات کے ساتھ پیدا کیا ہے، ان میں سے اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ کسی آدمی کے ساتھ برا سلوک کیا جائے تو وہ بپھر اٹھتا ہے، اور اگر اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے تو وہ احسان مندی کے احساس کے تحت سلوک کرنے والے کے آگے بچھ جاتا ہے۔

 اس عام فطری اصول میں کسی بھی شخص کا کوئی استثناء نہیں۔ حتی کہ دوست اور دشمن کا بھی نہیں۔ آپ اپنے ایک دوست سے کڑوا بول بولیے۔ اس کو بے عزت کیجیے۔ اس کو تکلیف پہونچائیے۔ آپ دیکھیں گے کہ اس کے بعد فوراً وہ ساری دوستی کو بھول گیا ہے۔ اس کے اندر اچانک انتقامی جذبہ جاگ اٹھے گا۔ وہی شخص جو اس سے پہلے آپ کے اوپر پھول برسا رہا تھا، اب وہ آپ کے اوپر کانٹا اور آگ برسانے کے لیے آمادہ ہو جائے گا۔

 اس کے برعکس ایک شخص جس کو آپ اپنا دشمن سمجھتے ہیں، اس سے میٹھا بول بولیے۔ اس کی کوئی ضرورت پوری کر دیجیے۔ اس کی کسی مشکل کے وقت اس کے کام آجائیے حتی کہ پیاس کے وقت اس کو ایک گلاس ٹھنڈا پانی پلا دیجیے۔ اچانک آپ دیکھیں گے کہ اس کا پورا مزاج بدل گیا ہے۔ جو شخص اس سے پہلے آپ کا کھلا دشمن دکھائی دے رہا تھا، وہ آپ کا دوست اور خیر خواہ بن جائے گا۔

 خدا نے انسان کی فطرت میں یہ مزاج رکھ کر ہماری عظیم الشان مدد کی ہے۔ اس فطرت نے ایک نہتے آدمی کو بھی سب سے بڑا تسخیری ہتھیار دے دیا ہے۔ اس دنیا میں شیر اور بھیڑیے کو مارنے کے لیے گولی کی طاقت چاہیے، مگر انسان کو زیر کرنے کے لیے کسی گولی کی ضرورت نہیں۔ اس کے لیے حسن سلوک کی ایک پھوار کافی ہے۔ کتنا آسان ہے انسان کو اپنے قابو میں لانا۔ مگر نادان لوگ اس آسان ترین کام کو اپنے لیے مشکل ترین کام بنالیتے ہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom