مشتعل نہ کیجیے

ہندستان میں سب سے زیادہ شیر گیر کے جنگل میں پائے جاتے ہیں۔ یہاں ان کے لیے بہت بڑا کھلا پارک بنایا گیا ہے جس کو Gir forest sanctuary  کہا جاتا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں یہاں ۲۰  سےبھی کم تعداد میں شیر پائے جاتے تھے مگر مئی ۱۹۹۰ کی گنتی کے مطابق، اب وہاں ۲۸۰ شیر ہیں۔ ان شیروں کی وجہ سے انسانی زندگی کو خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ ٹائمس آف انڈیا (۲۲ اگست ۱۹۹۰) کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے دو برسوں میں ان شیروں نے علاقہ کے ۱۶ آدمی مارڈالے اور ۱۴۰ آدمیوں کو زخمی کیا۔

 ان حادثات کے بعد مسٹر روی چیلم کی قیادت میں ایک ٹیم کو مقرر کیا گیا تاکہ وہ صورت حال کے بارے میں تحقیق کرے۔ انھوں نے تحقیق کے بعد یہ بتایا ہے کہ شیروں نے اگر چہ بہت سے انسانوں کو نقصان پہنچایا۔ اور ان پر حملے کیے۔ مگر یہ حملے محض شیروں کی درندگی کی بنا پر نہ تھے۔ ریسرچ کرنے والوں نے انسان کے اوپر شیر کے اکثر حملوں کا سبب اشتعال انگیزی کو قرار دیا ہے:

The researchers have attributed most of the lion attacks on human to provocations of the animals.

شیر ایک خوں خوار درندہ ہے۔ وہ انسان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ مگر شیر اپنی ساری درندگی کے باوجود اپنی فطرت کے ماتحت رہتا ہے۔ اور اس کی فطرت یہ ہے کہ وہ اشتعال انگیزی کے بغیر کسی انسان کے اوپر حملہ نہ کرے۔

 یہ قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جو یہ بتاتی ہے کہ "درندہ انسانوں "کے ظلم سے کس طرح بچا جائے۔ درندہ انسان کے ظلم سے بچنے کی واحد یقینی تدبیر یہ ہے کہ اس کو اس کی فطرت کی ماتحتی میں رہنے دیا جائے۔ اشتعال دلانے سے پہلے ہر انسان اپنی فطرت کے زیر حکم رہتا ہے۔ اور اشتعال دلانے کے بعد ہر آدمی اپنی فطرت کے حکم سے باہر آ جاتا ہے۔ گویا فطرت خود ہر آدمی کو ظلم و فساد سے رو کے ہوئے ہے۔ ایسی حالت میں آپ کو جوابی کارروائی کرنے کی کیا ضرورت۔

مشتعل ہونے سے پہلے شیر ایک بے ضررحیوان ہے مشتعل ہونے کے بعد شیر ایک مردم خور حیوان بن جاتا ہے۔ آپ شیر کو مشتعل نہ کیجیے، اور پھر آپ اس کے نقصان سے محفوظ رہیں گے۔

نرمی اور تحمل کوئی بزدلی کی بات نہیں، یہ زندگی کا ایک اہم اصول ہے جو خود خالقِ فطرت نے تمام مخلوقات کو سکھایا ہے۔

عربی کا ایک مثل ہے: السماح رباح۔ یعنی معاملات میں نرمی اور وسعتِ ظرف کاطریقہ ہمیشہ مفید ہوتا ہے۔

یہ مثل انسانی تجربات سے بنی ہے۔ انسان نے ہزاروں برس کے دوران دونوں قسم کا تجربہ کیا - نرم رویے کا بھی اور سخت رویے کا بھی۔ آخر کار تجربات سے ثابت ہوا کہ سخت رویہ الٹا نتیجہ پیدا کرتا ہے، اس کے مقابلے میں نرم رویہ ایسا نتیجہ پیدا کرتا ہے جو آپ کے لیے مفید ہو۔

ریلوے اسٹیشن پر دو آدمی چل رہے تھے۔ ایک آدمی آگے تھا، دوسرا آدمی پیچھے۔ پیچھےوالے کے ہاتھ میں ایک بڑا بکس تھا۔ تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے اس کا بکس اگلے آدمی کے پاؤں سے ٹکرا گیا۔ وہ پلیٹ فارم پر گر پڑا۔

 پیچھے والا آدمی فور اًٹھہر گیا اور شرمندگی کے ساتھ بولا کہ مجھے معاف کیجیے (Excuse me) آگے والے آدمی نے اس کو سنا تو وہ بھی ٹھنڈا پڑ گیا۔ اس نے کہا کوئی حرج نہیں (O.K.) اور پھر دونوں اٹھ کر اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ اس قسم کی کوئی ناخوش گوار صورت پیش آئے تو دونوں بگڑ جائیں۔ا یک کہے کہ تم اندھے ہو۔ دوسرا کہے کہ تم بد تمیز ہو، تم کو بولنا نہیں آتا۔ وغیرہ۔ اگر ایسے موقع پر دونوں اس قسم کی بولی بولنے لگیں تو بات بڑھے گی۔ یہاں تک کہ دونوں لڑ پڑیں گے۔ پہلے اگران کے جسم پرمٹی لگ گئی تھی تو اب ان کے جسم سے خون بہے گا۔ پہلے اگر ان کے کپڑے پھٹے تھے تو اب ان کی ہڈیاں توڑی جائیں گی۔

خواہ گھریلو زندگی کا معاملہ ہو یا گھر کے باہر کا معاملہ ہو۔ خواہ ایک قوم کے افراد کا جھگڑا ہو یا دو قوموں کے افراد کا جھگڑا۔ ہر جگہ نرم روی اور عالی ظرفی سے مسئلے ختم ہوتے ہیں اور اس کے برعکس رویہ اختیار کرنے سے مسئلے اور بڑھ جاتے ہیں۔

نرم روی کا طریقہ گویا آگ پر پانی ڈالنا ہے، اور شدت کا طریقہ گویا آگ پر پٹرول ڈالنا۔ پہلا طریقہ آگ کو بجھاتا ہے اور دوسرا طریقہ آگ کو مزید بھڑکا دیتا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom