ناکامی میں کامیابی

موہن سنگھ اوبرائے ۱۵ اگست ۱۹۰۰ کو جھیلم کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کے باپ پشاور میں ٹھیکہ داری کا کام کرتے تھے۔ مگر مسٹر اوبرائے ابھی صرف چھ مہینے کے تھے کہ ان کے باپ کا انتقال ہو گیا۔ باپ کے مرنے کے بعد مسٹر او برائے بے وسیلہ ہو کر رہ گئے۔ بڑی مشکلوں سے انھوں نے سرگودھا سے میٹرک کیا اور لاہور سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد مالی دشواری کی بنا پر وہ تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔

 مسٹر او برائے نے اپنی زندگی کے حالات لکھے ہیں جو ٹائمس آف انڈیا کے سنڈے ایڈیشن(۱۲ اگست ۱۹۹۰)میں چھپے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ انٹرمیڈیٹ کے بعد جب میں نے دیکھا کہ اب میں مزید تعلیم حاصل نہیں کر سکتا تو یہ میری زندگی میں بڑی تشویش کا لمحہ تھا۔ کیوں کہ میں نے محسوس کیا کہ موجودہ تعلیمی لیاقت کے ذریعہ میں کوئی سروس حاصل نہیں کر سکتا:

This was a moment of anxiety in my life as I realised that my qualifications would not get me a job.

سروس سے محرومی انھیں بزنس کے میدان میں لے گئی۔ یہ کاروباری جدو جہد کی ایک لمبی کہانی ہے جس کو مذکورہ اخبار میں دیکھا جاسکتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ۱۹۲۴ میں وہ معمولی طور پر ایک ہوٹل کے کام میں شریک ہوئے۔ ۱۹۳۹ میں جب دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو وہ کلکتہ میں اپنا ایک ہوٹل شروع کر چکے تھے۔ ان کا کام بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ آج وہ ایک" ہوٹل ایمپائر "کے مالک ہیں۔ ہندستان کے اکثر بڑے شہروں میں ان کے ہوٹل " اوبرائے "کے نام سے قائم ہیں۔ اس کے علاوہ سنگا پور، سعودی عرب، سری لنکا، نیپال، خلیج، مصر اور افریقہ میں ان کے بڑے بڑے ہوٹل کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں۔

مسٹر او برائے کو سروس کے میدان میں جگہ نہیں ملی تو انھوں نے بزنس کے میدان میں اس سے زیادہ بڑی جگہ اپنے لیے حاصل کر لی۔ یہی موجودہ دنیا میں کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے۔ یہاں کا میاب وہ ہوتا ہے جو گرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے کی صلاحیت کا ثبوت دے سکے۔

اگر ایک میدان میں آپ کو مواقع نہ ملیں تو دوسرے میدان میں محنت شروع کر دیجیے۔ عین ممکن ہے کہ آپ دوسرے میدان میں وہ سب کچھ پالیں جس کی امید آپ پہلے میدان میں کیے ہوئے تھے۔

ڈاکٹر سالم علی (۱۹۸۷-۱۸۹۶) کو علمِ طیور (Ornithology) میں غیر معمولی مقام ملا۔ ہندستان نے ان کو پدما بھوشن کا خطاب دیا۔ برطانیہ نے ان کو گولڈ میڈل سے نوازا۔ ہالینڈ نے ان کو گولڈن آرک عطا کیا۔ عالمی ادارہ وائلڈ لائف نے ان کو انعام کے طور پر ۵۰ ہزار ڈالر دیے۔ ہندستان کی تین یونیورسیٹیوں نے اعزازی طور پر ان کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی۔ وہ راجیہ سبھا کے ممبر بنائے گئے وغیرہ۔ ڈاکٹر سالم علی کو یہ غیر معمولی کامیابی ایک غیر معمولی ناکامی کے ذریعہ حاصل ہوئی۔ وہ بمبئی کے ایک گنجان علاقہ کھیت واڑی میں پیدا ہوئے۔ بی اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھیں روزگار کی ضرورت ہوئی۔ مگر جب وہ روزگار کی تلاش میں نکلے تو ان کے الفاظ میں"ہر ادارے اور ہر دفتر میں ان کے لیے جگہ نہیں (No vacancy) کا بورڈ لگا ہوا تھا "۔ اس ناکامی نے ان کے لیے نئی کامیابی کے راستے کھول دیے۔

ایک روز انھوں نے ایک چھوٹی چڑیا پکڑی۔ اس کو دیکھا تو اس میں ایک غیر معمولی خصوصیت نظر آئی۔ اس کی گردن پیلے رنگ کی تھی۔ انھوں نے اس کی تحقیق شروع کر دی۔ انھوں نے علم طیور کے موضوع پر بہت سی کتابیں پڑھ ڈالیں۔ ان کی دل چسپی بڑھتی گئی۔ یہاں تک کہ انھوں نے ایک دستی دوربین حاصل کی۔ اب ان کا کام یہ ہو گیا کہ ادھر اُدھر جا کر چڑیوں کا مشاہدہ کریں اور ان کے حالات اپنی ڈائری میں لکھیں۔ آخر کار انھوں نے علم طیور میں اتنی مہارت پیدا کی کہ خود اس فن کو نئی جہتوں اور نئی وسعتوں سے آشنا کیا۔ ان کی دوکتا بیں بہت مشہور ہیں۔ ایک کتاب میں انھوں نے برِصغیر ہند کی ۱۲۰۰ چڑیوں کے حالات لکھتے ہیں۔ ان کی دوسری کتاب طیورِ ہند (Indian Birds) ہے جو گیارہ بار چھپ چکی ہے۔ اور عالمی سطح پر پڑھی جاتی ہے۔

ڈاکٹر سالم علی کو زمینی ادارےمیں جگہ نہیں ملی تھی، انھوں نے آسمانی مشاہدہ میں اپنے لیے زیادہ بہتر کام تلاش کر لیا۔ ان کو ملکی ملازمت میں نہیں لیا گیا تھا، مگر اپنی اعلیٰ کار کر دگی کے ذریعہ وہ عالمی اعزاز کے مستحق قرار پائے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom