تعدّد ِازواج
قرآن میں اجتماعی زندگی کے بارے میں جو احکام دیے گئے ہیں ، ان میں سے ایک حکم وہ ہے جو تعدد ازواج (چار عورتوں تک نکاح کرنے) کے بارےمیں ہے ۔ اس سلسلےمیں آیت کے الفاظ یہ ہیں :
وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً (النساء ۳) اور اگر تم کو اندیشہ ہوکہ تم یتیم بچوں کے معاملے میں انصاف نہ کر سکو گے تو (بیوہ )عورتوں میں جو تم کو پسند ہوں ان سے دو دو، تین تین ، چار چار سے نکاح کر لو۔ اور اگر تم کو اندیشہ ہو کہ تم عدل نہ کر سکو گے تو ایک ہی نکاح کرو۔
یہ آیت غزوہ ٔاحد (شوال ۳ھ) کے بعد اتری۔ اس کا شان نزول یہ ہے کہ اس جنگ میں ۷۰ مسلمان شہید ہو گئے تھے۔ اس کی وجہ سے مدینہ کی بستی میں اچانک ۷۰ گھر مردوں سے خالی ہو گئے ۔ نتیجتاًیہ صورت حال پیش آئی کہ وہاں بہت سے بچے یتیم اور بہت سی عورتیں بیوہ ہو گئیں ۔ اب سوال پیدا ہوا کہ اس معاشرتی مسئلہ کو کس طرح حل کیا جائے ۔ اس وقت قرآن میں مذکورہ آیت اتری اور کہا گیا کہ جولوگ استطاعت رکھتے ہوں وہ بیوہ عورتوں سے نکاح کر کے یتیم بچوں کو اپنی سر پرستی میں لے لیں ۔
اپنے الفاظ اور اپنے شان نزول کے اعتبار سے بظاہر یہ ایک وقتی حکم نظر آتا ہے۔ یعنی اس کاتعلق اس صورت حال سے ہے جب کہ جنگ کے نتیجے میں آبادی کے اندر عورتوں کی تعداد زیادہ ہوگئی تھی اور مردوں کی تعداد کم ۔مگر قرآن اپنے نزول کے اعتبار سے زمانی ہونے کے باوجود اپنے اطلاق کے اعتبار سےایک ابدی کتاب ہے۔ قرآن کے اعجاز کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ زمانی زبان میں ابدی حقیقت بیان کرتا ہے۔ اس کا یہ حکم بھی اس کی اسی صفتِ خاص کا مظہر ہے۔
زیادہ شادی کا معاملہ صرف مرد کی مرضی پرمنحصر نہیں، اس کی لازمی شرط (Inescapable condition) یہ ہے کہ معاشرہ میں زیادہ عورتیں بھی موجود ہوں ۔ اگر زمین پر ایک ہزار ملین انسان بستے ہوں ، اور ان میں ۵۰۰ ملین مرد ہوں اور ۵۰۰ ملین عورتیں ، تو ایسی حالت میں مردوں کے لیے ممکن ہی نہ ہوگا کہ وہ ایک سے زیادہ نکاح کریں۔ ایسی حالت میں ایک سے زیادہ نکاح صرف جبراً کیا جا سکتا ہے، اور جبری نکاح اسلام میں جائز نہیں۔ اسلامی شریعت میں نکاح کے لیے عورت کی رضامندی ہر حال میں ایک لازمی شرط کی حیثیت رکھتی ہے ۔
اس طرح عملی طور پر دیکھئے تو قرآن کے مذکورہ حکم کی تعمیل صرف اس وقت ممکن ہے جب کہ سماج میں وہ مخصوص صورت حال پائی جائے جو احد کی جنگ کے بعد مدینہ میں پائی جارہی تھی ، یعنی مردوں اور عورتوں کی تعداد میں نابرابری ۔ اگر یہ صورت حال نہ پائی جارہی ہو تو قرآن کا حکم عملاً نا قابل نافذ ہوگا۔ مگر انسانی سماج اور انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قدیم مدینہ کی صورت حال محض وقتی صورت حال نہ تھی، یہ ایک ایسی صورت حال تھی جو اکثر حالات میں زمین پر موجود رہتی ہے۔ مذکورہ ہنگامی حالت ہی ہماری دنیا کی عمومی حالت ہے ۔ یہ قرآن کے مصنف کے عالم الغیب ہونے کا ثبوت ہے کہ اس نے اپنی کتاب میں ایک ایسا حکم دیا جو بظاہر ایک ہنگامی حکم تھا، مگر وہ ہماری دنیا کے لیے ایک ابدی حکم بن گیا۔
تعداد کی نابرابری
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ باعتبار پیدائش عورت اور مرد کی تعداد تقریبا ً یکساں ہوتی ہے۔ یعنی جتنے بچے ، تقریباً اتنی ہی بچیاں۔ مگر شرح اموات (Mortality) کے جائزہ سے معلوم ہوا ہے کہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں کے درمیان موت کی شرح زیادہ ہے ۔ یہ فرق بچپن سے لے کر آخر عمر تک جاری رہتا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (۱۹۸۴) کے مطابق ، عمومی طور پر ، موت کا خطرہ عمرکے ہر مرحلہ میں ، عورتوں کے لیے کم پایا گیا ہے اور مردوں کے لیے زیادہ :
In general, the risk of death at any given age is less for females than for males (VII/37).
اکثر حالات میں سماج کے اندر عورتوں کی تعداد کا زیادہ ہونا اور مردوں کی تعداد کا کم ہونا مختلف اسباب سے ہوتا ہے۔ مثلاً جب جنگ ہوتی ہے تو اس میں زیادہ تر صرف مرد مارے جاتے ہیں۔ پہلی عالمی جنگ (۱۸-۱۹۱۴) میں آٹھ ملین سے زیادہ فوجی مارے گئے ۔ شہری لوگ جو اس جنگ میں ہلاک ہوئے وہ اس کے علاوہ ہیں۔ یہ زیادہ تر مرد تھے۔ دوسری عالمی جنگ (۴۵- ۱۹۳۹) میں ساڑھے چھ کرور آدمی ہلاک ہوئے یا جسمانی طور پر ناکارہ ہو گئے ۔ یہ سارے لوگ زیادہ تر مرد تھے ۔ عراق - ایران
جنگ (۱۹۸۸-۱۹۷۹) میں ایران کی ۸۲ ہزار عور تیں بیوہ ہو گئیں ۔ عراق میں ایسی عورتوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ہے جن کے شوہر اس دس سالہ جنگ میں ہلاک ہوئے ۔
اسی طرح مثال کے طور پر جیل اور قید کی وجہ سےبھی سماج میں مردوں کی تعداد کم اور عورتوں کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے ۔ امریکہ کو موجودہ زمانے میں دنیا کی مہذب ترین سوسائٹی کی حیثیت حاصل ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ امریکہ میں ہر روز تقریباً ۱۳ لاکھ (1,300,000) آدمی کسی نہ کسی جرم میں پکڑے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک تعداد وہ ہے جو لمبی مدت تک کے لیے جیل میں ڈال دی جاتی ہے۔ ان سزا یافتہ قیدیوں میں دوبارہ ۹۷ فی صد مرد ہی ہوتے ہیں ((EB-14 /1102
اسی طرح جدید صنعتی نظام نے حادثات کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔ موجودہ زمانے میں حادثاتی موتیں روز مرہ کا معمول بن گئی ہیں ۔ سڑک کے حادثے ، ہوائی حادثے ، کارخانوں کے حادثے اور دوسرے مشینی حادثے ہر ملک میں اور ہر روز ہوتے رہتے ہیں۔ جدید صنعتی دور میں یہ حادثات اتنے زیادہ بڑھ گئے ہیں کہ اب سیفٹی انجیرنگ (Safety engineering) کے نام سے ایک مستقل فن وجود میں آگیا ہے ۔ ۱۹۶۷ کے اعداد و شمار کے مطابق ، اس ایک سال میں پچاس ملکوں کے اندر مجموعی طور پر۱۷۵۰۰۰ حادثاتی موتیں واقع ہوئیں (EB-16/137) یہ سب زیادہ تر مرد تھے ۔
صنعتی حادثات کی موتوں میں ،سیفٹی انجیرنگ کے باوجود ، پہلے سے بھی زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔مثال کے طور پر، ہوائی حادثات جتنے ۱۹۸۸ میں ہوئے ، اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے ۔ اسی طرح تمام صنعتی ملکوں میں مستقل طور پر اسلحہ سازی کے تجربات ہو رہے ہیں ۔ ان میں برابر لوگ ہلاک ہوتے رہتے ہیں ۔ ان ہلاک شدگان کی تعداد کبھی نہیں بتائی جاتی ، تاہم یہ یقینی ہے کہ ان میں بھی تمام ترصرف مرد ہی ہیں جو نا گہانی موت کا شکار ہوتے ہیں ۔
اس طرح کے مختلف اسباب کی بنا پر عملی صورت حال اکثر یہی ہوتی ہے کہ سماج میں عورتوں کی تعداد نسبتاً زیادہ ہو ، اور مردوں کی تعداد نسبتاً کم ہو جائے۔ امریکہ کی سوسائٹی نہایت ترقی یافتہ سوسائٹی سمجھی جاتی ہے ، مگر وہاں بھی یہ فرق پوری طرح پایا جاتا ہے۔ ۱۹۸۷ کے اعداد و شمار کے مطابق، امریکہ کی آبادی میں مردوں کے مقابلے میں تقریبا ً ۷۱ لاکھ (7.8 million)عورتیں زیادہ تھیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر امریکہ کا ہر مرد شادی شدہ ہو جائے تو اس کے بعد بھی امریکہ میں تقریباً ۷۱ لاکھ عورتیں ایسی باقی رہیں گی جن کے لیے ملک میں غیر شادی شدہ مرد موجود نہ ہوں گے جن سے وہ نکاح کر سکیں ۔
دنیا کی آبادی میں مرد اور عورت کی تعداد کے فرق کو بتانے کے لیے یہاں کچھ مغربی ملکوں کےاعداد و شمار دیے جا رہے ہیں۔ یہ اعداد و شمار انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا سے لیے گئے ہیں :
COUNTRY MALE FEMALE
- Austria 47.07% 52.93%
- Burma 48.81 51.19
- Germany 48.02 51.89
- France 48.99 51.01
- Italy 48.89 51.11
- Poland 48.61 51.39
- Spain 48.94 51.06
- Switzerland 48.67 51.33
- Soviet Union 46.59 53.03
- United States 48.58 51.42
عورت کی رضا مندی
ایک سے زیادہ نکاح کے لیے صرف یہی کافی نہیں ہے کہ آبادی کے اندر عورتیں زیادہ تعداد میں موجود ہوں۔ اسی کے ساتھ یہ بھی لازمی طور پر ضروری ہے کہ جس عورت سے نکاح کر نا مطلوب ہے وہ خود بھی اپنی آز ادا نہ مرضی سے اس قسم کےنکاح کے لیے پوری طرح راضی ہو ۔ اسلام میں عورت کی رضامندی مسلّمہ طور پر نکاح کےلیے شرط ہے۔ کسی عورت سے زبردستی نکاح کرنا جائز نہیں۔ اسلام کی نمائندہ تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسی مثال نہیں ہے جبکہ کس مرد کو یہ اجازت دی گئی ہو کہ وہ کسی عورت کو جبراً اپنے نکاح میں لے آئے ۔
حدیث میں آیا ہے کہ کنواری عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لے لی جائے (لَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ ، (صحيح البخاري: 6567) حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ ایک لڑکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ اس کے باپ نے اس کی مرضی کے خلاف اس کا نکاح کر دیا ہے ۔ آپ نے اس کو اختیار دیا کہ چاہے تو نکاح کو باقی رکھے اور چاہے تو اس کو توڑ دے ۔ ) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ جَارِيَةً بِكْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَذَكَرَتْ أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ فَخَيَّرَهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم (سنن ابوداؤ د: 2096 (
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ زَوْجَ بَرِيرَةَ كَانَ عَبْدًا يُقَالُ لَهُ مُغِيثٌ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ يَطُوفُ خَلْفَهَا يَبْكِي وَدُمُوعُهُ تَسِيلُ عَلَى لِحْيَتِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لِعَبَّاسٍ: يَا عَبَّاسُ، أَلَا تَعْجَبُ مِنْ حُبِّ مُغِيثٍ بَرِيرَةَ، وَمِنْ بُغْضِ بَرِيرَةَ مُغِيثًا؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم: لَوْ رَاجَعْتِهِ. قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، تَأْمُرُنِي؟ قَالَ: إِنَّمَا أَنَا أَشْفَعُ، قَالَتْ: لَا حَاجَةَ لِي فِيهِ ۔ ( صحيح البخاري: 5283)
حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ بریرہ کا شوہر ایک سیاہ فام غلام تھا۔ اس کا نام مغیث تھا۔ گویا کہ میں مغیث کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ مدینہ کے راستوں میں بریرہ کے پیچھے چل رہا ہے ۔ وہ رو رہا ہے اور اس کے آنسو اس کی داڑھی تک بہہ رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس سے کہا کہ اے عباس، کیا تم کو بریرہ کے ساتھ مغیث کی محبت اور مغیث کے ساتھ بریرہ کی نفرت پر تعجب نہیں ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ سے کہا کہ کاش تم اس کی طرف رجوع کر لو ۔ بریرہ نے کہا کہ کیا آپ مجھ کو اس کا حکم دیتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ صرف سفارش کر رہاہوں ۔ بریرہ نے کہا مجھے اس کی حاجت نہیں۔
تعدد ازواج کا ایک واقعہ وہ ہے جو حضرت عمر فاروق کی خلافت کے زمانےمیں پیش آیا۔ ایک بیوہ خاتون ام ابان بن عتبہ کو چار مسلمانوں کی طرف سے نکاح کا پیغام ملا جو سب کے سب شادی شدہ تھے۔ ان چار حضرات کے نام یہ ہیں ۔ عمر بن الخطاب ، علی بن ابی طالب ، زبیر اور طلحہ ۔ ام ابان نے طلحہ کا پیغام قبول کر لیا اور بقیہ تینوں کے لیے انکار کر دیا۔ اس کے بعد ام ابان کا نکاح طلحہ سے کر دیا گیا۔
یہ واقعہ مدینہ (اسلامی دارالسلطنت) میں ہوا۔ جن لوگوں کے پیغام کو رد کیا گیا ، ان میں وقت کے امیر المؤمنین کا نام بھی شامل تھا۔ مگر اس پر کسی نے تعجب یا بیزاری کا اظہار نہیں کیا۔ اور نہ اس بنا پر وہاں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام میں عورت کو اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ یہ عورت کا ایک ایسا حق ہے جس کو کوئی بھی اس سے چھین نہیں سکتا ، حتیٰ کہ وقت کا حکمراں بھی نہیں ۔
ان احکام اور واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں چار کی حدتک نکاح کرنے کی اجازت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی مرد چار عورتوں کو پکڑ کر اپنے گھر میں بند کر لے۔ یہ دو طرفہ رضا مندی کا معاملہ ہے۔ وہی عورت کسی شادی شدہ مرد کے نکاح میں لائی جا سکتی ہے جو خود اس کی دوسری یا تیسری بیوی بننے پر بلا اکراہ راضی ہو۔ اور جب یہ معاملہ تمام تر عورت کی رضامندی سے انجام پاتا ہے تو اس پر کسی کو اعتراض کرنے کا کیا حق ۔ موجودہ زمانے میں آزادیٔ انتخاب (Freedom of choice) کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اسلامی قانون میں یہ قدر پوری طرح موجود ہے ۔ البتہ "مساوات نسواں " کے عَلم بردار آزادیٔ انتخاب کو پابندیٔ انتخاب کے ہم معنی بنا دینا چاہتے ہیں ۔
مسئلہ کا حل نہ کہ حکم
مذکورہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عورت اور مرد کی تعداد میں نابرابری ہماری دنیا کا ایک مستقل مسئلہ ہے ۔ وہ جنگ کی حالت میں بھی پایا جاتا ہے اور جنگ نہ ہونے کی حالت میں بھی ۔ اب سوال یہ ہے کہ جب دونوں صنفوں کی تعداد میں نابرابری ہے تو اس نابرابری کے مسئلہ کو کس طرح حل کیا جائے۔ یک زوجگی کے اصول پر عمل کرنے کے نتیجے میں جن بیوہ یا غیر بیوہ عورتوں کو شوہر نہ ملیں ، وہ اپنی فطرت کے تقاضے پورے کرنے کے لیے کیا کریں۔ وہ سماج میں کس طرح اپنے لیے ایک با عزت زندگی حاصل کریں ۔
ایک طریقہ وہ ہے جو ہندستان کی روایات میں بتایا گیا ہے ۔ یعنی ایسی (بیوہ )عورتیں اپنے آپ کو جلا کر اپنے وجود کو ختم کر لیں ۔ تاکہ نہ ان کا وجو د رہے اور نہ ان کے مسائل ۔ یا پھر ایسی عورتیں گھر سے محروم ہو کر سڑکوں کی بے کس زندگی گزارنے پر راضی ہو جائیں ۔ اس اصول پر عمل کرنے کی بنا پر ہندو سماج کا کیا حال ہوا ہے ، اس کی تفصیل جاننا ہو تو انڈیا ٹوڈے ( ۱۵ نومبر ۱۹۸۷) کی ۸ صفحات کی باتصویر رپورٹ ملاحظہ فرمائیں جو اس با معنی عنوان کے تحت شائع ہوئی ہے کہ بیوائیں ، انسانیت کا بر باد شدہ ملبہ:
Widows: Wrecks of humanity
اس حل کے بارےمیں یہاں کسی مزید گفتگو کی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ مجھے یہ امید نہیں کہ موجودہ زمانےمیں کوئی باہوش آدمی اس طریقہ کی وکالت کر سکتا ہے یا کسی بھی درجہ میں وہ اس کو مذکورہ مسئلہ کا حل سمجھ سکتا ہے ۔
دوسری صورت وہ ہے جو مغربی ملکوں کی "مہذب سوسائٹی" میں رائج ہے۔ یعنی کسی ایک مرد کی دوسری منکوحہ بیوی بننے پر راضی نہ ہونا ، البتہ بہت سے مردوں کی غیر منکوحہ بیوی بن جانا ۔
دوسری عالمی جنگ میں یورپ کے کئی ملک لڑائی میں شریک تھے ۔ مثلاً جرمنی، فرانس، انگلینڈ وغیرہ ۔ ان میں مرد بڑی تعداد میں مارے گئے ۔ چنانچہ جنگ کے بعد مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان ملکوں میں جنسی بے راہ روی عام ہوگئی ۔ یہاں تک کہ بہت سی بے شوہر عورتوں کے گھروں کے سامنے اس قسم کے بورڈ لکھے ہوئے نظر آنے لگے کہ رات گزار نےکے لیے ایک مہمان چاہیے :
Wanted an evening guest
یہ صورت حال مغرب میں جنگ کے بعد بھی مختلف صورتوں میں بدستور باقی ہے ۔ اب اس کو باقی رکھنے کا سبب زیادہ تر صنعتی اور مشینی حادثات ہیں جس کی تفصیل اوپر درج کی گئی ۔
غیر قانونی تعدد ازواج
جن قوموں میں تعدد ازواج کو نا پسند کیا جاتا ہے ، ان کو اس کی یہ قیمت دینی پڑی کہ ان کے یہاں اس سے بھی زیادہ ناپسندیدہ ایک چیز رائج ہوگئی جس کو مسٹریس (Mistress) کہا جاتا ہے۔ ان قوموں کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اس فطری عمل کو روک سکیں جس کے نتیجے میں اکثر معاشرےمیں عورتوں کی تعداد زیادہ اور مردوں کی تعداد کم ہو جاتی ہے۔ ایک طرف آبادی کے تناسب میں یہ فرق اور دوسری طرف تعدد ازواج پر پابندی ، اس دو طرفہ مسئلہ نے ان کے یہاں مسٹریس کی برائی (بالفاظ دیگر، غیر قانونی تعدد ازواج )کو پیدا کر دیا۔
مسٹریس(Mistress ) کی تعریف ویبسٹرس ڈکشنری (Webster's Dictionary) میں یہ کی گئی ہے کہ وہ عورت جو کسی مرد سے جنسی تعلق رکھے ، اس کے بغیر کہ اس سے اس کا نکاح ہوا ہو :
A woman who has sexual intercourse with and, often, is supported by a man for a more or less extended period of time without being married to him; paramour.
مسٹریس کا یہ طریقہ آج بشمول ہندستان، تمام ان ملکوں میں رائج ہے جہاں تعدد ازواج پر قانونی پابندی ہے یا سماجی طور پر اس کو برا سمجھا جاتا ہے ۔ ایسی حالت میں اصل مسئلہ یہ نہیں ہےکہ تعدد ازواج کو اختیار کیا جائے یا نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آبادی میں عورتوں کی غیر مناسب تعداد کو کھپانے کے لیے قانونی تعدد ازواج کا طریقہ اختیار کیا جائے یا غیر قانونی تعدد ازواج کا۔
اسلامی طریقہ
اس کے بعد وہ طریقہ ہے جو اسلامی شریعت میں اس مسئلے کے حل کے لیے بتایا گیا ہے۔ یعنی مخصوص شرائط کے ساتھ کچھ مردوں کے لیے ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت ۔ تعدد ازواج کا یہ اصول جو اسلامی شریعت میں مقرر کیا گیا ہے ، وہ دراصل عورتوں کو مذکورہ بالا قسم کے بھیانک انجام سے بچانے کے لیے ہے ۔ بظا ہر اگرچہ یہ ایک عام حکم ہے، لیکن اگر اس حقیقت کو سامنے رکھیے کہ عملی طور پر کوئی عورت کسی مرد کی دوسری یا تیسری بیوی بننے پر ہنگامی حالات ہی میں راضی ہو سکتی ہے نہ کہ معمول کے حالات میں، تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ حکم در اصل ایک سماجی مسئلہ کے حل کے طور پر وضع کیا گیا ہے۔ وہ فاضل عورتوں کو جنسی آوارگی سے بچا کر معقول اور مستحکم خاندانی زندگی گزارنے کا ایک انتظام ہے۔ بالفاظ دیگر یہ یک زوجگی کے مقابلے میں تعدد ازواج کو اختیار کرنے کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ تعدد ازواج اور جنسی بربادی کے درمیان انتخاب کا مسئلہ پیدا ہونے کی صورت میں تعدد ازواج کو اختیار کرنا ہے ۔
تعدد ازواج کے حکم کو اگر مجرد طور پر دیکھا جائے تو وہ ایک ایسا حکم معلوم ہوگا جو مردوں کی موافقت میں بنایا گیا ہو۔ لیکن اگر اس کو سماج کی عملی صورت حال کے اعتبار سے دیکھئے تو وہ خود عورتوں کی موافقت میں ہے ۔ وہ عورتوں کے مسئلہ کا ایک زیادہ معقول اور فطری بندو بست (Arrangement ) ہے ، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔
اسلام میں تعدد ازواج کی اجازت مردوں کی جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے نہیں ہے ۔ یہ در اصل ایک مسئلے کو حل کرنے کی عملی تدبیر ہے ۔ مردوں کے لیے ایک سے زیادہ نکاح کرنا اسی وقت ممکن ہو گا جب کہ آبادی میں مردوں کے مقابلے میں عورتیں زیادہ تعداد میں پائی جارہی ہوں۔ اگر عورتوں کی تعداد نسبتاً زیادہ نہ ہو تو اس حکم پر عمل کرنا سر ے ممکن نہ ہوگا۔ پھر کیا اسلام مردوں کی خواہش کی تکمیل کے لیے ایک ایسا اصول بتا سکتا ہے جو سرے سے قابل حصول اور قابل عمل ہی نہ ہو۔
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (۱۹۸۴) نے بجا طور پر لکھا ہے کہ تعدد ازواج کے اصول کو اختیارکرنے کی ایک وجہ جنسی تناسب میں عورتوں کی زیادتی (Surplus of women) ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو قومیں تعدد ازواج کی اجازت دیتی ہیں یا اس کو پسند کرتی ہیں ، ان میں بھی مردوں کی بہت بڑی اکثریت فاضل عورتوں کی محدود تعداد کی وجہ سے ایک ہی بیوی پر اکتفا کرتی ہے :
Among most peoples who permit or prefer it, the large majority of men live in monogamy because of the limited number of women (VIII/97).
اسلام میں ایک سے زیادہ بیوی رکھنے کی اجازت بطور آئیڈیل نہیں ہے ۔ یہ در حقیقت ایک عملی ضرورت (Practical reason) کی وجہ سے ہے ، اور وہ یہ کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آبادی میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس زیادہ تعداد کے باعزت حل کے لیے تعدد ازواج کا اصول مقرر کیا گیا ہے۔ یہ ایک عملی حل ہے نہ کہ نظریاتی آئیڈیل ۔
خلاصۂ کلام
او پر جو بحث کی گئی ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابتدائی پیدائش کے اعتبار سے مرد اور عورت اگر چہ یکساں تعداد میں پیدا ہوتے ہیں۔ مگر بعد کو پیش آنے والے مختلف اسباب کی بنا پر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ معاشرہ میں مردوں کی تعداد کم ہو جاتی ہے اور عورتوں کی تعداد زیادہ ۔ سوال یہ ہے کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہو۔ جنسی نابرابری کی ناگزیر صورت حال میں دونوں جنسوں کے درمیان صحت مندتعلق کس طرح قائم کیا جائے ۔
یک زوجگی (ایک مرد، ایک عورت) کے اصول ِنکاح پر عمل کرنے کی صورت میں لاکھوں کی تعداد میں ایسی عورتیں باقی رہتی ہیں جن کے لیے معاشرہ میں ایسے مرد موجود نہ ہوں جن سے وہ نکاح کا تعلق قائم کر کے باعزت زندگی گزار سکیں ۔ یک زوجگی کا مطلق اصول کسی کو بظاہر خوشنما نظر آسکتا ہے ، مگر واقعات بتاتے ہیں کہ موجودہ دنیا میں وہ پوری طرح قابل عمل نہیں ۔ گویا ہمارے لیے انتخاب (Choice) ایک زوجہ اور متعدد زوجہ کے درمیان نہیں ہے۔ بلکہ خود متعد د زوجہ کی ایک قسم اور دوسری قسم کے درمیان ہے ۔
اب ایک صورت یہ ہے کہ یہ " فاضل " عورتیں جنسی آوارگی یا معاشرتی بربادی کے لیے چھوڑ دی جائیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اپنی آزادانہ مرضی سے ایسے مردوں کے ساتھ ازدواجی رشتہ میں وابستہ ہو جائیں جو ایک سے زیادہ بیویوں کے ساتھ عدل کر سکتے ہوں ۔
مذکورہ ہ بالا دو ممکن صورتوں میں سے اسلام نے دوسری صورت کا انتخاب کیا ہے ۔ اور غیر اسلام نے پہلی صورت کا ۔ اب ہر شخص خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ دونوں میں سے کون سا طریقہ زیادہ باعزت اور زیادہ معقول ہے ۔