خبر نامہ اسلامی مرکز - ۵۰
۱۔ ڈاکٹر رالف سسن (Ralph R. Sisson) اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک (امریکہ) میں کمیونی کیشن کے پروفیسر ہیں۔ وہ مذاہب کی عبادات و رسوم پر ریسرچ کر رہے ہیں ۔ وہ ۲۳ جنوری ۱۹۸۹ کو اسلامی مرکز میں آئے اور اسلام کی عبادت کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز سے تفصیلی انٹرویو لیا۔ ۲۷ جنوری کو انھوں نے دوبارہ صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی اور اپنے موضوع کے بارے میں مزید گفتگو کی ۔ صدر اسلامی مرکز نے خاص طور پر ان کو نماز کا فلسفہ اور اس کی حقیقت سمجھائی ۔ وہ بہت خوش اور مطمئن ہوئے ۔ صدر اسلامی مرکز کے کہنے پر انھوں نے عملاً ایک وقت کی نماز صدر اسلامی مرکز کے ساتھ دہلی کی ایک مسجد میں پڑھی۔
۲۔ناصر الدین شیخ صاحب نے اس سے پہلے" انسان اپنے آپ کو پہچان "کا ترجمہ گجراتی زبان میں کیا تھا اور اس کو بمبئی کے ایک گجراتی اخبار میں شائع کرایا تھا۔ اب انھوں نے اس کتاب کا ترجمہ مراٹھی زبان میں کیا ہے اور اس کو پمفلٹ کی صورت میں زیادہ تعداد میں شائع کیا ہے۔جو لوگ انسان اپنے آپ کو پہچان کا مراٹھی ترجمہ حاصل کرنا چاہتے ہوں وہ ذیل کے پتہ پردو روپیہ کا ٹکٹ بھیج کر اسے حاصل کر سکتے ہیں :
3/5, 9th Cross Lane, P. Bapurao Marg, Bombay 400004
ناصر الدین شیخ صاحب خاتون اسلام اور تعمیر ملت کا ترجمہ بھی کر رہے ہیں ۔
۳۔نیو یارک (امریکہ) سے مولوی ابراهیم مامون اپنے خط مورخہ ۱۸ جنوری ۱۹۸۹ میں لکھتے ہیں : نیو یارک میں میری ملاقات پر وفیسر تھامس سے ہوئی ۔ وہ مجھ سے عربی سیکھتے تھے اور میں ان سے انگریزی سیکھتا تھا۔ بہت پہلے انھوں نے اسلام کی تاریخ کے بارےمیں پڑھا تھا۔ میں نےمولانا وحید الدین خاں صاحب کی ساری کتابیں ان کو مطالعہ کے لیے دیں ۔ مطالعہ کے بعد انھوں نے اسلام قبول کر لیا ۔ ان کا اسلامی نام خالد تھا۔ افسوس کہ جلد ہی ۵۵ سال کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا ۔
۴۔ ڈاکٹر ہیر الال چوپڑہ ( سابق پروفیسر کلکتہ یونیورسٹی) الرسالہ کے مستقل قاری ہیں۔ وہ اپنے خط ۲ دسمبر ۱۹۸۸ میں لکھتے ہیں : اس زمانے میں جس طرح آپ اسلام کی توضیح و تشریح فرماتےہیں وہ اسلام کو صحیح رنگ میں پیش کرنے کا ایک جہاد ہے ۔ تنگ نظر لوگوں نے اسلام کو بدنام کر رکھا ہے ۔ کیوں کہ اس میں ان کا اپنا مفاد ہے ۔ جب تک انا کو فنا نہیں کیا جائے گا اسلام کو انسان سمجھ ہی نہیں سکتا۔ کیوں کہ اسلام کے اندر تسلیم کا حکم واضح ہے اور تسلیم بھی صرف اللہ تعالیٰ کے آگے ۔ خدا آپ کو سلامت رکھے کہ آپ صحیح اسلام سے دنیا کوواقفیت بہم پہنچانے میں سرگرم ہیں ( چور نگھی روڈ ، کلکتہ )
۵۔الرسالہ کے مضامین دوسرے پر چوں میں کثرت سے نقل کیے جا رہے ہیں ، اس طرح الرسالہ کا فکر مسلسل وسیع تر دائرہ میں پھیل رہا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی اور تاریخی جماعت جمعیہ علماء ہند کا ہفت روزہ ترجمان الجمیعہ کے نام سے نئی دہلی سے شائع ہوتا ہے۔ اس نے اپنے شمارہ ۳-۹ فروری ۱۹۸۹ میں الرسالہ کا ایک مضمون نمایاں طور پر مع مکمل حوالہ اس عنوان کے تحت شائع کیا ہے :- تحریک بابری مسجد ، کتنی نا کام کتنی کامیاب۔
۶۔بھوپال کے ساتھی الرسالہ کا ہندی اڈیشن نکالنے کا انتظام کر رہے ہیں۔ فی الحال یہ رسالہ سہ ماہی ہوگا ۔ آئندہ حسب حالات اس کو ان شاء اللہ ماہانہ کیا جا سکے گا۔
۷۔ایک صاحب لکھتے ہیں : الرسالہ نومبر ۱۹۸۸ سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ میرٹھ کا سفر نامہ کافی معلوماتی ہے اور دلسوز بھی۔ میرٹھ کے واقعات تو بہت سے اخبارات اور اکابرین ملت نے بیان کیے ہیں ، لیکن ان واقعات کے اسباب تک جس گہرائی سے آپ نے نظر ڈالی ہے اس میں آپ بس یوں سمجھیے کہ بلا مقابلہ منتخب ہوئے ہیں۔ ہر واقعہ کی تفصیل اور اس کا پس منظر جس کے سبب سے وہ واقعہ نمودارہوا ، بڑے تدبّر، تحقیق ، تلاش اور جستجو سے جمع کیا گیا ہے ۔ اس ضمن میں آپ کی پیش کردہ تجاویز بہت بیش قیمت اور کار آمد ہیں۔ اگر ان پر صدق دل سے عمل کیا جائے تو کبھی فساد کی نوبت ہی نہ آئے ۔ (محی الدین احمد حیدر آباد)
۸۔مسٹر ہر بنس لال (نئی دہلی) لکھتے ہیں : دو سال پہلے جامع مسجد دہلی کے بک اسٹال پر الرسالہ دیکھا تھا ۔ اس کو خرید کر پڑھا۔ مجھے اچھا لگا۔ اب میں دو سال سے اس کا مستقل خریدار ہوں ۔ آپ کے رسالہ نے میری گھریلو زندگی میں میری بڑی مدد کی ہے ۔ خداوندکریم سےپرارتھنا ہے کہ آپ لمبی عمر تک جئیں اور زندگی میں بھر پور خوشیاں پائیں اور لوگوں کو سچا گیان، راز زندگی عطا کرتے رہیں۔ خط کے ساتھ ایک چک (۴۸ روپیہ) کا روانہ کر رہا ہوں۔میری خریداری جاری رکھیں ۔
۹۔سوامی سدانند( حال مقیم نیو یارک) لکھتے ہیں : میں آپ کے خیالات اور تحریر سے بہت متاثر ہوں۔ آپ کے فراخدلانہ خیالات کا نہ صرف مداح ہوں بلکہ میں تو معتقد بھی ہو گیا ہوں۔ خداوند کریم آپ کو لمبی زندگی اور صحت عطا کریں تاکہ آپ دیش کی اور عوام کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں ۔ قرآن پاک اور حدیثوں کے حوالہ جات سے انسانیت کی وسعت کی تشریح بہت بڑا کام ہے جو آپ دن رات کر رہے ہیں ۔
۱۰۔ایک صاحب لکھتے ہیں : گزشتہ دنوں میرا بنگلہ دیش کا سفر ہوا تھا۔ راستہ میں مطالعہ کے لیے اسلامی مرکز کی چند کتا بیں اور الرسالہ کے متعدد شمارے ساتھ رکھ لیا تھا۔ یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہاں کے دینی مدارس کے طلبہ نے غیر معمولی دل چسپی ظاہر کی اوراب وہاں سے واپس آیا ہوں تو میرے پاس ایک بھی کتاب نہیں ہے اور نہ الرسالہ کے شمارے ہیں۔ بنگلہ دیش کے دو صاحبان کے نام گفٹ کے طور پر میری طرف سے الرسالہ جاری کر دیں۔ (محمد امین ، لکھنؤ)
۱۱۔الرسالہ اللہ کے فضل و کرم سے نہ صرف دینی، اخلاقی، تعمیری پہلو سے لوگوں کے لیے مفیدثابت ہو رہا ہے ، بلکہ اور بھی کئی پہلوؤں سے لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے ۔ مسٹرکشن جیونت راؤ پائل (ناندیڑ) اور مسٹر راج تیواری (بھوپال) نے بتایا کہ انھوں نے الرسالہ اور اس کی مطبوعات کو اردو میں پڑھنے کے لیے اردو زبان سیکھی ہے ۔ محترمہ فرزانہ (حیدرآباد) لکھتی ہیں کہ ایک انگلش میڈیم کی طالبہ ہونے کے باوجود آج میں اردو زبان اچھی طرح لکھنے اور پڑھنے کے قابل جو ہوئی ہوں وہ آپ کی عنایت اور الرسالہ کی بدولت ہے۔ مجھے دین سے اتنی لگن اور محبت الرسالہ کے مطالعہ سے ہوئی۔ میں اب پوری طرح مسلمان ہوں ۔ ہر نمازمیں آپ کے لیے اور الرسالہ کے لیے دعا کرتی ہوں ۔
۱۲۔سلمان رشدی کے بارےمیں آئندہ ان شاء اللہ ایک مکمل رسالہ شائع کیا جائے گا۔