ایک سفر

صنعاء (یمن) جنوبی عرب کا ایک تاریخی شہر ہے جو دنیا کی قدیم ترین آبادیوں میں شمار ہوتا ہے ۔ قدیم زمانے میں، وہ اپنی مختلف خصوصیات کی بنا پر ایک قابلِ دید شہر سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ ایک عرب شاعر کا شعر ہے کہ صنعاء ضرور جانا چاہیے ، خواہ اس کے لیے کتنا ہی لمبا سفر کر نا پڑے :

لابُدّ مِن صنعاء وإن طال السفر

صنعاء  میں ۲۹ اکتوبر - ۲ نومبر ۱۹۸۸ کو ایک بین اقوامی اسلامی کانفرنس ہوئی ۔ اس کانفرنس کا اہتمام یمن کی وزارت اوقاف نے کیا تھا۔ کانفرنس کی دعوت پر اس میں شرکت کا اتفاق ہوا۔ذیل میں اس سفر کی روداد درج کی جاتی ہے ۔

بیرونی سفر میں سب سے پہلا مرحلہ ویزا کا ہوتا ہے۔ میرے پاسپورٹ پر یمن کا ویزا لگ کر آیا تو معلوم ہوا کہ صفحات کے اعتبار سے یہ اس کا آخری ویزا تھا۔ اب اس پاسپورٹ میں مزید اندراج کی گنجائش نہیں۔ گویا با عتبار ضخامت وہ اکتوبر ۱۹۸۸ میں ختم ہو گیا ، جب کہ باعتبار مدت اس کی تاریخ فروری ۱۹۸۹ تک باقی تھی ۔ اسی طرح زندگی میں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے حوصلے زیادہ ہوتے ہیں ، مگر وسائل اس کی نسبت سے کم ہوتے ہیں ۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ وسائل کا لحاظ کرتےہوئے اپنے لیے زندگی کا راستہ نکالے ۔ پاسپورٹ کی تاریخ زیادہ ہو تب بھی وہ اس وقت سفرکے لیے بیکار ہے جب کہ اس کے صفحات کی مقدار ختم ہوگئی ہو ۔

 ۳۰ اکتوبر ۱۹۸۸ کی شام کو ۸ بجے گھر سے روانگی ہوئی۔ راستے میں ایک تجربہ گزرا۔ اس کےبعد آجکل کے معاشرے کے بارے میں سوچتے ہوئے میری زبان سے نکلا : آہ ، کوئی آدمی آدمی نہیں، ہر آدمی غیر آدمی ہے ۔ ایر پورٹ پہنچ کر اندر داخل ہوا تو ایر پورٹ کے عملےکے دو آدمی اپنے افسر  کے کسی حکم کے بارے میں آپس میں باتیں کرر ہے تھے ۔ ایک نے کہا" پھر کیا پر ابلم ہے" ۔ دوسرا شخص  بولا: "پرابلم کیا ہے، جو افسر کہے گا وہی کرنا ہوگا "۔

میں نے سوچا کہ انسان اس بات کو جانتا ہے کہ اس کو افسر کے کہے پر چلنا ہے۔ مگرانسان اس بات کو نہیں جانتا کہ اس کو خدا کے کہے پر چلنا ہے ۔ آج کا انسان خدا کی ماتحتی قبول کرنے کےلیے تیار نہیں ۔ حتٰی کہ وہ لوگ بھی نہیں جو خدا کا جھنڈا اٹھانے ہی کو اپنا مشغلۂ حیات بنائے ہوئے ہیں۔ افسر کے معاملے میں انسان کا حال یہ ہے کہ "پرابلم " ہو تب بھی وہ اس کی اطاعت کرتا ہے مگر خدا کے معاملے میں صورت ِحال اس کے برعکس ہے  ––––––  اگر پرابلم نہ ہوتو وہ خدا کے حکم کو مانے گا۔ اور اگر پرابلم پیش آجائے تو وہ خدا کے حکم کو ماننے سے انکار کر دے گا۔

دہلی سے کراچی تک کا سفر پی آئی اے کی فلائٹ ۲۷۳۲ کے ذریعہ ہوا۔ جہاز کے کیپٹن ضیاء الاسلام تھے۔ پی آئی اے کے جہاز کی صفائی اور اس کا انتظامی معیار انڈین ایرلائنز سے بہتر نظر آیا۔ پی آئی اے کے میگزین (ہم سفر )کے سرِورق پر عالمی معیار کے مطابق( (Your personal copyلکھا ہوا تھا۔ جب کہ انڈین ایر لائن کے میگزین نمسکار پر اس قسم کا اندراج  نہیں ہوتا۔ البتہ ایک چیز دونوں میں مشترک تھی ۔نمسکار میں انگریزی کے ساتھ ہندی مضامین کا حصہ ہوتا ہے ۔ اسی طرح ہم سفر میں انگریزی کے ساتھ اردو کا۔ مگر دونوں میں انگریزی زبان کا حصہ زیادہ تھا اور اپنی قومی زبان کا حصہ اس کے مقابلے میں کم ۔ دونوں ملک ایک دوسرے کی برتری کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مگر عین اسی وقت وہ بیرونی تہذیب کی برتری کو فخر کے ساتھ قبول کیے ہوئے ہیں ۔

جہاز اپنے ٹھیک وقت پر ۱۰ بج کر ۳۰ منٹ پر روانہ ہوا۔ تاہم اس کی بیشتر سیٹیں خالی تھیں ۔ اس قسم کے مسافر جہازوں کو تجارتی پرواز (کمر شیل فلائٹ )کہا جاتا ہے۔ مگر دنیا بھر میں اڑنے والے جہازوں کی بہت بڑی تعداد عملاً نان کمرشیل فلائٹ ہوتی ہے ۔ یہ در اصل ان پروازوں کا بالواسطہ فائدہ ہے جس کی وجہ سے انھیں جاری رکھا گیا ہے۔ اس دنیا میں اکثر کسی کام کو اس کے بالواسطہ فائدے کی خاطر کرنا پڑتا ہے ، خواہ بظاہر اس سے کوئی براہ راست فائدہ حاصل نہ ہو رہا ہو۔

 کراچی سے صنعاء  کا سفریمن ایر لائنز کی فلائٹ ۷۵۵ کے ذریعہ ہوا۔ راستے میں خلیج ٹائمز (۳۰ اکتوبر ۱۹۸۸) پڑھنے کا موقع ملا۔ یہ انگریزی روزنامہ دوبئی سے نکلتا ہے۔ اس میں ایک ہندستانی مسلمان (مقیم راٴس الخیمہ) کا مضمون تھا۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ ہندستانی مسلمانوں کا مسئلہ قیادت کے فقدان (Lack of leadership) کا مسئلہ ہے۔

مگر میرے نزدیک یہ ادھوری بات ہے ۔ اصل یہ ہے کہ مخصوص اسباب کی بنا پر ہندستان کے مسلمانوں کی نفسیات کچھ اس طرح کی ہو گئی ہے کہ لفظی جوش دکھانے والے سطحی لیڈروں کی باتیں ہی ان کو اپیل کرتی ہیں جو مسلمانوں کو بربادی کے سوا کہیں اور نہ لے جاسکیں۔ اس کے مقابلے میں جو رہنما سنجیدہ اور تعمیری بات کریں وہ مسلم عوام کے درمیان مقبولیت حاصل نہیں کرتے مسلمانوں کی یہی بے شعوری ان کا اصل مسئلہ ہے ، ہندستان میں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کا مسئلہ فقدان ِشعور ہے نہ کہ فقدانِ قیادت۔

 کراچی سے یمن کے سفر میں جہاز کے اندر ایک عرب مسافر سے ملاقات ہوئی۔ ان کے ساتھ کویت کا عربی اخبار الانباء ( ۱۹ اکتوبر ۱۹۸۸) تھا۔ اس کے آخری صفحہ پر خالد قطمہ کے قلم سے ایک دلچسپ مضمون درج تھا جس کا عنوان تھا ولو( اور اگر ) مضمون نگار نے لکھا تھا کہ عرب ممالک کے ہوائی اڈوں پر" مخدرات" سے بھی زیادہ جس چیز کی جانچ ہوتی ہے اور جس کو عرب امن اور مقاصد امت کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ہتھیار (أخطر سلاح ) سمجھا جاتا ہے وہ "کتاب" ہے ۔ اگر آپ کسی ہوائی اڈہ سے گزریں تو جانچ والا آدمی آپ کے حقیبہ کو کھولے گا اور اس کو ٹٹول کر دیکھے گا۔ اگر وہ اس میں کوئی کتاب پاگیا تو وہ اس کو اس طرح لے گا جیسے کہ اس نے کوئی ٹائم بم دیکھ لیا ہو (كأنه شاهد قنبلةموقوتۃ) اس کے بعد آپ  نہایت بے چارگی کے ساتھ اس کے فیصلے کا انتظار کریں گے کہ وہ  آپ کی کتاب کو ممنوع الدخول قرار دیتا ہے یا آپ اور آپ کی کتاب دونوں کو۔

 مضمون نگار نے اپنا بخار نظام (حکومت) پر اتارا تھا۔ مگر میرے نزدیک اس کی ساری ذمہ داری ان نام نہاد مسلم مفکرین پر ہے جنھوں نے اسلام کی سیاسی تفسیر کر کے اسلامی دعوت کو سیاسی انقلاب کے ہم معنی بنادیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلم ملکوں کے حکمراں اب" اسلامی دعوت" کا نام لینے والوں کو سیاسی اپوزیشن کے طور پر دیکھتے ہیں اور خطرہ سمجھ کر فوراً  انہیں دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسلم مفکرین کی اس خود ساختہ تشریح نے اب مسلم ملکوں میں اسلام کا کام کرنے کو بڑی حد تک نا ممکن بنادیا ہے۔

موجودہ زمانے کے مسلم مفکرین اگر غیر سیاسی اسلام پیش کرتے جس کی ایک مثال تبلیغی جماعت کی صورت میں نظر آتی ہے تو مسلم داعی کو مسلم ملکوں میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا اور کام کے تمام بہترین مواقع اس کو حاصل رہتے ۔ مگر ان کے "سیاسی اسلام "نے خود اپنی ہی دنیا کو اسلام کےلیے ایک قسم کا قید خانہ بنا دیا ہے ۔

صنعاء (یمن) کے ہوائی اڈہ پر اترا تو  ۳۱  اکتوبر کا سورج نکل رہا تھا۔ یہاں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ کاؤنٹر پر ضروری اندراجات کرانے کے بعد میں عام گیٹ سے باہر آیا۔ میں نے دیکھا کہ وہاں کا نفرنس کاکوئی آدمی میری رہنمائی کرنے اور ساتھ لے جانے کے لیے موجود نہیں ہے ۔ ادھر اُدھر دیکھنے کے بعدمیں پولیس (شُرطہ) کے دفتر میں گیا ۔ صنعاء  کے روزنامہ الثورة (۳۰ اکتوبر ۱۹۸۸) کے صفحۂ اول پر مذکورہ کانفرنس کے افتتاح (۲۹ اکتوبر ) کی روداد نمایاں طور پر شائع ہوئی تھی ۔ یہ افتتاح یہاں کے صدر (رئیس) علی عبد الله الصالح نے کیا تھا۔ اس اخبار کو میں نے پولیس افسر کو دکھایا اور کہا کہ میں اس کانفرنس میں شرکت کے لیے آیا ہوں۔ مگر یہاں کوئی شخص مجھے رسیو کرنے کے لیے موجود نہیں ہے۔ ابھی یہ بات ہورہی تھی کہ ایک صاحب مجھے تلاش کرتے ہوئے پولیس کے دفتر میں آگئے     ۔

 یہ عبدالرحمن اسماعیل الشبیبی (مدیر الحج والمؤتمرات) تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہم گاڑی لے کروی آئی پی لاونج میں آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ چنانچہ ان کے ساتھ روانہ  ہو کر مذکورہ مقام پر پہنچا۔اور ان کے ساتھ ہوٹل تک آیا۔

اس واقعے کے بعد دل بھر آیا۔ دنیا کے اس تجربے سے میرا ذہن آخرت کی طرف مڑ گیا۔ زبان سےبے اختیار نکلا : کیسا عجیب ہو گا اگر آخرت میں ایسا ہو کہ میں اپنے احساسِ عجز اور احساس ِتقصیر کے تحت عام دروازہ سے گردن جھکا کر نکل رہا ہوں ۔ اس وقت فرشتے میرے پاس آئیں اور کہیں کہ اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ –––––  میرے بندے کو ادھر لے آؤ اور اس کو خاص دروازہ سےنکالو ، ہم نے یہاں اس کے لیے خصوصی انتظام کر رکھا ہے ۔

صنعاء  میں میرا قیام شیراٹن ہوٹل (کمرہ ۳۳۰) میں تھا ۔ یہ ہوٹل پہاڑی سے متصل ہے۔ اس میں ایک نئی چیز یہ دیکھی کہ عام ہوٹلوں میں رسپشن گراؤنڈ فلور پر ہوتا ہے ۔ مگر اس ہوٹل میں رسپشن چھٹی منزل پر تھا۔ اس کی نیچے کی منزلیں ایک طرف پہاڑ سے ڈھکی ہوئی تھیں چھٹی منزل پر زمین کی سطح ملتی تھی، چنانچہ چھٹی منزل پر رسپشن اور آمد ورفت کے راستے بنائے گئے     تھے ۔ ہوٹل کے اس نظام کو دیکھ کر دل نے کہا : اس دنیا میں کبھی نیچے سے راستہ نکالنا ہوتا ہے اور کبھی اوپرسے ۔ اس "فرق "کو جاننے ہی میں زندگی کی تمام بڑی بڑی کامیابیوں کا راز چھپا ہوا ہے ۔

 ہوٹل کے کمرہ میں ایک فولڈر تھا۔ اس کا عنوان تھا : ضيفنا الكريم (Dear guest) اس میں بہت سے سوالات تھے اور "مہمان "سے گذارش کی گئی تھی کہ جب وہ ہوٹل سے جانے لگے تو اس کو بھر کر استقبالیہ میں چھوڑ دے ۔ ان سوالات کا خلاصہ یہ تھا کہ آپ نے اپنے تجربہ میں ہمارے ہوٹل کو کیسا پایا۔ ہمارے عملہ کی کارکردگی ، ہمارے کمروں کا نظام، ہماری سروس وغیرہ کے بارے میں جو تجربات آپ پر گزرے ہوں ان کو سوالات کے آگے تحریر کر دیں۔ اسی فولڈر کا ایک حصہ مؤظّفونا وعمّالنا (Our people) عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں تھا۔ اس میں مختلف پہلووں سے پوچھا گیا تھا کہ ہمارے ہوٹل کے عملہ نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا :

Gave you a friendly greeting upon arrival

Were courteous and helpful at the front desk

Smiled and greeted you each time they saw you

Performed their jobs quickly and efficiently

Were enthusiastic about their jobs

Took personal responsibility to answer your questions

Helped you without being asked, anticipated your needs

Took personal responsibility to resolve your problems

Were friendly and hospitable

Showed that they wanted you to come back

Overall, how well did our people perform?

اس کو پڑھ کر بے اختیار دل بھر آیا ۔ آنکھوں سے آنسو ابل پڑے۔ میں نے سوچا کہ دنیا کے فائدے کے لیے آدمی کتنا زیادہ اہتمام کرتا ہے ، مگر آخرت کے فائدے کے لیے لوگ کسی اہتمام کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ دکاندار اور گاہک کا جو رشتہ ہے ، وہی اخروی طور پر داعی اور مدعو کا رشتہ ہے ۔ مگر آج کوئی داعی نہیں جو اپنے مدعو کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کرے جو ہوٹل مالک اپنے گاہکوں کے ساتھ کر رہا ہے ۔

دل نے کہا : لوگ اپنی دنیا کی خاطر لوگوں سے مسکرارہے ہیں ۔ مگر خدا کی خاطر لوگوں سے مسکرانے والا کوئی نہیں ۔ دکاندار اپنے گاہک کا استقبال کرنے کے لیے بے قرار ہے مگر داعی کو اپنے مدعو کا استقبال کرنے سے کوئی دل چسپی نہیں۔ دنیا کی اقوام سے مسلمانوں کا یہی غیر داعیانہ سلوک ان کا سب سے بڑا جرم ہے۔ مسلمان جب تک اس معاملے میں اپنی اصلاح نہ کریں ، وہ خدا کی رحمتوں کے مستحق نہیں ہو سکتے۔ کیوں کہ خدا اسی شخص کا مسکرا کر استقبال کرتا ہے جس نے خدا کی خاطر اس کےبندوں کا مسکرا کر استقبال کیا ہو ۔

کئی منزلہ عمارتوں میں ایک مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ آگ لگنے کی صورت میں اس میں رہنے والے لوگوں کو کس طرح بچایا جائے ۔ اس مقصد کے لیے اونچی عمارتوں میں مختلف قسم کی ضروری ہدایات جگہ جگہ درج ہوتی ہیں۔ ہوٹل میں ایک جگہ یہ ہدایت لکھی ہوئی نظر آئی :

في حالة نشوب الحريق عليك استعمال السلّم وعدم استعمال المصعد

 یعنی اگر عمارت میں آگ لگ جائے تو عمارت سے نکل کر باہر جانے کے لیے لفٹ (Elevator) استعمال نہ کریں بلکہ سیڑھیوں کے ذریعہ اتریں ۔ اس ہدایت کی ضرورت اس لیے ہے کہ عمارت میں آگ لگنے کی صورت میں بجلی فیل ہو سکتی ہے۔ ایسی حالت میں آدمی اگر لفٹ کے اندر داخل ہو جائے تو وہ اپنے آپ کو آگ کے قید خانہ میں بند کرلے گا۔ اس کے بعد اس کے زندہ بچنےکی رہی سہی امید بھی ختم ہو جائے گی۔

لفٹ عام حالت میں تیزی کے ساتھ چڑھنے اترنے کا ذریعہ ہے ۔ مگر عمارت میں آگ لگنے کی صورت میں معاملہ الٹا ہو جاتا ہے ۔ اب آدمی کے لیے تیز رفتار ذریعے کے مقابلے میں سست رفتار ذریعہ زیادہ کارآمد بن جاتا ہے ––––––– تیز سفر  بظاہر بہت اچھی چیز ہے ۔ مگر بعض اوقات تیز سفر موت کا ذریعہ بن جاتا ہے اور سست سفر زندگی کا ذریعہ ۔

 یمن اس وقت دو حصوں میں تقسیم ہے۔ جنوبی یمن اور شمالی یمن ۔ جنوبی یمن پر مارکسی ذہن رکھنے والوں کا قبضہ ہے۔ مگر شمالی یمن  میں اسلامی فکر کے لوگ چھائے ہوئے ہیں۔ میرا سفر شمالی یمن میں ہوا۔ ایک صاحب نے میری عربی کتابوں کی فہرست مانگی۔ فہرست بتاتے ہوئے میں نے کہا کہ "ایک کتاب کا نام سقوط الماركسية ہے ۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ کتاب آپ کے یہاں پسند کی جائے گی یا نہیں" ۔ انھوں نے فوراً  کہا کہ مارکسی حکومت جنوبی یمن  میں ہے۔ ہمارے یہاں (شمالی یمن  میں ) اسلامی شورائی نظام ہے ( الحكم الماركسي في جنوب اليمن أما اليمن الشمالية فالحكم فيها شوروی اسلامی)  شمالی یمن  میں کافی ترقیاتی کام جاری ہیں ۔ یہ سب زیادہ تر سعودی عرب، کویت اور عرب امارات وغیرہ کے تعاون سے ہو رہے ہیں۔

روایات میں آتا ہے کہ یمن  کا وفد مدینہ آیا تور سو ل اللہ صلی للہ علیہ سلم نے فرمایا :  أَتَاكُمْ أَهْلُ الْيَمَنِ هُمْ ‌أَرَقُّ ‌أَفْئِدَةً وَأَلْيَنُ قُلُوبًا، الْإِيمَانُ يَمَانٍ، والْفِقْهُ ‌يَمَانٍ وَالْحِكْمَةُ يَمَانِيَةٌ (صحیح  بخاری: 4388 وصحیح  مسلم 52) یعنی تمہارے پاس یمن کے لوگ آئے ہیں۔ وہ رقیق القلب ہیں اور نرم دل ہیں۔ ایمان تو یمن والوں کا ہے ، سمجھ یمن والوں کی ہے ، حکمت یمنی حکمت ہے ۔

 اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے ، وہ مطلق معنوں میں نہیں ہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایمان اور تفقہ اور حکمت ہمیشہ کے لیے یمن  والوں کی خصوصیت ہے۔ اس کامقصد در اصل ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسلام قبول کرنے آئے۔ یہ ایک وقتی کلمہ ہے نہ کہ کوئی ابدی قانون - جو لوگ اس حقیقت کو نہ جانیں، وہ احادیث کو سمجھنے میں سخت غلطی کریں گے۔

قرآن کی سورۃ نمبر ۸۵ میں "اصحاب اخدود " کا ذکر ہے ۔ یعنی قدیم زمانے کے کچھ خدا پرست جن  کو آگ سے بھرے ہوئے گڑھے میں ڈال کر وحشیانہ طریقہ سے ہلاک کر دیا گیا تھا (البروج)

اصحاب اخدود کون لوگ تھے ، ان کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کوئی چیز ثابت نہیں۔ تاہم ایک تفسیر یہ ہے کہ یہ واقعہ حضرت مسیح کے پیروؤں کے ساتھ یمن میں ہوا۔ یہ غالباً  ۵۲۳ء  کا واقعہ ہے۔اس وقت یمن میں ایک یہودی بادشاہ ذونواس کی حکومت تھی۔ اس نے یمن  کے عیسائیوں کو یہودی بنانا چاہا ۔ وہ لوگ اس کے لیے راضی نہیں ہوئے ۔ یہودی بادشاہ ان پر سخت برہم ہوا اس نے کچھ عیسائیوں کو قتل کر دیا اور کچھ کو آگ میں ڈال کر جلا دیا ۔ مجموعی طور پر ان کی تعداد۲۰ ہزار بتائی جاتی ہے ۔

روایات بتاتی ہیں کہ ان یمنی  عیسائیوں میں سے ایک شخص ( ذو ثعلبان) بھاگ کر باہر چلا گیا۔ اس نے روم کے عیسائی بادشاہ قیصر اور حبش کے عیسائی حکمراں نجاشی کو اس ظالمانہ واقعہ کی اطلاع دی ۔ اس کے بعد حبش کی حکومت نے اپنے فوجی سردار اریاط کی رہنمائی میں  ۷۰  ہزار حبشیوں کی فوج تیار کی۔ رومی سلطنت نے بحری بیڑہ دیا جس کے ذریعہ فوج یمن کے ساحل پر اتاری گئی۔ اس نے لڑ کر  ذو نو اس کی فوج کو شکست دی اور ذونو اس کو قتل کر ڈالا ۔ اس طرح یمن  سے یہودی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔

یہ واقعہ۵۲۵ء میں پیش آیا ۔ اس کے بعد یمن پر حبش کی عیسائی حکومت کا اقتدار قائم ہو گیا۔ ظلم  ہرشخص کے لیے ممکن ہے۔ مگر ظلم پر کھڑا ہونا کسی شخص کے لیے ممکن نہیں ۔

 اریاط کے بعد ابر ہہ یمن  کا حکمراں ہوا۔ یہی ابرہہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے کچھ پہلے ہاتھیوں کی فوج لے کر مکہ آیا تھا تاکہ کعبہ کو ڈھا دے ۔ اس نے یمن کے دارالسلطنت صنعاء میں ایک بہت بڑا کلیسا (Ekklesia) بنوایا جیسا اب تک کسی عیسائی نے نہیں بنوایا تھا۔ اس نے اعلان کیا کہ میں اس وقت تک رکنے والا نہیں ہوں جب تک عرب کے حج کو اس کی طرف پھیر نہ دوں (لست بمنتہ حتى أصرف إليها حج العرب ، سيرة ابن ہشام ، اول ۴۳)

روایات کے مطابق غالباً ۵۷۱ء  میں وہ ۶۰ ہزار فوج کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوا۔ اس کی فوج میں ایک درجن بڑے بڑے ہاتھی بھی شامل تھے۔ اس لیے اس کو اصحاب فیل کہا گیا ہے مگر جیسا کہ سورہ الفیل میں بتایا گیا ہے ، ابر ہہ اور اس کا لشکر خدائی عذاب کے تحت تباہ ہو گیا اور مکہ کے اندر داخل ہونے میں کامیاب نہ ہو سکا۔

 ابن سبا جس کے فتنوں نے اسلامی تاریخ کو شاید سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ وہ اسی صنعاء کا رہنے والا تھا۔ وہ ایک یہودی تھا ۔ اس کا پورا نام عبداللہ بن سبا المعروف بہ ابن السوداء تھا  وہ خلیفۂ سوم حضرت عثمان کا ہم عصر تھا۔ اس نے یہ نظریہ نکالا کہ پیغمبر کا ایک وصی  ہوتا ہے جو اس کے بعد اس کا خلیفہ ہے ۔  محمدکے وصی علی ابن ابی طالب ہیں ۔ جس طرح محمد خاتم الانبیاء ہیں، اسی طرح علی خاتم الاوصیاء  ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ محمد کی وفات کے بعد لوگوں نے علیؓ کے سوا دوسروں کو خلیفہ بنا کر سخت غلطی کی ہے ۔ اب سب کو چاہیے کہ موجودہ خلیفہ (عثمان) کو قتل یامعزول کر دیں اور ان کی جگہ علی کو خلیفہ بنائیں۔

 صنعاء میں اس فتنے کو پھیلانے کے زیادہ مواقع نہیں تھے ۔ چنانچہ وہ صنعاء کو چھوڑ کر مدینہ آگیا۔ یہاں کے حالات بھی اس کے موافق نہ تھے۔ اس کے بعد وہ بصرہ گیا۔ پھر کوفہ اور دمشق پہونچا۔ لیکن ہر جگہ کے حالات اس کو اپنے خلاف نظر آئے۔ آخر میں وہ مصر پہنچا۔ اس وقت عبداللہ بن سعد ابن ابی سرح مصر کے گورنر تھے، عبداللہ کی بعض باتوں سے یہاں کے لوگوں کو کچھ شکایات تھیں۔ انھیں شکایتوں نے ابن سبا کو مصر میں کام کرنے کا موقع دے دیا۔ اس نے لوگوں کےجذبات کو ابھار کر مصر میں ایک عام شورش برپا کر دی جس کا آخری نتیجہ حضرت عثمان کا قتل تھا۔

 حکمراں کے خلاف ایجی ٹیشن کی مہم چلانا اور سیاسی شکایتوں کو بیان کرکے عوام کو بھڑکانا، یہ تمام تر ابن سبا کی سنت ہے ۔ یہ سنت آج بھی مسلمانوں میں پورے زور و شور کے ساتھ جاری ہے۔ حتی کہ موجودہ زمانے میں جن مسلم رہنماؤں نے عمومی شہرت حاصل کی ، وہ تقریباً  سب کے سب وہی ہیں جو ابن سبا کے اس مجرّب نسخے کو استعمال کر کے شہرت اور مقبولیت کے مقام تک پہونچےہیں۔

یمن میں ایک چھوٹا سا قصبہ مارب کے نام سے آباد ہے ۔ کسی وقت یہاں عالی شان شہرقائم تھا۔ قرآن میں قوم سبا کا ذکر ہے۔ اس کا مرکز یمن  کا قدیم شہر مارب تھا۔ اس کا زمانہ ۱۱۵   قبل مسیح کے بعد سے ایک ہزار سال تک پھیلا ہوا ہے ۔ تجارت اور زراعت میں غیر معمولی ترقی کی وجہ سے اس وقت وہ دنیا کی سب سے زیادہ مالدار قوم کی حیثیت رکھتی تھی۔ مگر آج دنیا کے اقتصادی نقشہ پر یمن کو کوئی قابلِ ذکر مقام حاصل نہیں۔

سبا کی قوم جنوبی عرب پر حکمراں تھی۔ تاریخ میں ان کو سبائی (Sabaean) کہا جاتا ہے۔ (1/1044) ساتویں صدی عیسوی میں یہ قوم اپنے آخری عروج پر تھی ۔ اس نے سدّ مآ رب (Marib Dam) بناکر اپنی زراعت کو زبردست ترقی دی جس کا ذکر قرآن میں سورہ ٔسبا میں آیا ہے۔ یہ علاقہ اس وقت اتنا سر سبز اور خوش حال ہو گیا کہ مؤرخین اس کو دورقدیم کا پیرس(Paris of the ancient world) کہتے ہیں۔

سدِّ مارب تقریباً چودہ میٹر اونچا اور ۶۰۰ میٹر لمبا تھا ۔ وہ ایک ہزار سال سے زیادہ مدت تک یمن  کی آبپاشی کا ذریعہ بنا رہا۔ (5/441) دور قدیم کے اعتبار سے وہ اتنا شاندار تھا کہ قوم سبا کے لوگ اس پر فخر کرتے تھے۔ حتٰی کہ اپنی ترقی اور خوش حالی کی وجہ سے ان میں سرکشی پیدا ہوگئی۔ اس وقت چھٹی صدی عیسوی میں بند کے اندر شگاف ظاہر ہوئے۔ یہ ابتدائی وارننگ تھی۔ مگر قوم سبا اس سے ہوش میں نہیں آئی ۔ اس کے بعد ساتویں صدی عیسوی میں سخت زلزلہ آیا اور بند سمیت پورا علاقہ ویران ہو گیا ۔

 صنعاء  ایک تاریخی شہر ہے جو یمن کی راجدھانی ہے ۔ صنعاء حضرت علی کے زمانے میں ۶۳۲ء میں اسلامی سلطنت کا حصہ بنا۔ یہ پورا شہر پہاڑ کے دامن میں بسا ہوا ہے ۔ ۱۵۱۶ ء سے وہ عثمانی ترکوں کے تحت تھا۔ یہ قبضہ ۱۹۱۳ء میں ختم ہوا۔ ۱۹۶۲ میں یہاں فوجی انقلاب آیا اور" امام" کی جگہ موجودہ حکومت قائم ہوئی ۔ پہلے یہاں یہودی بھی آبا د تھے ۔ ۵۰ - ۱۹۴۹ میں تمام یہودی باشند ے یمن کو چھوڑ کر اسرائیل چلے گئے۔ یہاں تمام ترقیاتی کام "انقلاب" کے بعد ہوئے ہیں۔ چنانچہ صنعاء یونیورسٹی ۱۹۷۰ میں قائم ہوئی۔

 یمن میں ایک چیز نظر آئی جو میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ہر آدمی اپنے پیٹ پر سینگ کی مانند یا انگریزی حرف ہے (J) کی شکل کی ایک چیز باندھے ہوئے تھا ۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ خنجر ہے جس کو یہاں کی زبان میں الجنبية کہتے ہیں۔ قدیم زمانے میں ہر آدمی اپنے ساتھ ایک تلوار رکھتا تھا۔ موجودہ زمانے میں خنجر نے اس کی جگہ لے لی ہے۔ تاہم وہ صرف علامت کے طور پر ہوتا ہے۔ اس کو کبھی لڑائی بھڑائی کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا ۔ حتی کہ اگر کوئی شخص ایساکرے تو اس کو سخت جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔

 ایک صاحب نے بتایا کہ یہاں جو شخص اس کو نہ لگائے وہ کمزور شخصیت کا آدمی سمجھا جائے گا۔ بنیادی طور پر وہ بطور زینت کے استعمال ہوتا ہے (من لا يحملها يُعتبر ذو شخصية ضعيفةوهي تُلبس أساساً كالزينة)

تا ہم اس رسمی خنجر کا بہت بڑا فائدہ ہے ۔ یہ اگرچہ مارنے کے لیے کبھی استعمال نہیں ہوتا ۔ مگر وہ یہاں کے بیشتر آپس کے جھگڑے ختم کر دیتا ہے۔ بہت کم جھگڑے ہیں جن کو عدالت میں لے جانے کی نوبت آتی ہے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ دو آدمیوں میں آپس کا جھگڑا ہو، خواہ وہ قتل کا ہو یا ایک ملین ڈالر کا ہو ۔ دونوں دونوں اپنے قبیلے کے سردار کے پاس جائیں  گے ، ، اور اپنے اپنے" خنجر" کو نکال کر سردار کے سامنے رکھ دیں گے ۔ یہ اس بات کی ضمانت ہوگی کہ سردار جو بھی فیصلہ کر دے، وہ اس کو لاز ماً تسلیم کریں گے ، خواہ وہ اپنے موافق ہو یا اپنے خلاف۔ یہاں کے ۸۰  فی صد جھگڑےاسی طرح عدالت میں جائے بغیر طے ہو جاتے ہیں۔

 یہ روایات کی طاقت کا نتیجہ ہے ۔ ہندستان میں آزادی کے بعد تمام روایات ٹوٹ گئیں، اور کوئی نئی روایت قائم نہیں ہوئی۔ یہی سب سے بڑی کمی ہے جو آج کے ہندستان میں پائی جاتی ہے۔

۳۱ اکتوبر کی دو پہر کو عبد الله الصالح (رئیس جمہوریہ یمن )سے یہاں کے "قصر" میں ملاقات ہوئی۔ یہ اجتماعی ملاقات تھی۔ فرداً فرداً ملاقات کے بعد رئیس نے ایک مختصر خطاب کیا۔ اس میں انہوں نے اس تصور کو پسند کیا کہ اسلام کو ایک دعوتی قوت کی حیثیت سے اٹھایا جائے ۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت بہت سی اسلامی جماعتیں اسلام کے نام پر سیاسی جھگڑوں میں مشغول ہیں۔ اس کے بجائے اگر وہ دعوتی محاذ پر کام کریں تو یہ ان کی صلاحیتوں کا زیادہ بہتر استعمال ہوگا۔

۳۱ اکتوبر کی شام کو سبا ہوٹل (Taj Sheba Hotel) میں ایک خصوصی میٹنگ ہوئی۔ اس میں کانفرنس کے بیرونی شکراء اور یمن کے مقامی علماء جمع ہوئے۔ کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن سے ہوا۔ اس کے بعد قاضی علی العثمان (وز یر الاوقاف) نے ابتدائی خطاب کیا۔ وہ خالص عالمانہ حلیہ میں تھے ۔ اس موقع پر وزارت اوقاف کے اکثر ذمہ داران موجود تھے ۔ معلوم ہوا کہ وزیر، نائب وزیر اور دوسرے اکثر تعلیم یافتہ افراد میری کتابیں پڑھے ہوئے ہیں۔ لوگوں کا شدید اصرار تھا کہ میں کانفرنس کے بعد مزید ٹھہروں تاکہ یہاں کی یونیورسٹی اور دوسرے اداروں میں میرے محاضرات رکھوائے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو جب معلوم ہوگا کہ آپ یہاں آئے تو ان کو سخت شکایت ہو گی کہ آپ سے ملاقات اور محاضرہ کا پروگرام کیوں نہیں رکھوایا گیا۔ ، مگر وقت کی کمی کے باعث میں نے عذر کر دیا۔ سبا ہوٹل کے جس ہال میں اس ملاقات کا انتظام کیا گیا تھا، وہاں دیوار پر جلی حرفوں میں لکھا ہوا تھا:

الدعوة إلى الله : رسالة الأنبياء وميراث العلماء ونهج الصالحين

 اس نشست میں تقریباً ۵۰ آدمی شریک ہوئے مگر لوگوں کی گفتگوؤں سے ایسا معلوم ہوا کہ کسی پر پوری طرح یہ واضح نہیں ہے کہ" دعوت الی اللہ "کیا ہے ۔ اکثر لوگ دعوت سے آغاز کر کے مبشرین  اور مستشرقین اور صہیونیین کے پیدا کردہ مسائل پر اظہار خیال کرنا شروع کر دیتے ۔ حالاں کہ یہ سب دفاعی مسائل ہیں نہ کہ دعوتی مسائل ۔

ایک صاحب نے ان الفاظ کے ساتھ اپنی تقریر شروع كي :هل لنا أن نتساءل ما هو دور العلماء اليوم في إيقاظ الأمة ودفعها لاقامة حضارة إسلامية جديدة (کیا ہم اپنے آپ سے یہ سوال کریں گے کہ امت کو بیدار کرنے میں اور اسلامی تہذیب کو قائم کرنے میں علماء کا رول کیا ہے ) مگر چند جملوں کے بعد ہی ذہن کی گاڑی "حل مشاکل" اور مقابلہٴ اعداء کےرخ پر چل پڑی۔ موجودہ زمانے میں ہر جگہ کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ کام کے نام سے صرف ایک چیز کو جانتے ہیں اور وہ مقابلۂ اعداء ہے ۔ دعوتِ اعداء کی اہمیت نہ ان کے اصاغر کو معلوم ہے اور نہ ان کےاکابر کو۔

کانفرنس میں زیادہ تر انھیں امور پر بحث ہوئی جن کو ہندستان میں" مسائل ملت " کہا جاتا ہے ۔ اس کے ایک اجلاس میں کسی موضوع پر مشاورتی بحث ہورہی تھی ۔ ہر آدمی نیا نیا نکتہ نکال کر بحث کو لمبا کر رہا تھا۔ صدر جلسہ نے اپنی طرف سے ایک آخری تجویز پیش کی اور رد ّعمل کا انتظار کیے بغیر فوراً  کہا : اذ لم يكن هناك اعتراض فيُعتبر أنّ هناك موافقة (اگر کوئی اعتراض نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر اتفاق ہے) یہ کہہ کر کارروائی آگے بڑھا دی۔

 مشاورتی مجالس میں یہی طریقہ درست ہے ۔ ہر شخص جس نے اس طرح کی مجالس میں شرکت کی ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ لوگ اتنی زیادہ بحثیں نکالتے ہیں کہ ایسا معلوم ہونے لگتا ہے کہ یہ بات کسی خاتمہ پر پہونچنے والی نہیں۔ ایسی حالت میں بات کو ختم کرنے کی صورت وہی ہے جس کی ایک مثال مذکورہ واقعہ میں نظر آتی ہے ۔

 یہاں کے اجتماع میں اور دوسری اسلامی کانفرنسوں میں شرکت کے بعد میں اس رائے پر پہنچا ہوں کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں پر" خطرات" کا ذہن سوار ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں "مواقع" دکھائی نہیں دیتے ۔ اور بلا شبہ یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ بے شمار سرگرمیوں کے باوجود اب تک احیاء اسلام اور تعمیر ملت کا عمل ان کے درمیان شروع نہ ہو سکا۔ اس کا منزل پر پہنچناتو در کنار۔

امریکہ میں ایک شخص نے پیغمبر ہونے کا دعوی کیا ہے ۔

غانا میں ایک شخص نے نیا مذہب نکالا ہے جس کا مقصد تمام مذہبی کتابوں( بشمول قرآن ) کو جلانا ہے ۔

انگلینڈ میں ایک شخص نے مضمون شائع کیا ہے جس میں پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کی گئی ہے۔

فلان مسلم حکمران مسلمان نہیں ہے ، وہ یہودی ہے ، وغیرہ

مسلمان ہر جگہ بس اسی قسم کے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ وہ اب تک زندگی کے اس راز کو نہ جان سکے کہ اس قسم کے "مسائل" ہر زمانے میں ہوتے ہیں اور ہر زمانے میں لازماً  باقی رہیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے ۔ ہمارا کام اس قسم کے "خطرات " کا انکشاف کرنا نہیں ہے ۔ ہمارا مقصد ان مواقعِ کار کو تلاش کرنا ہے جو ہر حال اور ہر مقام پر موجود رہتے ہیں۔ ہمیں خطرات کو نظر انداز کرتے ہوئے مواقع کو استعمال کرنا چاہیے۔ یہی زندگی کا راز ہے۔ اسی  تدبیر کے ذریعہ دورِ اول میں اسلام کی تاریخ بنی تھی ۔ آئندہ بھی جب اسلام کی تاریخ بنے گی، اسی تدبیر کے ذریعہ بنے گی ۔ اگر مسلمان خطرات کے خلاف ردّ عمل میں مشغول رہے تو اسلام کی جدید تاریخ بننے والی نہیں ، خواہ اس قسم کے ردّ عمل میں ایک کرور سال کیوں نہ صرف کر دیے جائیں ۔

میں نے کہا کہ مغرب نے تسخیرِ کائنات کے امکان کو استعمال کر کے موجودہ غلبہ حاصل کیا ہے۔مگر تسخیر قلوب کے امکان کو استعمال کرنے کا میدان ابھی خالی ہے ۔ جو قوم اس دوسرے امکان کو استعمال کرے گی وہ مغربی تاریخ سے بھی زیادہ بڑی تاریخ بنائے گی۔ تاہم اندازہ ہوا کہ اس طرح کی بات صرف ایک تقریر سے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔ اس کے لیے مسلسل ذ ہنی خوراک پہونچانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام مؤثر طور پر صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب کہ الرسالہ کا عربی اڈیشن نکلنے لگے۔ معلوم ہوا کہ کچھ عرب حضرات بطور خود الرسالہ کا عربی اڈیشن نکالنے کی تدبیر کررہے ہیں۔

یمن قوم سبا کا وطن رہا ہے ۔ سبا کادارالسلطنت مارب تھا ۔ اس کے نام پر سدّ مارب یہاں کا مشہورترین تاریخی مقام ہے۔ ۲ نومبر ۱۹۸۸ کی صبح کو صنعاء سے مآرب کے لیے روانگی ہوئی۔یہ مقام صنعاء سے تقریباً ۱۲۰  کلومیٹرکے فاصلہ پر واقع ہے۔ شروع سے آخر تک نہایت عمدہ سڑک ہے جو کویت کے تعاون سے بنائی گئی ہے۔ تقریباً  پورا راستہ پہاڑوں کے درمیان طے ہوا۔ ان پہاڑوں میں ہر قسم کے پتھر پائے جاتے ہیں ۔ قدیم زمانے میں یمن  کا عقیق  (قیمتی سُرخ پتھر)  بہت مشہور تھا۔ ایک شاعر نے دنیا کی بے ثباتی کی تصویر کشی کرتے ہوئے کہا ہے :

اشک یخ بستہ ٔعبرت ہیں، عدن کے موتی         خون افسردہ ٔحسرت ہے عقیق ِیمینی

  تین ہزار سال پہلے یمن  کے لوگوں نے جو سدّ مارب بنایا تھا۔ وہ آج بھی انسانی ذہانت کا اعلی ترین نمونہ ہے ۔ خود اس علاقے میں زیادہ بارش نہیں ہوتی۔ بہت بڑے علاقہ کی بارانی بارش کو بند کے ذریعہ مارب کے مقام پر جمع کیا جاتا تھا اور اس سے سینچائی کا کام لیا جاتا تھا۔ اس تدبیر نے اس خشک علاقے کو سرسبز و شاداب بنا دیا تھا۔ قدیم سدِّ مارب کے آثار اب بھی نمایاں طور پر موجود ہیں ۔

قدیم بند ہی کے مقام پر اب یہاں دوبارہ جدید طرز کا ڈیم بنایا گیا ہے ۔ ڈیم کے انچارج نے تعارف کراتے ہوئے کہا کہ شیخ زائد (عرب امارات ) نے یہاں کا دورہ کیا تو ان کے ذہن میں یہ بات آئی کہ اس کو دوبارہ بنایا جائے ۔ سب سے پہلے انھیں نے اس تصور کا آغاز کیا ( وهو الذي بدأ هذه الفكرة )

 ہم لوگوں کا قافلہ تقریباً  دو گھنٹے میں سدِّ مارب  کے مقام پر پہونچا۔ تعارف کے دوران بتایا گیا کہ اس ڈیم کو دوبارہ بنانے کے دو مقصد ہیں ۔ ایک مقصد اقتصادی ہے۔ یعنی اس علاقے کی آب  پاشی کے لیے پانی حاصل کرنا ۔ دوسرا مقصد اسلامی ہے ۔ سدِّ مارب کا ذکر خود قرآن میں آیا ہے ۔ یہ ڈیم اس علاقے کی یاد کو ہمیشہ زندہ رکھے گا  ( يحي ذكرى هذه المنطقة) یہ ڈیم گویا انسان کے لیے اس بات کا نشان ہے کہ خدا کے شکر گذار بنو تو تمہارے لیے سب کچھ ہے اور ناشکری کرو گے تو اس کا نتیجہ دوبارہ وہی ہو گا جو قوم سبا کے ساتھ پیش آیا ۔

موجودہ ڈیم  ۷۰۰  میٹر لمبا اور ۴۰  میٹر اونچا ہے۔ قدیم سدّ مارب تقریباً ۱۸  میٹر اونچا تھا۔ جہاں یہ ڈیم بنایا گیا ہے اس کو عام طور پر وادیٔ سبا کہا جاتا ہے۔ سابق سدِّ مارب تین ہزار سال پہلے بنا تھا۔ یہ پورا کا پورا مضبوط پتھروں کا تھا۔ اس کے آثار اب بھی جگہ جگہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں کثیر تعداد میں کتبے موجود ہیں۔ یہ کتبے حِمیَری زبان میں ہیں۔ یہ پورا  ڈیم شیخ زائد( عرب امارات) کے تعاون سے بن رہا ہے۔ اس کی لاگت ایک سو ملین ڈالر ہے۔ تحقیق اور ریسرچ کا سارا کام جرمن ماہرین نے کیا ہے۔ وہ پچھلے دس سال سے اس کام میں مشغول ہیں۔

سدِّ مارب دیکھنے کے بعد ہم لوگ اس کھنڈر کو دیکھنے کے لیے گئے     جو معبدِ شمس(Sun temple)نام سے مشہور ہے۔ یہ ملکہ بلقیس اور اس کی قوم ِسبا کا عبادت خانہ تھا۔ اب بھی اس کے کھنڈر صحرا میں موجود ہیں ۔ اس کے کئی ستون اب بھی کھڑے ہوئے ہیں۔ ان کا ایک ایک پتھر ۵۰ ٹن کا ہے ۔ یہ معبد گول انداز میں بنا ہوا تھا۔ اس کی کھدائی میں کافی کتبات اور سامان نکلے جواب لندن کے میوزیم میں موجودہیں۔ یہ معبد تقریباً  تین ہزار سال پرانا ہے۔

ہم وہاں دو پہر کے وقت پہونچے۔ سورج پوری تابناکی کے ساتھ چمک رہا تھا۔ اور اس کے نیچے معبد شمس  آخری حد تک کھنڈر کا نمونہ بنا ہوا تھا۔ اس ماحول میں ایسا معلوم ہوا جیسے سورج زبانِ حال سے کہہ رہا ہو کہ میں تمہارا خدا نہیں۔ اگر میں خدا ہوتا ہو تو میں اپنے عبادت خانہ کو کھنڈر ہونے سےبچالیتا۔

مزید آگے بڑھے تو وہ جگہ تھی جس کو "عرش بلقیس " کہا جاتا ہے ۔ یہ ملکہ سبا ( بلقیس) کا محل تھا جو معبد شمس کے قریب واقع تھا۔ اس کے پانچ بڑے بڑے ستون اب بھی سیدھے کھڑے ہوئے ہوئے ہیں۔ ہر ستون ۱۲ میٹر لمبا ہے ۔ ان ستونوں کے او پر یمنی لڑکے چڑھنے اور اترنے کا ایک عجیب و غریب تماشا دکھا رہے تھے۔ اس منظر کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ شہر کی اونچی عمارتوں میں اوپر چڑھنے کے لیے جو لفٹ لگی ہوئی ہے وہ اوٹس (OTIS) کی ہے۔ جو ایک مغربی کمپنی ہے ۔ روایتی صعود میں مسلمان ہے جو ایک خود استاد ہیں مگر مشینی صعود کے لیے انہیں مغرب کی شاگردی کرنی پڑتی ہے۔ مسلمان روایتی دور میں سب سے آگے تھے ، مگر سائنسی دور میں وہ سب سے پیچھے ہو گئے     ۔

 یہیں پر قدیم شہر مارب کے کھنڈرات ہیں جو دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں ایک عمارت ہےجو "مسجد سلیمان"  کے نام سے مشہور ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان نے یہاں نماز پڑھی اور پھر اسی جگہ مسجد تعمیر کی گئی۔ تاہم اس کا تاریخی ثبوت موجود نہیں ہے ۔ یہ مسجد ایک بہت بڑے ہال کی صورت میں ہے جو کہ تقریبا ً ۳۰ ستونوں پر قائم ہے۔ پورا مارب شہر ایک بلندی پر کھنڈرات کی صورت میں نظرآتا ہے اور عبرت کا عجیب نمونہ ہے ۔

مارب شہر مشہور " قیرواں روڈ " پر واقع تھا۔ یہ شاہراہ بحر عرب کو بحر روم سے ملاتی تھی۔ اس پر ہزاروں کی تعداد میں اونٹوں کے تجارتی قافلے گزرتے تھے۔ ان تاجروں سے ٹیکس وصول کیے جاتے تھے اور وہ حکومت سبا کی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ تھا –––––  قدیم زمانے کی تجارتی شاہراہ اب صرف سیاحوں کی شاہراہ بن کر رہ گئی ہے ۔

قدیم ماٴرب کے پاس ہی جدید ماٴ رب آباد ہے۔ طرز تعمیر کے اعتبار سے وہ بھی قدیم انداز کا بنا ہوا ہے ۔ یہاں ایک "ہوٹل بلقیس"  ہے جو غالباً سیاحوں کی ضرورت کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ گویاصحرا کے اندر ایک تہذیبی نخلستان ہے ۔ اس ہوٹل میں ظہر کی نماز پڑھی گئی اور یہیں دوپہر کا کھانا کھایا گیا ۔یہاں کچھ دیر آرام کرنے کے بعد صنعاء کے لیے واپسی ہوئی ۔

قدیم شہر مارب کے ٹوٹے ہوئے مکانات اور قدیم سدِّ مارب ، معبد شمس ، عرش بلقیس وغیرہ کے کھنڈرات سب پاس پاس واقع ہیں ۔ اس پورے علاقے کو وادیٔ سبا کہا جاتا ہے ۔ جب ہم کھنڈرات کی اس خشک وادی میں پہونچے تو یہ دوپہر کا وقت تھا۔ آسمان بالکل صاف تھا اور سورج اپنی پوری تابانی کے ساتھ چمک رہا تھا اور تیز روشنی بکھیر کر دیکھنے والوں کو دور سے دکھا رہا تھا۔

یہ تاریخی منظر جب میرے سامنے آیا تو اچانک ایسا محسوس ہوا جیسے کہ یہ سورج نہیں ہے بلکہ خدائی ٹارچ ہے جو اندھیرے میں اس لیے جلائی گئی ہے تاکہ لوگوں کو دکھا ئے کہ خدا کی طاقتیں کیا ہیں اوروہ قوموں کے ساتھ کس طرح کا معاملہ کرتا ہے ۔

یہاں ایک کتاب دیکھی ۔ اس کا نام تھا –––––– یمن کی از سر نو دریافت :

Yemen Rediscovered

کتاب کے مصنف مائیکل جینر (Michael Jenner) ہیں۔ وہ لندن میں پیدا ہوئے ۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم پائی اور اب لندن ہی میں رہتے ہیں ۔ وہ برٹش ٹورسٹ اتھارٹی کے مڈل ایسٹ ڈپارٹمنٹ میں کام کرتے ہیں۔ انھوں نے یمن کا سفر کیا اور علم الآثار کی جدید تحقیقات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ کتاب مرتب کی ۔ اس میں یہاں کے آثار کے بہت واضح فوٹو دیے گئے ہیں اور قدیم یمن  سےمتعلق نہایت مفید معلومات درج ہیں۔ یہ کتاب لانگ مین کمپنی نے چھاپی ہے ۔

 کتاب کے سرورق پر لکھا ہو ا تھا کہ یمن عرصہ دراز تک ان ملکوں میں شامل تھا جن کے بارے میں دنیا کو بہت کم معلومات تھیں۔ یمن نے اب اپنے دروازے بیرونی مشاہدین کے لیے کھول دیے ہیں:

For many years one of the least-known countries in the world, Yemen has recently opened its doors to foreign visitors.

آج اس طرح کی کتا بیں بڑی تعداد میں مختلف ملکوں کی قدیم تاریخ کے بارہ میں شائع ہو رہی ہیں۔ یہ گویا ، ایک اعتبار سے ، قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِيْنَ(:11     6) كی تفسیر ہے۔ قدیم زمانے میں قوموں پر ظاہر ہونے والے فیصلے دبے ہوئے کھنڈروں کی صورت میں زمین میں دفن تھے یا تاریخ کے پردہ میں چھپ گئے     تھے ۔ حتی ٰکہ اب لوگ آج کے " یمن" کو جانتے تھے ، وہ قدیم" یمن" سے ناواقف ہو چکے تھے۔ علم الآثار کے ماہرین گو یا موجودہ زمانےمیں خدائی کا رندے بن کر ظاہر ہوئے اور بڑھتے ہوئے سیاحتی ذوق نے اس کی ضروری قیمت ادا کی ۔ اس طرح ایسا ہوا کہ خدا کا فیصلہ جو تاریخ کے گرد و غبار میں چھپ گیا تھا۔ اس کو کھود کر اور تحقیق کر کے نکالا گیا اور عالمی مشاہدہ کے لیے اس کو دنیا کے سامنے رکھ دیا گیا۔ تاہم یہ پورا کام غیر مسلموں کے ذریعہ انجام پایا ہے۔ اس میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں۔

یکم نومبر کی دو پہر کو یہاں کی یونیورسٹی دکھائی گئی۔ اجتماعی طور پر تمام شرکاء  وہاں لے جائے گئے    ۔ یہ ایک مکمل یو نیورسٹی ہے جہاں تمام شعبے قائم ہیں ۔ ذریعۂ تعلیم عربی کے ساتھ انگریزی بھی ہے۔ اس کے مختلف حصوں کو دکھاتے ہوئے ایک ہال میں لے جایا گیا جہاں کلاس جاری تھی ۔ استاد نے بتایا کہ یہ" ٹرافک انجینیرنگ" کی کلاس ہے۔ انھوں نے عربی میں اپنے مضمون کا تعارف شروع کیا ۔ ایک شخص نے کہا کہ یہاں کچھ لوگ عربی نہیں جانتے اس لیے انگریزی ترجمہ ہونا چاہیے۔ استاد نے اس کے فوراً  بعد اپنی بات کو انگریزی میں کہنا شروع کیا ۔ جس روانی کے ساتھ وہ عربی میں بول رہے تھے ، اسی روانی کے ساتھ انگریزی میں بولنے لگے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ یہاں جو اساتذہ ہیں وہ لائق ہیں اور اپنے مضمون پر اچھی طرح تیار ہیں۔

یمن کے وسائل زیادہ نہیں ہیں ۔ ایک بڑی زیر تعمیر عمارت دکھائی گئی۔ یہ میڈیکل کالج تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ پورا کالج کویت کے تعاون کے تحت بنایا جا رہا ہے ۔ یہ یہی حال دوسرے ترقیاتی امور کا بھی ہے۔ تاہم تیل کی تلاش یہاں بڑے پیمانہ پر جاری ہے اگر تیل دریافت ہوگیا تو یمن  بھی دوسرے خلیجی ممالک کی طرح خوش حال ملک بن جائے گا ۔

صنعاء کے ماہنامہ الارشاد اور روز نامہ الثورہ نے انٹرویو لیا۔ الارشاد کا انٹرو یو تفصیلی تھا۔ وقت کی کمی کے باعث الثورہ کو میں صرف مختصر انٹرویو دے سکا۔ ٹیلی وژن کے لوگ بھی اصرار کر رہے تھے۔ مگر وقت کی کمی کے باعث میں ٹیلی وژن کو انٹرویو نہ دے سکا۔ الارشاد کا انٹرویو اس کے رئیس تحریر  د۔ عبد اللہ الواسطی نے لیا۔ انھوں نے گفتگو کا آغاز اس جملہ سے کیا :

الشيخ وحيد الدين، نرحّب بكم في هذا البلد الذي هو بلد كلّ مسلم

اس کے بعد انھوں نے جو سوالات کیے ان میں سے کچھ یہ تھے :

۱۔ هل تتفضل بإعطائنا تعريفا موجزا عن حياتك

۲۔كم هي المؤلفات التي صدرت لكم وهل تتفضلون كتاباً منها

۳۔هل لكم من تعليق على الصحوة الإسلامية القائمة اليوم

۴۔ماذا تتوقعون لمستقبل المسلمين في الهند

۵۔بالنسبة لجارتكم الباكستان متى تتوقعون سيفوز في الانتخاب المقبلة

 آخری سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ میرے اندازہ کے مطابق پاکستان کے آنے والے الکشن میں بھٹو پارٹی کامیاب ہوگی اور وہی حکومت بنائے گی ۔ یہ بات میں نے یکم نومبر ۱۹۸۸  کو کہی تھی ، جب کہ پاکستان کا الکشن ۱۶ نومبر کو ہوا۔

یمن کی وزارت اوقاف کی طرف سے ان کی مطبوعات بطورِ ہدیہ دی گئیں۔ ان میں سے ایک کتاب القانون المدني (المعاملات الشرعية) تھی جس کو علماء کی ایک کمیٹی نے مرتب کیا ہے۔ یہ تقریباًساڑھے سات سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں معاملات سے متعلق شرعی قوانین کو دفعہ وار مرتب کیا گیا ہے ۔ اس میں تیرہ سو سے زیادہ دفعات ہیں ۔ کتاب اصولی قوانین (القواعد الأصولية) سےشروع ہوتی ہے ، اور اموال اور جائداد کے غصب سے متعلق شرعی احکام پر ختم ہوتی ہے ۔ مادہ ۱۲۸۶میں کہا گیا ہے کہ شریعت کے مطابق ، غصب حرام ہے اور ظلم ہے (إن الغصب حرام وظلم )اس میں یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ جس شخص نے ایک بالشت کے برابر (زمین) غصب کی تو اللہ تعالٰی قیامت کے دن سات زمینوں کا طوق اس کی گردن میں پہنائے گا (مَنْ ‌غَصَبَ ‌شِبْرًا مِنْ الْأَرْضِ طَوَّقَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ)( المُحَلَّى لابن حزم: 1349)

عبد الکریم بن عبد الله العرشی (نائب رئيس الجمہوریہ) نے اپنے دیباچہ میں لکھا ہے کہ یہ قانون بلاشبہ بہترین چیز ہے جو عمومی طور پر ساری انسانیت کے لیے اور خصوصی طور اسلامی امت کے لیے پیش کیا جا سکتا ہے (ان هذا القانون لخير عمل يقدم للبشرية عامة وللامة الاسلامية خاصة) یہ کتاب شرعی احکام کی قانونی ترتیب ( تفنين أحكام الشريعة الاسلامية ) کی ایک کوشش ہے جس کی موجودہ زمانے میں سخت ضرورت ہے۔

یہاں ایک عربی کتاب نظر سے گزری ۔ اس کا نام تھا  ––––––– قرآن کی تلاوت پر اجرت لینے پر حجت اور برہان :

اقامة الحجة والبرهان على جواز أخذ الأجرة على تلاوة القرآن

  اس کتاب کے مولف یمن  کے ایک عالم محمد بن اسماعیل الامیر (۱۱۸۲ - ۱۱۱۰ھ) ہیں ۔ بعد کے زمانے میں اس طرح کی بے شمار کتا بیں لکھی گئی ہیں جن میں چھوٹے چھوٹے فقہی مسائل پر حجت و برہان قائم کیا گیا۔ مگر اقوامِ عالم پر حجّت و برہان قائم کرنے کے لیے کتا بیں نہیں لکھی گئیں۔ اگر کسی نے کوئی کتاب لکھی بھی تو وہ مناظرہ کے انداز میں، اور مناظرہ اقامتِ حجّت  نہیں۔

لندن سے آنے والے ایک صاحب نے کہا کہ یورپ میں اسلام کے خلاف سخت تعصب پایا جاتا ہے۔ مثلاً کئی تعلیمی اداروں سے یہ رپورٹ ملی ہے کہ ایک مسلمان طالب علم نے وہاں درخواست دی۔ انٹرویو کے وقت اس سے سوال کیا گیا کہ کیا تم بنیاد پرست (Fundamentalist) ہو۔ اگر اس نے کہا کہ ہاں تو اس کی درخواست رد کر دی جاتی ہے ۔

 میرے نزدیک یہ اغیار کا تعصب نہیں بلکہ خود اپنی حماقت کا نتیجہ ہے۔ وہ مسلم نوجوان جن کو "بنیاد پرست"  کہا جاتا ہے ، انھوں نے اپنی یہ تصویر بنائی ہے کہ وہ جہاں موقع پاتے ہیں نظام کے خلاف جھنڈا لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ تخریب کاری کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ایسی حالت میں جو لوگ ڈسپلن کو اہمیت دیتے ہوں۔ وہ ان کے ساتھ وہی کریں گے جو یورپ کی بعض تعلیم گاہوں میں پیش آیا ۔ جس شخص کے متعلق تخریب کاری کا تصور ہو ، وہ خود ہمارے دینی اداروںمیں قبول نہیں کیا جاتا ۔ پھر ایسا آدمی یورپ کے غیر دینی اداروں میں کیوں قبول کیا جائے گا۔

 عبد المنعم الخطاب ایک مصری عالم ہیں ۔ وہ تقریباً  ۲۴ سال سےامریکہ میں رہتے ہیں۔ وہاں وہ ٹولیڈو کے اسلامک سینٹر میں ، مدیر (ڈائرکٹر) ہیں۔ انھوں نے کہا کہ لوگ امریکہ میں اسلام کی تبلیغ کی باتیں کرتے ہیں ۔ مگر میرے نزدیک پہلی اہم ضرورت مسلمانوں کو مسلمان بنانا ہے  نہ کہ امریکیوں کو مسلمان بنانا (مهمة الاولى عندى هى اسلام المسلمين لا اسلام الأمريكيين)

 میں نے کہا کہ اسلام الامریکیین کے بغیر اسلام المسلمین ممکن نہیں ۔ اصل یہ ہے کہ کردار محض وعظ و نصیحت سے پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ اعلیٰ مقصد سے پیدا ہوتا ہے۔ موجودہ مسلمان بے مقصد ہیں،اسی لیے وہ بے کر دار ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کو اخلاقی اعتبار سے اٹھانے کے لیے بھی ضروری ہے کہ ان کے اندر مقصدی شعور پیدا کیا جائے ۔ جب ان کے اندر مقصدی شعور آئے گا تو وہ مقصد کے لیے بھی متحرک ہوں گے اور یہی چیز ان کے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کرنے کا سبب بھی بن جائے گی ۔ اوردعوت ہی بلا شبہ سب سے بڑا اسلامی مقصد ہے ۔

سفر کے دوران ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ عربی یا انگریزی دونوں میں سے کوئی زبان نہیں جانتے تھے۔ ہم کچھ دیر تک ساتھ رہے مگر قریب ہونے کے باوجود ان سے" ربط "قائم نہ ہو سکا۔ گویا وہی کیفیت تھی کہ :

زبانِ یار من ترکی و من ترکی نمی دانم

اس وقت خیال ہوا کہ نطق اور زبان خدا کی کیسی عجیب نعمتیں ہیں ۔ اگر آدمی کے اندر بولنے کی صلاحیت نہ ہو، یا وہ دوسرے لوگوں کی زبان نہ جانتا ہو، تو انسانی ہجوم کے اندر بھی وہ اپنے آپ کو اکیلا محسوس کریگا ۔ انسان کی تمام سرگرمیاں اور اس کی تمام ترقیاں نہایت گہرے طور پر نطق کی صلاحیت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اسی کے ذریعےایک انسان دوسرے انسان سے ربط قائم کرتا ہے ۔ اسی کے ذریعے مختلف لوگوں کی تحقیقات دوسروں تک پہنچتی ہیں اور انسانیت کی مجموعی ترقی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی کے ذریعے انسان اپنے دل کی بات سے دوسروں کو باخبر کرتا ہے ۔

اس عجیب و غریب نعمت کا احساس اس وقت نہیں ہوتا جب کہ آدمی اپنے ہم زبان لوگوں کے درمیان رہ رہا ہو ۔ اس نعمت کا صحیح احساس اس وقت ہوتا ہے جب کہ وہ اپنے آپ کو ایسے لوگوں کے درمیان پائے جہاں نہ دوسرے لوگ اس کی زبان جا نیں اور نہ وہ دوسرے لوگوں کی زبان جانتا ہو۔ ایسے ماحول ہی میں صحیح طور پر احساس ہوتا ہے کہ نطق اور زبان کیسی عجیب خدا کی نعمتیں ہیں۔

ایک صاحب اپنے ملک کے سیاسی حالات کی بنا پر اپنے وطن سے باہر یورپ کے ایک ملک میں رہتے ہیں۔ انھوں نے عالمی پناہ گزینوں کے مسئلہ پر تقریر کی اور کہا کہ ان پناہ گزینوں میں بہت بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے ۔ ان کے بارےمیں مسلم ملکوں کو ایک مستقل ادارہ قائم کرنا چاہیے جوان کی مدد کر سکے ۔ ان کی تقریر کی رپورٹ تیار ہو کر آئی تو عربی رپورٹ میں درج تھا : وقدجرى التأكيد على ضرورة الاهتمام باللاجئين اهتماماً یتكافأ مع كون ثلث المسلمين هم لاجئون في هذا العالم ۔ اسی طرح انگریزی رپورٹ میں یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے :

This matter was emphasized as one third of the Muslims are refugees in this world.

اس کا مطلب یہ تھا کہ دنیا بھر میں جو مسلمان ہیں ان کا ایک تہائی حصہ پناہ گزین کے طور پر زندگی گزار رہا ہے۔ یعنی دنیا کے ایک ارب مسلمانوں میں سے تقریباً  ۳۳ کرور ۔ ظاہر ہے کہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ مذکورہ مقرر نے در اصل یہ کہا تھا کہ عالمی پناہ گزینوں کی جو تعداد ہے ان میں تقریبا ً ایک تہائی مسلمان پناہ گزین ہیں ۔ گویا کہنے والے نے پناہ گزینوں میں تہائی کی بات کہی تھی ، مگررپورٹ مرتب کرنے والوں نے اس کو مسلمانوں کی مجموعی تعداد کا تہائی کر دیا ۔

یہ غلطی کی وہ قسم ہے جو موجودہ دنیامیں بہت زیادہ عام ہے ۔ اس لیے کسی کے خلاف کوئی بات علم میں آئے تو تحقیق کے بغیر ہرگز اس کو ماننا نہیں چاہیے۔

 یہاں جناب محمد شیر چودھری (پیدائش ۱۹۳۸ ) سے ملاقات ہوئی۔ وہ پاکستان سےہجرت کر کے ساؤتھ افریقہ گئے     اور اب وہ وہیں رہتے ہیں ۔ انھوں نے اپنا ایک قصہ بتایا ۔ ۱۹۸۶ میں ڈربن کے اور ینٹ ہال میں ان کی تقریر ہوئی۔ تقریر کے بعد حاضرین میں سے ایک شخص نے سوال کیا : کیا آپ اس پر مطمئن ہیں کہ واقعی صدر ضیا الحق پاکستان میں اسلام لانا چاہتے ہیں۔ اس کے جواب میں محمد شیر چودھری نے کہا : "میں سمجھتا ہوں صدر ضیاء تو اسلام لانا چاہتے ہیں مگر علماءشاید اسلام نہیں لانا چاہتے "۔

 میں نے کہا کہ ایک لفظی فرق کے ساتھ میں اس جواب سے متفق ہوں ۔ آپ نے کہا کہ علماء اسلام کو لانا نہیں چاہتے ، میں کہوں گا کہ علماء اسلام کو لانے نہیں دیتے ۔

کسی معاشرہ میں اسلام کولانا ایک تدریجی عمل ہے ۔ اس کے لیے نا قابل برداشت کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جو چیز آج ممکن ہے اس سے آغا ز کیا جا تا ہے ، اور جو چیز آج ممکن نہیں ہے، اس سے اعراض کر نا پڑتا ہے۔ مگر علماء صبر اور اعراض اور تدریج کو نہیں جانتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ فورا ً اسلام کا غلبہ قائم ہو جائے ۔ علماء کی یہی تعجیل پاکستان میں اسلام کی تاخیر کا سبب بن رہی

ہے۔ پاکستان کے علماء عملی طور پر صرف اس پوزیشن میں تھے کہ وہ پاکستان کے لوگوں میں اسلامی شعور کو بیدار کریں۔ مگر پاکستان کے بنتے ہی وہ اسلامی حکومت قائم کرو کا نعرہ لے کر کھڑے ہو گئے۔ وہ ہر حکمراں کو مخالف اسلام قرار دے کر اس کو اقتدار سے ہٹانے کی مہم چلاتے رہے۔ علماء کی یہی وہ نادانی ہے جس نے ۴۰  سال بیتنے کے باوجود پاکستان میں اسلام کو آنے نہیں دیا۔

 اس پر جناب محمد چودھری نے اپنا ایک اور لطیفہ بیان کیا۔ انھوں نے ایک بار کسی سے کہا کہ وہ ہر شخص کا مقابلہ کر سکتے ہیں، مگر وہ مولوی کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ سننے والے نے پوچھا کہ کیوں۔ انھوں نے جواب دیا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مولوی فوراً ہی چھلانگ لگا کر اپنی گاڑی پانچویں گیر میں چلا دے گا :

He must at once jump into the 5th gear.

ایک صاحب جو یورپ سے آئے تھے، مگر اصلاً وہ افغانی ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ اس وقت۱۵ ملین افغانی باشندے افغانستان میں ہیں۔ ۳ملین افغانی پاکستان میں ہیں اور ۲ ملین ایران میں۔پاکستان کے ایک صاحب نے بتایا کہ افغانستان سے جو لوگ پاکستان گئے     ، ان کی بڑی تعداد اب افغانستان جانے میں دل چسپی نہیں رکھتی۔ کیوں کہ انھوں نے پاکستان میں کافی تجارتیں پھیلائی ہیں جن کی امید وہ موجودہ افغانستان میں نہیں رکھتے۔ اسی طرح بہت سے افغانی نوجوانوں نے اپنے ملک سے نکل کر تعلیم حاصل کی ۔ اب وہ یورپ اور امریکہ میں اچھی ملازمتوں میں ہیں، وہ بھی اس میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتے کہ افغانستان واپس جائیں جو مسلسل جنگوں کے نتیجے میں برباد ہو چکا ہے ۔

 افریقہ کے ایک صاحب نے کا نفرنس میں کہا کہ موجودہ زمانے میں بہت سے مسلمان اپنے سیاسی عقیدہ کی وجہ سے اپنے مذہبی حقوق سے روکے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایرانیوں کی مثال دی کہ سعودی عرب نے ان کو حج سے روک دیا ہے ۔ چنانچہ اس سال ایرانی حاجی مکہ نہ جاسکے ۔ کویت کے ایک بزرگ نے فوری طور پر اس کی تردید کی۔ انھوں نے کہا کہ یہ بیان واقعہ کے مطابق نہیں ہے ۔ سعودی حکومت نے ہر گز ایسا نہیں کیا کہ وہ ایرانیوں کو حج سے روکے۔ ان کوبدستور اجازت حاصل تھی ۔ یہ خود ایرانی تھے جنھوں نے احتجاج کے نام پر اس سال حج کا سفرنہیں کیا۔

یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک واقعہ صحیح ہونے کے باوجود اس کی توجیہہ حد درجہ غلط ہو سکتی ہے ۔ مذکورہ مثال میں ایک واقعہ جس کے ذمہ دار  حقیقتاًایرانی تھے، اس کو ایک شخص نے غلط طور پر سعودی عرب کی طرف منسوب کر دیا۔ اسی لیے حکم دیا گیا ہے کہ کس کے خلاف کوئی بیان دینے سے پہلے اس کے بارے میں مکمل تحقیق کرو۔

۴ نومبر کو مجھے فجر سے پہلے واپس روانہ ہونا تھا تاکہ میں وقت پر ہوائی اڈہ پہنچ کر ساڑھے پانچ بجے کے جہاز کو پکڑ سکوں ۔ ہوٹل کے استقبالیہ میں شام کو میں نے لکھوا دیا کہ صبح ۳ بجے مجھے جگا دیا جائے ۔ رات کو میں سورہا تھا کہ ٹھیک وقت پر ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے لگی ۔ یہ ہوٹل والوں کی طرف سےو یک اپ کال (Wake-up call) تھی۔ گویا کہ آواز دینے والا کہہ رہا تھا کہ اٹھ جاؤ۔ اب سونے کا وقت ختم ہو گیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ صورِ اسرافیل بھی اسی قسم کا ایک ویک اپ کال ہو گا۔ آج تمام لوگ سو رہے ہیں ۔ کسی کو آنے والے دن کا احساس نہیں۔ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب کہ اسرافیل کا صور گونج اٹھے ۔ کیسی عجیب ہو گی یہ خدائی پکار ، اور کیسے عجیب ہیں وہ لوگ جواس خدائی پکار سے غافل ہو کر بے خبر سو رہے ہیں ۔

میں سفر میں ہمیشہ مختصر سامان رکھتا ہوں ۔ عام طور پر صرف ایک چھوٹا ہینڈ بیگ میرے ساتھ ہوتا ہے ۔ صنعاء  سے ۴  نومبر کی صبح کو ہوٹل سے نکلا تو ہمارے یمینی گائڈ نے پوچھا آپ کا سامان ، میں نے اپنے ہاتھ کا بیگ دکھاتے ہوئے کہا کہ بس یہی میرا سامان ہے ، اس کے سوا اور میرا کوئی لگیج نہیں۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا : افلح من خفّ متاعه (وه شخص کامیاب رہا جس کا سامان کم ہو)

یہ گویا اسلامی تہذیب کا کلمہ تھا جو ان کی زبان سے نکلا۔ جزیرہ ٔعرب  پر اسلام کے اثرات اتنے گہرے ہیں کہ عربوں کی زبان اور ان کے انداز میں ابھی تک اس کے نشانات واضح طور پر نظرآتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ عربوں کا باہمی اختلاف اگر کسی طرح ختم ہو جائے تو اس کے بعد ان کے پاس جو کچھ بچے گا وہ وہی اسلامی تہذیب ہوگی جو چودہ سو سال پہلے پیغمبر عربی کے ذریعہ انھیں ملی تھی۔

صنعاء سے کراچی کا سفر پاکستان ایرلائنز کی فلائٹ ۷۴۶ کے ذریعہ ہوا۔ راستہ میں پاکستانی اخبارات پڑھنے کو ملے۔ روز نامہ حریت (۳  نومبر ۱۹۸۸) کی چند سر خیاں یہ تھیں :

 کوئی جماعت بھی جیتے ، حکومت انتخابی نتائج کو تسلیم کرے گی۔ مصطفیٰ صادق

۱۶نومبر عوام دشمن قوتوں کی شکست کا دن ہے ۔ بیگم نصرت بھٹو

پاکستانی عوام اسلام کے سوا کسی اور ازم کو تسلیم نہیں کرتے ۔ مولانا نورانی

 حکمرانوں کے لیے انتخابات کے بعد انتقال اقتدار کے سوا کوئی راہ نہیں۔ مارشل اصغر خاں

اسلامی جمہوری اتحاد بر سراقتدار  آکر ظالموں کے ہاتھ کاٹ دے گا ۔ نواز شریف

انگریزی روزنامہ مارننگ نیوز (۳  نومبر ۱۹۸۸) کے صفحۂ اول کی ایک سرخی یہ تھی :

Islamic forces will emerge triumphant (Fazle Haq.)

روزنامہ جنگ (۳ نومبر ۱۹۸۸) بھٹو پارٹی کے تذکرے سے بھرا ہوا تھا۔ اس میں یا تو بھٹو پارٹی کے لیڈروں کی تقریریں تھیں ۔ یا مخالف پارٹی کی طرف سے بھٹو پارٹی کی مذمت۔ ایسا محسوس ہوا جیسے تمام دوسری جماعتوں کے اوپر بھٹو پارٹی کابوس  بن کر سوار ہے۔ اس کے مقابلےمیں وہ اپنے کو دفاعی پوزیشن میں محسوس کر رہے ہیں ۔ اخبار جنگ میں جماعت اسلامی کے پروفیسر عبد الغفور کا ایک احتجاجی خط تھا جس میں انھوں نے اخبار جنگ سے شکایت کی تھی کہ "پاکستان کی انتخابی مہم میں جنگ کے نمائندے متعصبانہ اور جانبدارانہ انداز میں رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ وہ اسلامی اتحاد کے اجتماعات گھٹا کر شائع کرتے ہیں یا بالکل شائع نہیں کرتے" ۔

صنعاء سے کراچی تک بنگلہ دیش کے ایک صاحب کا ساتھ رہا۔ انھوں نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں بنگلہ دیش کے کئی ہزار آدمی مختلف حیثیتوں سے کام کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ۱۹۷۱ میں پاکستان کے خلاف" آزاد بنگلہ دیش"  کا جھنڈا اٹھایا تھا، مگر آزادی کے بعد  جب انہوں نے دیکھا کہ بنگلہ دیش میں کام کے مواقع نہیں ہیں تو وہ پاکستان آ کر یہاں کام کرنے لگے ۔ اسی طرح بہت سے  بنگلہ دیشی  مسلمان  ہیں جو یورپ اور امریکہ جا کر اپنے لیے   کام تلاش کر رہے ہیں  –––––  "سونار بنگلہ"  جب نعرہ تھا تو ہر آدمی کو سوناربنگلہ سے دل چسپی تھی۔ مگر سونار بنگلہ جب واقعہ بن گیا تو اب کسی کو اس سے کوئی دل چسپی نہیں۔

میں نے سوچا کہ ۷۱ - ۱۹۷۰ میں اگر کوئی شخص یہ کہتا کہ بنگلہ دیش کو آزاد کرانے کی تحریک ختم کردو اور پاکستان کی "ماتحتی " میں رہ کر اپنی تعمیرو ترقی کا کام کرو تو سارے بنگلہ دیش میں کوئی ایسے شخص کا ساتھ نہ دیتا۔ اس کے بر عکس شیخ مجیب الرحمان کی آزاد بنگلہ دیش کی تحریک کا ساتھ دینے کے لیے تمام بنگالی  مسلمان امنڈ پڑے ۔ حالاں کہ بالآخر اس کا جو انجام ہونا تھا وہ صرف یہ کہ شیخ مجیب الرحمن کو خود بنگالی مسلمان مار ڈالیں اور بنگلہ دیش دنیا کا سب سے زیادہ پست اور کمزورملک بن کر رہ جائے ۔

 جذباتی رہنمائی اور حقیقت پسندانہ رہنمائی میں کتنا ز یا دہ فرق ہے۔ مگر مسلمان ہر ملک میں، ایک یا دوسری صورت میں جذباتی رہنماؤں کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ بربادی اور ہلاکت کی صورت میں بار بار اس کے نتیجے کا سامنے آنا بھی انھیں جذباتی رہنماؤں کے پیچھے دوڑنے سے روکنے والانہ بن سکا ۔

۴ نومبر کی دوپہر کو کراچی پہونچا ظہر کی نماز یہاں ایر پورٹ کی مسجد میں پڑھی ۔" ایر پورٹ" کے ساتھ "مسجد" گویا دنیا کے ساتھ دین کو جوڑنے کی کوشش ہے ۔ اسلام کے مطابق دینداری یہ نہیں ہے کہ آدمی دنیا کو چھوڑ کر روحانی جزیرہ میں چلا جائے ۔ صحیح دینداری یہ ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے وہ دین دار بنارہے۔ اس کا جسم بظاہر دنیا میں دکھائی دے مگر اس کا دل خدا کی یاد میں مشغول ہو۔

کراچی سے دہلی کے لیے میرے علاوہ تقریباً  ایک درجن مسافر اور تھے۔ ان کے عورتیں اور بچے بھی تھے ۔ دہلی کے مسافروں کو انتظار گاہ کے ایک حصہ میں بٹھا دیا گیا تھا۔ یہاں ان ہندستانیوں کے بچے مستقل طور پر شور و غل کرنے میں مشغول تھے اور اسی کے ساتھ ان کی مائیں بھی۔ مغربی دنیا میں ہندستانیوں کو بہت حقیر سمجھا جاتا ہے۔ اور مجھے اس سے پورااتفاق ہے۔ ہندستانی انسان اخلاقی اعتبار سے اتنے پست ہو چکے ہیں کہ مقابلۃ ً اگر دیکھا جائے تو وہ مغربی انسان کے مقابلےمیں غیر انسان نظر آئیں گے۔ باہر کی دنیا میں چھوٹے چھوٹے ملک بھی ہندستان سے بہتر نظر آتے ہیں۔ ہندستان کا انسان میر ے تجربہ میں ، با اصول زندگی سے واقف نہیں ۔ وہ صرف ایک چیز جانتا ہے ، اور وہ اس کی اغراض اور خواہشیں ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندستان انسانی آبادی سے زیادہ ایک جنگل کے مشابہ ہے۔اور جنگل میں محفوظ طور پر زندہ رہنے کی صورت صبر و اعراض کے سوا اور کچھ نہیں۔

 ۴  نومبر کو کراچی سے دہلی آتے ہوئے ہوائی جہاز میں میرے پاس کی سیٹ خالی تھی۔ دورانِ پرواز اچانک ایک صاحب آئے اور اس پر بیٹھ گئے۔ دیکھا تو وہ جناب فطین اشرف صدیقی ( پیدائش  ۱۹۶۲) تھے ۔ وہ سیتا مڑھی (بہار) سے تعلق رکھتے ہیں اور آج کل مسقط (سلطنت عمان) میں بہ سلسلۂ روزگار مقیم ہیں۔ گفتگو کے دوران پاکستان کے آئندہ ہونے والے الکشن (۱۶ نومبر ۱۹۸۸) کا ذکر ہوا۔ انھوں نے بتایا کہ ہمارے یہاں بڑی تعداد میں پاکستان کے لوگ آباد ہیں ۔ ان کا عام خیال یہ ہے کہ اس الکشن ہیں "اسلامی اتحاد" کے لوگ جیتیں گے اور وہی آئندہ حکومت بنائیں گے۔ خاص طور پر" اسلامی جماعت" کے لوگ تو اس طرح بات کرتے ہیں گویا پاکستان کا سیاسی مستقبل انھیں کے ہاتھ میں ہے ۔

میں نے کہا کہ یہ ناممکن ہے ۔ اگر کھلا الکشن ہوتا ہے تو یقینی ہے کہ بے نظیر بھٹو کی پارٹی جیتے گی اور وہی حکومت بنائے گی۔ یہ بات الکشن سے دو ہفتہ پہلے ہو رہی تھی جب کہ دنیا بھر کے "اسلام پسند" پاکستان میں "اسلامی جماعت" کی کامیابی کا بالکل یقین کیے ہوئے تھے ۔ چنانچہ فطین اشرف صدیقی صاحب کو میرے اس بیان پر بہت تعجب ہوا۔

 میں نے کہا کہ پاکستان کا یہ الکشن ایک کسوٹی ہے ۔ ایک رائے پاکستان کے اور دنیا بھر کے"اسلام پسندوں" کی ہے اور ایک رائے میری ہے ۔ اس معاملہ میں اگر "اسلام پسند" لوگوں کی رائے درست نکلی تو وہ لوگ با بصیرت ہیں اور میں بے بصیرت ۔ اس کے برعکس اگر میری رائے درست ثابت ہو تو آپ کو ماننا ہو گا کہ میں بابصیرت ہوں اور وہ لوگ بے بصیرت ۔ فطین اشرف صاحب یہ سن کر نا قابل فہم تعجب کے ساتھ خاموش ہو گئے     ۔

آج  ہر شخص جانتا ہے کہ ۱۶ نومبر کے پاکستان الکشن میں بھٹو پارٹی نے، ووٹروں کے لیے   شناختی کارڈ کی شرط جیسے بعض ناموافق حالات کے باوجود سب سے بڑی کامیابی حاصل کی۔ یہاں تک کہ یکم دسمبر ۱۹۸۸ کو بے نظیر بھٹو وزیر اعظم پاکستان کی کرسی پر بیٹھ چکی تھیں ۔ دوسری طرف پاکستان کی" اسلامی جماعت" کا یہ حال ہوا کہ اس کے تمام امیدوار ہار گئے۔ پاکستان کی مرکزی اسمبلی میں اس کو کوئی سیٹ نہ مل سکی ۔

موجودہ زمانے کے تمام مسلم رہنماؤں کا یہ حال ہے کہ وہ حقائق کے بجائے امانی میں جیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ معاملات میں صحیح رائے قائم نہیں کر پاتے ۔ پاکستان کے اسلامی مفکرین ۴۰ سال تک یہ کہتے رہے کہ پاکستان کے سارے مسلمان اسلامی نظام چاہتے ہیں۔ صرف چند سیاسی حکمراں ہیں جو اس کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام کو اگر آزادانہ اظہار رائے کا موقع ملے تو وہ یقینی طور پر اسلامی نظام کے حق میں رائے دیں گے۔ مگر پہلے ہی آزادانہ انتخاب نے اس مفروضہ کو غلط ثابت کر دیا ۔

 اسی بے بصیرتی کی بنا پر ایسا ہوا کہ پاکستان کے قیام (۱۹۴۷) کے بعد سے ۴۰  سال تک ان کی ساری کوشش حکمرانوں کو سیاسی اقتدار سے ہٹانے یا انھیں پھانسی دینے پر مرتکز  رہی، مگرحکمرانوں کو ہٹانے کے بعد جب عوامی الکشن ہوا تو معلوم ہوا کہ اسلامی نظام کی راہ میں اصل رکاوٹ حکمران نہیں بلکہ خود پاکستانی عوام تھے ۔ اگر یہ مسلم رہنما صحیح بصیرت کے حامل ہوتے تو ۱۹۴۷ کے بعد وہ اپنی ساری کوشش عوام کا ذہن بنانے میں لگا دیتے ۔ مگر اپنی غلط تشخیص کی بنا پر انھوں نے اپنی ساری کوشش حکمراں افراد کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں لگادی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وقت اور طاقت کا بے شمار سرمایہ صرف کرنے کے باوجود کوئی مثبت فائدہ ان کے حصہ میں نہ آسکا۔

پاکستان ایر لائنز پر آج (۴نومبر ۱۹۸۸) کے پاکستانی اخبارات تھے ۔ ہر ایک میں صفحۂ اول کی پہلی سرخی یہ تھی :  "مالدیپ پر ہندستانی فوج کا حملہ " اس کے ساتھ ہر اخبار میں ، ایک یا دوسرے لفظوں میں یہ بات تھی کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور پاکستان میں اسلام کا نظام ہی نافذ ہوگا۔ میں نے سوچا کہ یہ اخبارا ت اگر یہ لکھتے تو زیادہ صحیح ہوتا کہ پاکستان اسلام کے نام پر قومی دھوم  کے لیے بنا ہے اور پاکستان میں اسلام کے نام پر قومی دھوم جاری رہے گی۔ اور اس کا ایک ثبوت مذکورہ بالا خبر ہے ۔ اگر پاکستان کے صحافیوں میں اسلام کا مزاج ہوتا تو وہ اس خبر کو اس کی صحیح شکل میں چھاپتے۔ مگر اس کو انھوں نے اپنے مخصوص قومی سانچہ میں ڈھال کر شائع کیا ۔

 اصل حقیقت یہ ہے کہ ایک مالدیپی تا جر(عبد الله لطفی ) نے کولمبو کے پاس ایک پولٹری فارم میں اپنا مرکز بنایا۔ وہاں اس نے لنکا کے دہشت گرد نوجوانوں کو بھرتی کر کے ایک دستہ تیار کیا۔ ان کو کشتیوں کے ذریعہ اس نے مالدیپ میں اتارا اور مالدیپ کے صدر مامون عبد القیوم کی رہائش گاہ پر حملہ کر دیا ۔ اس وقت مامون عبد القیوم نے پڑوسی ہندستان سے مدد کی درخواست کی۔ ہندستان سے بذریعۂ ہوائی جہاز فوج بھیجی گئی جس نے بغاوت کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔ واضح ہو کہ مالدیپ کے پاس اپنی کوئی فوج نہیں ہے ۔

۴ نومبر کو میں پیشگی اطلاع کے بغیر دہلی پہونچا تھا۔ اس لیے یہ معلوم تھا کہ ہمارے دفتر کا کوئی آدمی ایر پورٹ پر موجود نہ ہوگا ۔ میں چاہتا تھا کہ ٹیلی فون کے ذریعہ دفتر میں اپنی آمد کی اطلاع دیدوں۔ تاکہ وہاں سے کوئی شخص آجائے ۔ مگر ہوائی جہاز سے اترنے کے بعد آدمی کو امیگریشن کی کھڑکی پر لائن لگانی پڑتی ہے اور یہاں کافی وقت لگ جاتا ہے ۔ اب مسئلہ یہ تھاکہ پبلک ٹیلی فون باہر کے حصہ میں تھا۔ میں نے چاہا کہ امیگریشن کی لائن میں لگنے سے پہلے میں ٹیلی فون کر دوں تاکہ جب میں یہاں سےفارغ ہو کر باہر نکلوں ، اس وقت تک دفتر سے کوئی شخص آچکا ہو۔

 اندر صرف پولس کا ٹیلی فون تھا۔ میں پولس کے دفتر میں گیا اور اپنی ضرورت بیان کی ۔پولیس کا آدمی یہ کہہ سکتا تھاکہ یہ دفتر کا ٹیلی فون ہے ۔ آپ پبلک بوتھ پر جا کر ٹیلی فون کریں۔ مگر اس نے میری ضرورت محسوس کی اور فوراً ٹیلی فون کو میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ کر لیجئے۔ پہلے زیرو گھمائیے ، اس کے بعد اپنا نمبر ڈائل کیجئے ، اس نے کہا۔ چنانچہ میں نے پولس کے دفتر سے ٹیلی فون کر دیا۔ جب میں اندر کی کارروائیوں سے فارغ ہوکر باہر نکلا ، تو وہاں دفتر کا آدمی بھی آچکا تھا۔

 یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر آپ اپنی ضرورت کو معقول طور پرپیش کر سکیں تو فریق ثانی خود اپنے ضمیر کے تحت اس کو ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے ، خواہ وہ پولس کا آدمی ہو یا غیر پولس کا آدمی ۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom